آج کی تاریخ

معیشت مستحکم ہے؟؟؟؟؟؟؟

پاکستان میں انقلابی تعلیم: ٹیکنالوجی کی تبدیلی کی طاقت

سیاسی ہلچل اور معاشی چیلنجوں کے درمیان، پاکستان کے تعلیمی منظرنامے پر جن چیلنجوں کا سامنا ہے اس طرف کچھ زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی-پاکستان کی تعلیمی جدوجہد کے مرکز میں عدم مساوات کا گہرا مسئلہ ہے۔ چاہے اسے وسائل کی غیر مساوی تقسیم کے طور پر دیکھا جائے یا مجموعی رسائی کی کمی کے طور پر دیکھا جائے۔ مراعات یافتہ اور پسماندہ علاقوں کے درمیان تقسیم واضح ہے۔ جیسے جیسے قوم اہم مسائل سے دوچار ہورہی ہے ویسے ویسے تعلیمی اعتبار سے پسماندہ علاقوں میں احساس محرومی کا شکار نوجوانوں کے لجوں میں بھی تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔، سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا ٹیکنالوجی تبدیلی، تعلیمی خلا کو ختم کرنے اور پاکستان کو روشن مستقبل کی طرف لے جانے کا محرک ثابت ہو سکتی ہے؟تعلیم کے دائرے میں، ٹیکنالوجی امید کی کرن کے طور پر کھڑی ہے، جو نظام کے اندر سے ابھرنے والے چیلنجوں کے لیے تبدیلی کے حل پیش کرتی ہے۔ ٹیکنالوجی سے چلنے والی ایجادات نہ صرف رسائی کے مسائل کو حل کرتی ہیں بلکہ پاکستان کے تعلیمی منظر نامے سے منفرد روایتی مسائل سے بھی نمٹتی ہیں۔ جیسا کہ قوم جامع اور موثر تعلیم کے لیے کوشاں ہے، ٹیکنالوجی کے کردار کو تلاش کرنا اہم ہو جاتا ہے۔پاکستان میں ٹیکنالوجی کو تیزی سے اپنانا (جو کہ ٹیک سیوی نوجوانوں کے ذریعے ہوا، ملک کو 2022 میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی ایپ مارکیٹوں میں شامل کرتا ہے) اپنانے کا یہ رجحان نہ صرف اختراع کے لیے تیاری کا اشارہ دیتا ہے بلکہ نظامی تعلیمی نظام پر قابو پانے کے لیے ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کی بنیاد بھی رکھتا ہے۔ چیلنجزتعلیم میں تفاوت واضح ہے، جس کی خصوصیت غیر مساوی تقسیم اور وسائل کی کمی ہے۔ ٹکنالوجی اس بیانیے کی ازسرنو وضاحت کرنے کے لیے ایک راستہ فراہم کرتی ہے، جو لاگت سے موثر حل پیش کرتی ہے جو رسائی کے مسائل کو حل کرتی ہے اور روایتی رکاوٹوں کو دور کرتی ہے۔ مزید برآں، ٹیکنالوجی کو جس رفتار سے اپنایا جا سکتا ہے وہ تیز رفتار اور اثر انگیز تبدیلیوں کی اجازت دیتی ہے، جو روایتی تعلیمی ماڈلز میں دیکھی جانے والی سست پیش رفت کو پیچھے چھوڑتی ہے۔انسانی مرکوز ڈیزائن جو ٹیکنالوجی کو شامل کرتے ہیں پاکستان کے تین گنا تعلیمی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں: طلباء اور اساتذہ کے درمیان فرق، طلب اور رسد دونوں اطراف سے اسکول کی لاگت، اور تعلیم تک رسائی۔ مزید یہ کہ ٹیکنالوجی روایتی طریقوں کے مقابلے ان بحرانوں کا تیز تر حل پیش کرتی ہے۔ ایڈکاسا کی ٹک ٹاک کے ساتھ کامیاب شراکت داری، سیکھنے کے بہتر نتائج کے لیے پلیٹ فارم کی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس طرح کے تعاون کی طاقت کا ثبوت ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے چلنے والے “منسلک کلاس رومز” کے تصور پر غور کریں۔ اس ماڈل میں، ایک واحد استاد ہزاروں طلباء کو علم اور مہارت فراہم کر سکتا ہے، ثقافت، نقل و حمل کے اخراجات، اور رسائی سے متعلق رکاوٹوں کو ختم کر سکتا ہے — یہ سب ایک اسمارٹ فون کے ذریعے ہے۔ چونکہ روایتی اینٹوں اور مارٹر وعدے تیزی سے غیر پائیدار ہوتے جاتے ہیں، ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کو اپنانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔اگرچہ موبائل فون کی ملکیت اور انٹرنیٹ کے استعمال میں صنفی تفاوت برقرار ہے، ٹیکنالوجی شمولیت کے لیے ایک طاقتور ذریعہ ہو سکتی ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاکستان میں 81 فیصد مردوں کے پاس فون تک رسائی ہے، جبکہ خواتین کی تعداد صرف 52 فیصد ہے۔ یہ ڈیجیٹل صنفی فرق ٹیک پر مبنی حل کا مطالبہ کرتا ہے جو پوری آبادی کو پورا کرتا ہے، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پیشرفت شامل ہے اور کسی کو پیچھے نہیں چھوڑتی ہے۔پاکستان میں تعلیمی اعدادوشمار کا جائزہ لینے پر اختراعی حل کی فوری ضرورت واضح ہو جاتی ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق، کچھ خطوں میں صرف 50% خواتین نے کبھی سکول جانا ہے۔ یہ تشویشناک اعداد و شمار ایسے تبدیلیوں کے حل کی ضرورت پر زور دیتا ہے جو تعلیمی معیار کو بلند کر سکیں اور زیادہ مساوی مستقبل کی راہ ہموار کر سکیں۔حالیہ برسوں میں تعلیم کے لیے بجٹ میں اضافے کے باوجود، اعلیٰ خواندگی کی شرح اور ملازمت میں بہتری جیسے ٹھوس نتائج اب بھی نہیں ہیں۔ مختص اور نتائج کے درمیان مماثلت ایک پیراڈائم شفٹ کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔ ٹیکنالوجی، اپنی لاگت کی تاثیر اور توسیع پذیری کے ساتھ، روایتی تعلیمی ماڈل کا ایک امید افزا متبادل پیش کرتی ہے۔ٹیکنالوجی سے چلنے والے حل پاکستان کے تعلیمی نظام کو درپیش منفرد چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تعلیم تک رسائی میں صنفی تفاوت کو کم کرنے سے لے کر لاگت سے موثر اور توسیع پذیر انفراسٹرکچر فراہم کرنے تک، ٹیکنالوجی دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔ مزید برآں، یہ حل ثقافتی اور حفاظتی مسائل پر قابو پانے کا ایک قابل عمل ذریعہ پیش کرتے ہیں جو تاریخی طور پر خواتین کی تعلیم میں رکاوٹ ہیں۔جب کہ پاکستان معاشی پریشانیوں سے دوچار ہے اور پالیسی ساز فوری مسائل پر تشریف لے جاتے ہیں، تعلیم اکثر پیچھے رہ جاتی ہے۔ تاہم، ٹیکنالوجی کی تبدیلی کی طاقت کو بڑھاوا نہیں دیا جا سکتا۔ صحیح حکمت عملیوں اور سرمایہ کاری کے ساتھ، ٹیکنالوجی سے چلنے والے تعلیمی حل تیز، زیادہ موثر اور قابل توسیع نتائج فراہم کر سکتے ہیں، جو نہ صرف فوری چیلنجوں سے نمٹتے ہیں بلکہ ایک مضبوط اور جامع تعلیمی نظام کی بنیاد بھی رکھتے ہیں۔

