تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری
میں نے شیخ رفیق احمد مرحوم کے حوالہ سے جو کچھ عرض کیا وہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے میری نسل کے لوگ اس صورتحال کو بخوبی جانتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے اپنی سیاسی وابستگی یا پسند و نا پسند کے لحاظ سے ان حالات کو کون سے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ اس زمانے میں زیادہ تر نوجوانوں کی سیاسی نظریہ کی بنیاد پر ہی ذہن سازی ہوئی تھی جس کے نتیجہ میں مذہبی انتہا پسندی کے ساتھ لبرل انتہا پسندی نے بھی جنم لیا۔ ہم پچاس سال بعد بھی آج کے حالات کا اس وقت کے حالات کے تناظر میں تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں۔ دائیں بازو کے نظریاتی مجاہدین کے بارے میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں۔ انہوں نے بھٹو دشمنی کی آڑ میں ترقی پسندی اور روشن خیالی کا راستہ روکنے اور سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنا کردار شعوری اور غیر شعوری طور پر ادا کیا اور اب تک جبکہ افغان مجاہدین اور طالبان کے احوال سامنے آ چکے ہیں اب بھی اپنی غلطیوں پر کوئی شرمندگی نہیں ۔ اس سے پہلے 1971ء کی جنگ میں زمینی حقائق کے منافی مؤقف پر کیا شرمندگی ہونا ہے افسوس تو بائیں بازو کے لبرل دانشوروں پر ہے جو ابھی تک بھٹو دشمنی پہ قائم ہیں حالانکہ وقت نے شیخ رفیق احمد مرحوم کی باتوں کو بالکل درست ثابت کیا ہے۔ مرحوم بھٹو کے دور میں قائم ہونے والی مساوات پارٹی جو کہ حنیف رامے کی قیادت میں بنی تھی۔ قومی محاذ آزادی پارٹی جو اقبال حیدر اور دوسرے ترقی پسند لوگوں پر مشتمل تھی ان کا کیا انجام ہوا ہے۔ مصطفیٰ جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی یا فاروق لغاری کی پارٹی کا ہمارے ترقی پسند لوگوں سے کوئی تعلق نہیں تھا ان کا حشر بھی ہم دیکھ چکے۔ قومی محاذ آزادی کے رہنمائوں اقبال حیدر اور حبیب اللہ شاکر کو آخر کار پیپلز پارٹی نے عزت بخشی۔ اسی طرح حنیف رامے کو بھی پی پی نے سپیکر پنجاب اسمبلی منتخب کرایا۔ بھٹو مرحوم کے دور میں جو نیشنلائزیشن ہوئی ان کے نتائج کیا برآمد ہوئے اس بارے میں مختلف اراء پائی جاتی تھیں اور اب بھی ہیں مگر رائس ملوں‘ فلور ملوں اور جننگ فیکٹریوں کی نیشنلائزیشن کسی بھی لحاظ سے درست نہیں کہی جا سکتی اور سونے پہ سہاگہ ان فیکٹریوں کا انتظام بیورو کریسی کے حوالے کرنا انتہائی غلط قدم تھا۔ ہماری بیورو کریسی تو پی پی سے پہلے ہی ناخوش تھی اب انہیں پی پی کی ساکھ خراب کرنے کا بھرپور موقع مل گیا مگر بنکوں کی نیشنلائزیشن کی وجہ سے اس وقت صنعتی محاذ پر 22 خاندان تھے وہ بڑھ کر بائیس ہزار ہو گئے کیونکہ بنکوں کی نیشنلائزیشن کے بعد قرضوں تک رسائی آسان ہو گی۔ اسی طرح سکول اور کالجز کی نیشنلائزیشن نے یکساں نظام تعلیم اور ہر پاکستانی کو تعلیم کے برابر مواقع فراہم کرنے کا ذریعہ بتایا۔
1973ء کے آئین کے مطابق بھی تعلیم اور صحت کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ لکھتے ہوئے مجھے ہنسی آ گئی جیسے آئین پاکستان کی ہر شق پر ان کے علاوہ عمل ہو رہا ہے۔ آئین پاکستان کی کتاب کو بھی ہم نے قرآن شریف کی طرح تاک پہ سجا دیا ۔ جس کا احترام تو واجب ہے مگر عمل نہیں ۔ ڈی نیشنلائزیشن کے نتیجہ میں جو نظام تعلیم اب وطن عزیز میں رائج ہے اس کے مطابق محض 10 فیصد نظام تعلیم ملک میں مختلف سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نافذ العمل ہے ۔ جس دور بارے میں عرض کر رہا ہوں اس وقت لوگوں کے تین طبقات تھے غریب‘ متوسط اور امیر۔ اس وقت جس خاندان کی ماہانہ آمدن سات ہزار روپے تک ہوتی تھی اسے امیر خاندان میں شمار کیا جاتا تھا۔ آج کل کے نوجوانوں کیلئے یہ عجیب سی بات ہو گی مگر آج کل ہمارا امیر طبقہ بھی کئی حصوں پر مشتمل ہے جسے آج کل ایسٹ کلاس کہتے ہیں تازہ ایلٹ ماضی قریب کی ایلٹ ‘ ماضی بعید کی ایلٹ ۔ اسی طرح درمیانی کلاس بھی اب 5/6 طبقات پر مشتمل ہے۔ سفید پوش کلاس اب غریب کلاس کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح ہمارے تعلیمی ادارے اور ہسپتال بھی الگ الگ کلاس کیلئے قائم کئے گئے ہیں۔ چند سو روپے لیکر 50 ہزار ماہانہ فیس K-G کلاس میں لی جا رہی ہے سرکاری سکولوں میں صرف ’’اجھوتوں‘‘ کے بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں ان حالات کے باوجود اب بھی بعض دانشور بھٹو مرحوم کی مجموعی نیشنلائزیشن کی پالیس پر طبریٰ بھیجنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔
بات تو نوکرانی کی نیشنلائزیشن سے شروع ہوئی تھی۔ اس دور میں مجبور خاندانوں کی لڑکیاں سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں دوران ملازمت جس قسم کی ہراسمنٹ اور استعمال کا شکار ہو رہی ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ نوکرانی کی نیشنلائزیشن والی بات اب بہت معمولی محسوس ہوتی ہے آج اگر سعادت حسن منٹو زندہ ہوتا تو وہ ہیرا منڈی کی بجائے ’’منڈی کی معیشت‘‘ سے عورت پہ ہونے والے ظالمانہ واقعات کو اپنے افسانوں کا عنوان بناتا۔