بھارتی انتہاپسندسیاستدان اکھنڈبھارت کےمنصوبےکوپایہ تکمیل تک پہنچانےکیلئےملک سے اسلامی آثارمٹانےکی سازشیں جاری رکھے ہوئےہیں۔بھارتی وزیراعظم مودی نے سیاست چمکانےکیلئےکئی شہروں کے اسلامی نام بدلنےکےبعدتاریخی بابری مسجدکی جگہ رام مندرکاافتتاح کردیاہے۔ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے معروف شہر ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا کام ابھی مکمل تو نہیں ہوا ہے لیکن گزشتہ روز سوموار کو اس کا افتتاح پورے مذہبی رسم و رواج اور شان و شوکت کے ساتھ کردیاگیا۔ اس افتتاح کو مذہبی اصطلاح میں ’پران پرتشٹھا‘ یعنی مندر میں نصب کی جانے والی مورتی (رام کے مجسمے) میں ان کی روح کو بلانے کا عمل کہا جا رہا ہے جسے عرف عام میں روح پھونکنے کا عمل کہہ سکتے ہیں جس میں سب سے آخر میں آنکھ کھولی جاتی ہے۔خیال رہے کہ یہ مندر تاریخی بابری مسجد کے سنہ 1992 میں شدت پسند ہندوؤں کے ہاتھوں انہدام اور انڈین سپریم کورٹ کے رام جنم بھومی کے حق میں فیصلے کے تعمیر ہو رہا ہے۔مندر کی افتتاحی تقریب کے سلسلے میں ہونے والی پوجا میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے علاوہ ایک درجن سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔ ملک کی میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس حوالے سے تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ بہت سے حزب اختلاف کے رہنما اس میں شرکت نہیں ہورہے۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی شمال مشرقی ریاستوں میں نیائے (انصاف) یاترا میں شریک ہیں تو مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے سدبھاونا یاترا کے انعقاد کی بات کہی ہے۔اس موقعے پر پورے ایودھیا میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔ مذہبی تقریب میں وزیر اعظم نریندرمودی سمیت انڈیا کے تقریبا ًتمام اہم افراد نے شرکت کی جن میں سادھو سنتوں سے لے کر کرکٹرز اور فلم انڈسٹری کے مشاہیر بھی شامل ہیں۔ سکیورٹی کے لیے دس ہزار سی سی ٹی وی کیمرے کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت والے ڈرونز کا استعمال کیا گیا۔ رام جنم بھومی تیرتھ شیتر (زیارت گاہ) ٹرسٹ کے مطابق ہندوؤں کے بھگوان رام کی مورتی یا مجسمے کو 114 گھڑے پانی سے نہلایا گیااور یہ پانی ملک کے طول و عرض کی مختلف زیارت گاہوں سے لائے گئے ہیں اور یہ جڑی بوٹیوں والے پانی ہیں۔بہر حال جہاں اس تقریب سے کروڑوں ہندوؤں کے دلوں کو سکون حاصل ہو رہا ہے وہیں مسلمانوں کے لیے یہ ایک پرانے زخم کے کھلنے کے مانند ہے۔ معروف سیاسی مبصر پرتاپ بھانو مہتا نے انڈین ایکسپریس میں لکھا ہے کہ ’لاکھوں کی تعداد میں سرگرم ہندوؤں کی شناخت، جذبات اور امیدیں، کم از کم اس موقعے پر ایودھیا کی طرف مرکوز ہیں لیکن اس طرح کے واقعے کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ یہ ایک فرق کو واضح کرنے والا لمحہ ہے۔ ایودھیا میں مندر کے سنگ بنیاد کے بعد ہونے والی پران پرتشتھا، خالص اور سادہ طور پر ہندو مذہب کو سیاسی مذہب کے طور پر نشان زد کرتی ہے۔ یہ صرف ایک لمحہ نہیں ہے جب
ریاست، جس نے اس کے پیچھے اپنی تمام تر طاقت جھونک دی ہے، سیکولر ہونا چھوڑ دیا ہے۔ یہ وہ لمحہ بھی ہے جب ہندو مذہب کا مذہبی ہونا بھی ختم ہو جاتا ہے۔‘ایودھیا میں رام مندر اور بابری مسجد کا تنازع ایک صدی سے زیادہ پرانا ہے۔ یہ مقام ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کا باعث رہا ہے اور دونوں فریق اس کی ملکیت کے دعویدار تھے۔انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے ملک کی شمالی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں متنازع رام مندر کا سنگِ بنیاد 5 اگست 2020 میں رکھا۔سنگ بنیاد رکھنے کے بعد انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے رام مندر کی تعمیر کے مقام پر ’بھومی پوجا‘ میں حصہ لیا۔انڈین وزیراعظم کی ایودھیا آمد کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھ اور اس تقریب میں چند ہی افراد کو شرکت کی اجازت ملی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دُنیا بھر کے متعدد ممالک سمیت انڈیا پر بھی کورونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے۔ 1992 میں بابری مسجد کا انہدام بھی اموات کا ایک سلسلہ اپنے ساتھ لایا تھا اور ملک میں معاشرتی کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا جس نے ہندوستانی جمہوریہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔2019 میں اگرچہ سپریم کورٹ نے تمام متنازعہ اراضی مندر ٹرسٹ کے حوالے کردی تھی لیکن عدالت نے ایودھیا تنازعہ کے بارے میں اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ 6 دسمبر 1992 کو مسجد کا انہدام قانون و نظم کی بے انتہائی خلاف ورزی تھا اور عبادت گاہ کو منہدم کرنا ایک سوچی سمجھی سازش تھی سپریم کورٹ کے بنچ نے کہا کہ مسلمانوں کو غلط طریقے سے مسجد سےمحروم کیا گیاجو 450 سال پرانی تھی۔سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو اس معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کے رام مندر کی تعمیر کے دعوے کو تسلیم کر لیا۔انڈیا کی سپریم کورٹ نے اترپردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا حکم دیا۔چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ ججوں کی ایک آئینی بنچ نے مندر مسجد کے اس تنازعے کا متفقہ طور پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مسلم فریق کو ایودھیا کے اندر کسی نمایاں مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے ایک متبادل پانچ ایکڑ زمین دی جائے۔ عدالت نے مرکز اور اتر پردیش کی ریاستی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس متبادل زمین کا انتظام کریں۔وزیر اعظم نریندر مودی نےانڈیا کے سب سے متنازع مذہبی مقامات میں سے ایک پر 16 ویں صدی کی مسجد (بابری مسجد) کی جگہ مندر کا افتتاح کر کے دہائیوں پر محیط ہندو قوم پرستی کے وعدے کو پورا کر دیا۔ سنہ 1992 میں ہندو ہجوم نے بابری مسجد کو یہ کہتے ہوئے منہدم کر دیا تھا کہ اسے مسلم حملہ آوروں نے رام مندر کے کھنڈرات پر تعمیر کیا تھا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد انڈیا میں شروع ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں لگ بھگ 2000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔بابری مسجدکی جگہ پررا م مندرکی تعمیربھارتی نام نہادجمہوریہ کے منہ پرکلنک کاٹیکاہے۔بھارتی انتہاپسندطاقت کے زورپراسلامی آثارمٹاتےجارہے ہیں۔عالمی برادری کوبھارت کی اس مذہبی دہشتگردی کانوٹس لیناچاہئے۔دوسری جانب پاکستان نے انڈیا کے شہر ایودھیہ میں منہدم کی جانے والی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی مذمت کی ہے۔پاکستان کی وزارت خارجہ نے جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ صدیوں پرانی بابری مسجد کو چھ دسمبر 1992 کو انتہا پسندوں کے ہجوم نے منہدم کر دیا تھا، افسوس کی بات یہ ہے کہ انڈیا کی اعلیٰ عدلیہ نے نہ صرف اس گھناؤنے فعل کے ذمہ دار مجرموں کو بری کر دیا بلکہ منہدم مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر کی بھی اجازت دے دی۔گزشتہ 31 سال سے جاری صورت حال کے نتیجے میں رام مندر کے افتتاح کی تقریب ہوئی جس سے انڈیا میں بڑھتی ہوئی اکثریت پسندی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ صورت حال انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کو سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر پسماندہ کرنے کی جاری کوششوں کا ایک اہم پہلو ہے۔پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق: ’منہدم مسجد کے مقام پر تعمیر کیا گیا مندر مستقبل میں کی جمہوریت کے چہرے پر ایک دھبہ رہے گا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد سمیت مساجد کی بڑھتی ہوئی فہرست کو بے حرمتی اور تباہی کے اسی طرح کے خطرے کا سامنا ہے۔‘پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا کہ ’انڈیا میں ’ہندوتوا‘ نظریے کی بڑھتی ہوئی لہر مذہبی ہم آہنگی اور علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ انڈیا کی دو بڑی ریاستوں اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے وزرائے اعلیٰ بابری مسجد کے انہدام یا ’رام مندر‘ کے افتتاح کو پاکستان کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے کی جانب پہلا قدم قرار دے رہے ہیں۔‘عالمی برادری کو انڈیا میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، نفرت انگیز تقاریر اور نفرت انگیز جرائم کا نوٹس لینا چاہیے۔ اقوام متحدہ اور دیگر متعلقہ بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ انڈیا میں اسلامی ورثے کے مقامات کو انتہا پسند گروپوں سے بچانے اور انڈیا میں اقلیتوں کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