بجلی پھر مہنگی کرنے کی تیاری

آئی ایم ایف سے نئی قسط کی منظوری کے کیلئے 25 فیصد کراس سبسڈی میں کٹوتی کیساتھ بجلی کا نیا ٹیرف تیار کیا گیا ہے- لائف لائن سمیت 400 یونٹ سے کم کے بجلی صارفین سے 222 ارب روپے کی کراس سبسڈی واپس لے لی جائیگی۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں 30 فیصد کمی اور پی پی پی کی جانب سے 300 یونٹ مفت دینے کے جاری انتخابی مہم میں کیے جانے والے وعدوں کے برعکس پاور ڈویژن تھنک ٹینک، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی ہدایات اور منظوری کے تحت، آئی ایم ایف کی راضی کے لیے گھریلو صارفین کے لیے دی جانے والی 25 فیصد کراس سبسڈی کو کم کرنے کے لیے نئے پاور ٹیرف ڈیزائن کو تیار کیا ہے۔ اور نگران حکومت سے اس کی منطوری لینے کی تیاری کی جارہی ہے۔وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام پاور ڈویژن تھنک ٹینک کے تیار کردہ ٹیرف ریشنلائزیشن پلان پر فنڈ کی منظوری حاصل کریں گے۔ نئے ٹیرف ڈیزائن کے تحت، اگر لاگو ہوتا ہے، تو صنعتی شعبے سے لائف لائن، محفوظ اور کچھ حد تک 400 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے بجلی کے صارفین کو دی جانے والی 222 ارب روپے کی کراس سبسڈی واپس لے لی جائے گی اور بدلے میں حکومت لائف لائن کے زمرے میں آنے والے اور ماہانہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین پر 50 روپے ماہانہ سے 450 روپے فی ماہ مقررہ چارجز عائد کرے گی۔ 3000 روپے ماہانہ کا زیادہ فکسڈ چارج سنگل فیز صارفین پر عائد کیا جائے گا جو ماہانہ 700 سے زیادہ یونٹ استعمال کرتے ہیں تاکہ انہیں استعمال کے وقت (ٹی او یو) میٹر یا تھری فیز میٹر کا استعمال کرتے ہوئے زمرے میں شفٹ کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ جن زرعی صارفین کو 39.30 ارب روپے کی سبسڈی مل رہی ہے، ان کو ختم کر دیا جائے گا اور اس طرح ان کے مقررہ چارجز میں اضافہ کرنے اور متغیر ٹیرف کی پیشن گوئی کرنے کے بعد زرعی ٹیرف ان کی سروس کی لاگت کے ساتھ خریدا جائے گا۔ صنعتی شعبے سے 222 ارب روپے کی کراس سبسڈی ختم ہونے کی وجہ سے صنعتی ٹیرف موجودہ 14 سینٹس فی یونٹ سے کم ہوکر 8.5 سینٹ فی یونٹ سے 11.75 سینٹ فی یونٹ ہوجائے گا۔نگران حکومت کی زیر نگرانی پٹرولیم ڈویژن اور پاور ڈویژن نے ایسے اقدامات یکے بعد دیگرے اٹھائے ہیں جس سے عوامی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اگر تیل، گیس، بجلی سمیت یوٹیلٹی سروسز کی مد میں انتہائی اہم معاملات پر پالیسیاں اور فیصلے نگران حکومت نے کرلیے تو پھر آٹھ فروری کے عام انتخابات کے دوران ملک کی بڑی جماعتوں نے اپنے منشور میں عوام کو بجلی، تیل، گیس کی قیمتوں مین جو ریلیف دینے کے وعدے کیے ہیں وہ وعدے کیسے پورے ہوں گے؟ روان ہفتے میں جس طرح سے مشترکہ مفادات کونسل کی عجلت میں تشکیل کرکے نگران سیٹ اپ کے اندر پاکستان پٹرولییم پالیسی 2012 میں ترمیم کرکے مقامی گیس کا 50 فیصد نجی سرمایہ کاروں کو بیچنے کی منظوری دی گئی اور ایسے ہی تیل کی قیمتوں میں انتخابات سے چند روز پہلے اضافہ کیا گیا اس کے بعد یہ بجلی کے ٹیرف میں اضافے کی موجودہ پالیسی پر مبنی ڈرافٹ کا سامنے آنا یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ کیا پاکستان کی باوردی بے وردی نوکر شاہی پاکستان کے عوام کی تقدیر سے براہ راست جڑے فیصلوں کا حق ان کے منتخب کردہ نمائندوں کو دینے کے حق میں نہیں ہے؟ کیا وہ پاکستان کو پھر سے ایوب ماڈل کے تحت چلانے کی کوشش کررہی ہے؟ ابھی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کار کونسل کے اجلاس میں جیسے ایف بی آر اصلاحات کی مںطوری دی گئی ہے اس سے کیا آنے والی منتخب حکومت کے احتیارات پر سوالات نہیں اٹھ رہے؟ ایس آئی ایف سی جو بظاہر پاکستان میں سرمایہ کاری کو بڑھانے اور معشیت کو مستحکم کرنے کے لیے بنائی گئی ایک کونسل ہے لیکن اس کے اکثر فیصلوں سے یہ تاثر مل رہا ہے جیسے یہ ایک منتخب جمہوری حکومت کے اختیارات پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے والا اور غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے مبینہ مداخلت کار کردار کو ريگولرائز کرنے والی کونسل کے طور پر تھ کام نہیں کررہا؟ نیا ٹیرف اگر نافذ ہوگیا تو اس سے لائف لائن سمیت تمام صارفین پر بے تحاشا نی بوجھ بڑھے گا- کسانوں کو ریایتی بجلی کے ٹیرف کے خاتمے سے درمیانے اور چھوٹے کاشتکاروں پر بے پناہ دباؤ آئے گا اور ان کی حالت مزید پتلی ہوگی۔

چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کا انتخاب

پاکستان کرکٹ بورڑ میں عبوری نامزدگیوں کا دور ختم ہونے والا ہے۔ پاکستا کرکٹ بورڈ -پی سی بی عام انتخابات سے صرف روز قبل 6 فروری کو اپنے نئے چئیرمین کا انتخاب کرنے جارہا ہے۔ اگر 6 فروری کو کوئی روکاوٹ نہ آئی تو پی سی بی کم از کم13 ماہ بعد مستقل چیئرمین کا انتخاب کرلے گا- لیکن کئی ایک حلقے عام انتخابات سے قبل مستقل چیئرمین کے انتخاب کو ایک سازش کے طو پر دیکھ رہے ہیں لیکن دوسری جانب بہت سے حلقے اسے خوش آئند اقدام قرار دے رہے ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ 13 ماہ سے عبوری چیئرمینی کے ژزریعے سے چلایا جارہا تھا- اس 13 ماہ کے دوران دو عبوری چئیرمین نامزد ہوئے۔ اور انھوں نے اپنی اپنی عبوری کمیٹیوں کے زریعے پی بی سی کے معاملات چلانے کی کوشش کی جس سے بہت سارے تنازعات اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس دوران ذاتی الزام تراشی بھی دیکھنے کو ملی۔ایک موقعہ پر ایسا لگا جیسے پی بی سی کا میدان پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان لڑائی کا میدان بن گیا ہو۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین کے انتخاب کے لیے الیکشن کمشنر خاور شاہ نے پی سی بی کے بورڈ آف گورنرز کا نیشنل اکیڈیمی میں 6 فروری کو اجلاس طلب کر رکھا ہے۔ یہ بورڈ آف گورنرز چیئرمین کے انتخاب کے لیے الیکٹرول کالج ہہیں اور ان کے ووٹوں سے پی سی بی کے مستقل نئے چیئرمین کا انتخاب ہوگا- اس انتخاب سے امید کی جارہی ہے کہ اس سے پاکستان کرکٹ ایک نئے دور میں داخل ہوجائے گی۔پی بی سی کے نئے مستقل چئیرمین کا انتخاب نگران حکومت کے دور میں ہورہا ہے۔ اس سے یہ امید کی جارہی ہے کہ پہلی بار مستقل چئیرمین طاقتور منتخب وزیراعظم کے اثر و رسوخ کے بغیر بنے گا۔آئندہ انتخابات پاکستان کرکٹ کی مستقبل کی سمت اور نظم و نسق پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔ منتخب چیئرمین بین الاقوامی سطح پر پائیدار ترقی اور کامیابی کے لیے کوشاں رہتے ہوئے کثیر جہتی چیلنجوں سے نمٹتے ہوئے کھیل کا وارث ہوگا۔ اس کردار میں قدم رکھنے والے فرد کو کھلاڑیوں کی نشوونما اور ٹیم کی کارکردگی سے لے کر انتظامی کارکردگی اور مالی استحکام تک پیچیدہ مسائل کو حل کرنا چاہئیے۔قیادت میں تبدیلی پی سی بی کے لیے ایک نئی صبح کا آغاز کرتی ہے، جو طویل عبوری انتظامات کے خاتمے کی علامت ہے۔ کرکٹ برادری اس الیکشن کے نتائج کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے، کیونکہ اس میں بورڈ کے کام میں نئے آئیڈیاز، حکمت عملی اور ایک نئے وژن کو شامل کرنے کا وعدہ ہے۔ پاکستان کرکٹ کے شائقین کو امید ہے کہ آنے والے چیئرمین مثبت تبدیلی کے لیے ایک اتپریرک ثابت ہوں گے، قومی ٹیم کو مزید بلندیوں کی طرف لے جائیں گے اور تنظیم کے اندر بہترین ثقافت کو فروغ دیں گے۔انتخابات کی تاریخ قریب آتے ہی سب کی نظریں نیشنل کرکٹ اکیڈمی پر ہوں گی جہاں پاکستان کرکٹ کی تقدیر کا فیصلہ ہو گا اور بورڈ کی تاریخ کا ایک نیا باب کھلنے والا ہے۔ پی سی بی کے ذریعے تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں، اور کرکٹ کے شائقین صرف یہ امید کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ پاکستان کرکٹ کے لیے بحالی، ترقی اور فتح کا دور لے کر آئیں گے۔نوٹیفکیشن کے لیے خطوں اور محکموں کے انتخاب میں الیکشن کمشنر کی روٹیشن پالیسی نے اندر نمائندگی کو مزید متنوع بنا دیا ہے۔ تاہم، یہ ملک کے کچھ بڑے علاقوں کے نمائندوں کی عدم موجودگی کو دور نہیں کرتا، جو مستقبل میں غور کرنے کے لیے ایک ممکنہ علاقے کو اجاگر کرتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں