آج کی تاریخ

معاشی منشور اور تبدیلی کا سراب

سینیٹ قراردادیں،الیکشن کمیشن کادوٹوک جواب

سینیٹ کی الیکشن التواکی چارقراردادوں پرالیکشن کمیشن آف پاکستان نے انکارمیں جوا ب دیکرشکوک وشبہات دورکرنےکی ا پنےتئیں پوری کوشش کی ہے۔ گزشتہ روزاپنےایک بیان میںالیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ کی قرارداد پر 8 فروری 2024 کو ملک بھر ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے سے معذرت کرلی۔ الیکشن کمیشن حکام نے سینٹ سیکریٹریٹ کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سینیٹ کی قرارداد کا اجلاس میں جائزہ لیا اور اس پر غور و خوض کیا گیا۔سینٹ سیکریٹریٹ کو لکھے گئے اپنے خط میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ ماضی میں بھی عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات موسم سرما میں ہوتے رہے ہیں۔خط میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے مشاورت کے بعد پولنگ کے لیے 8 فروری کی تاریخ مقرر کی تھی۔خط میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن نے تمام تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں، الیکشن کمیشن آٹھ فروری کو انتخابات کے لیے سپریم کورٹ میں بھی یقین دہانی کروا چکا ہے۔الیکشن کمیشن نے اپنے خط میں کہا کہ اس مرحلے پر الیکشن کمیشن کے لیے عام انتخابات کو ملتوی کرنا مناسب نہیں ہو گا۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سینیٹ سیکریٹریٹ کو لکھا گیا خط ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے آزاد سینیٹر دلاور خان کی جانب سے ملک میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کے لیے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو لکھا گیا خط منظر عام پر آیا تھا۔سینیٹر دلاور خان کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کو لکھے خط میں کہا گیا کہ سینیٹ نے 5 جنوری کو الیکشن ملتوی کرانے کی قرارداد پاس کی تھی، الیکشن کمیشن نےتاحال انتخابات ملتوی کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔سینیٹر کی جانب سے لکھے گئے خط میں مؤقف اپنایا گیا کہ سینیٹ میں منظور کردہ قرارداد میں نشاندہی کیے گئے تحفطات پر توجہ دینی چاییے تھی۔خط کے متن کے مطابق مسائل حل کیے بغیر صاف شفاف انتخابات کے انعقاد پر سمجوتہ نظر آرہا ہے، میری قرارداد پر عملدر آمد کی موجودہ صورت حال معلوم کی جائے۔اس میں کہا گیا ہے کہ یقینی بنایا جائے کہ 8 فروری کے انتخابات ملتوی کیے جائیں اور ایسے حالات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک بھر سے لوگ الیکشن سرگرمیوں میں شرکت کر سکیں۔پاکستان میں الیکشن وقت پر ہو پائیں گا یا نہیں، یہ سوال عام انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان ہو جانے کے باوجود ملک کے سیاسی منظر نامے سے مکمل طور پر غائب نہیں ہو پایا۔عام انتخابات سے بمشکل چندروزقبل ایک مرتبہ پھر ’الیکشن میں تاخیر‘ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور اس مرتبہ یہ آوازباربار پاکستان کے ایوانِ بالا سے ابھررہی ہے۔ یاد رہےکہ5جنوری کو سینیٹ میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات ملتوی کرنے کی ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔اس قرارداد میں کہا گیاتھا ’ملک میں سکیورٹی کے حالات خاص طور پر چھوٹے صوبوں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں انتخابی مہم چلانے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔‘ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’فروری میں ان صوبوں کے زیادہ تر علاقوں میں موسم انتہائی سرد ہو گا اس لیے وہاں زیادہ لوگ ووٹنگ
میں حصہ نہیں لے پائیں گے۔‘انتخابات کو ملتوی کرنے کی یہ قرارداد ایک آزاد سینیٹر دلاور خان کی طرف سے پیش کی گئی۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ آف پاکستان یہ توقع کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے شیڈول کو ملتوی کر کے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرے گا۔ تمام صوبوں کے افراد کے لیے انتخابی عمل میں شرکت کے یکساں مواقع فراہم کرنے کو یقینی بنایا جائے گا۔سینیٹر دلاور خان کی اس قرارداد پر چیئرمین سینیٹ نے ووٹنگ کروائی جس کے بعد اسے منظور کیا گیا۔تاہم خیال رہے کہ جس وقت اس قرارداد پر ووٹنگ ہوئی اس وقت 104 ممبران کے ایوان میں محض 14 سینیٹرز موجود تھے یعنی ووٹنگ کے لیے کورم ہی موجود نہیں تھا۔دو سینیٹرز نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ان کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ایک ممبر سینیٹر افنان اللہ نے اس قرارداد کی مخالف کی۔قرارداد کی حمایت کرنے والے سینیٹرز میں زیادہ تر کا تعلق یا تو کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے یا بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی سمیت بڑی سیاسی جماعتوں نے اس قرارداد سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ سینیٹ کی اس قرارداد کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا تھی۔ اگر ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں الیکشن میں التوا کی مخالف ہیں تو پاکستان کے ایوانِ بالا کے ذریعے انتخابات میں التوا کی کوشش کون اور کیوں کر رہا ہے؟۔سپریم کورٹ انتخابات میں تاخیر کے مقدمے میں آٹھ فروری کو انتخابات ہونے کے حوالے سے فیصلہ دے چکی ہے۔پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے سینیٹ کی اس قرارداد کی مخالفت کی ۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے اسے ’شرمناک‘ جبکہ ن لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی اور دیگر جماعتوں نے اسے ’سازش‘ قرار دیا ہے۔پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما شیری رحمٰن نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھاکہ پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں قرارداد کی حمایت نہیں کی اور ہمارا واضح موقف رہا ہے کہ ملک میں بر وقت الیکشن ہونے چاہئیں، ملک میں ہیجانی کی کیفیت نہیں پھیلانی چاہیے اور بے یقینی کی کیفیت نہیں ہونی چاہیے اور ہماری طرف سے ایسی کسی قراردار میں ہماری آواز شامل نہیں ہو گی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم سینیٹ کی ویڈیو دیکھ کر بہرہ مند تنگی سے اس معاملے پر وضاحت لیں گے۔دوسر ی جانب6 جنوری کو الیکشن وقت پر کرانے کے لیے سینیٹ سیکرٹریٹ میں ایک اور قرارداد جمع کروائی گئی تھی۔دریں اثناایوان بالا میں عام انتخابات کے التوا کی ایک اور قرارداد جمع کروائی گئی۔ قرارداد فاٹا سے تعلق رکھنے والے آزاد سینیٹر ہدایت اللہ کی جانب سے جمع کرائی گئی تھی۔قرارداد میں مؤقف اپنایا گیا کہ امیداواروں پر حملے سے متعلق گہری تشویش ہے، ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، عام انتخابات 3 ماہ کے لیے ملتوی کردیے جائیں، عوام کی جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔مزید کہا گیا کہ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے ملک میں خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا ہوگیا ہے، امیدواروں کے گھروں اور انتخابی دفاتروں میں دھمکی آمیز پمفلٹس کی تقسیم موجودہ سیکیورٹی مسائل میں ایک اور پریشان کن اضافہ بنتا جارہا ہے۔قرارداد کے مطابق ایوان اس بات کو مانتا ہے کہ انتخابات کا انعقاد آئینی ذمہ داری ہے ، ایوان انتخابات کو صاف اور شفاف بنانے پر زور دیتا ہے، وہ جہاں آزاد انتخابات پر زور دیتا ہے وہاں عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔اس میں مزید بتایا گیا کہ سینیٹ الیکشن کمیشن پر زور دیتا ہے کہ وہ انتخابات کے پر امن انعقاد پر ہمدردانہ غور کریں اور درپیش سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے الیکشن کے انعقاد کو 3 ماہ تک کے لیے مؤخر کردے۔قارئین کرام الیکشن سرپرآگئے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پرنٹنگ کارپوریشنز کو بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی منظوری بھی دے دی ہے۔ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے اجلاس میں عام انتخابات کے لیے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی منظوری دی گئی ہے۔الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے تقریباً 25 کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپنے کا فیصلہ کیا ہے، الیکشن کمیشن واٹر مارک بیلٹ پیپرز چھاپے گا۔ عام انتخابات کے لیے تین پرنٹنگ مشینوں سے بیلٹ پیپرز چھپوائے جائیں گے اور بیلٹ پیپررز کی چھپائی کے وقت پرنٹنگ کارپوریشنز کی سکیورٹی سخت رکھی جائے گی۔امیدواروں نے انتخابی مہم بھی شروع کردی ہے۔ایسے میں سینیٹ آف پاکستان کے ممبران کی طرف سے باربارایسی قراردادیں پیش کرناانتخابی عمل کوسبوتاژکرنےکے مترادف ہے۔انتخابات سرد،گرم موسم میں ہوتے رہتے ہیں۔بدامنی یادہشتگردی کی کیاگارنٹی ہے کہ کچھ عرصہ بعدرک جائیگی،2007،2013 اور2018کے الیکشن میں حالات اس سے بھی زیادہ خراب تھے۔انتخابات تب بھی ہوئےاورعوام نے حق رائے دہی استعمال کرکےدہشتگردوں کے ایجنڈےاورخوف کوشکست دی۔اب بھی ضرورت اس امرکی ہے کہ ایوان بالاالیکشن کے انعقادمیں تعاون کرے۔اسی میں ملک اورقوم کی بہتری ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں