تحریر : ڈاکٹر ظفر چوہدری
میں بھٹو مرحوم کی انتخابی مہم اور اس دور حکومت میں وقوع پذیر ہونے والی سماجی‘ معاشرتی اور نفسیاتی تبدیلیوں بارے میں بات کرنا چاہتا تھا مگر ڈاکٹر شیر علی کے ذکر کی وجہ سے بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ خیر ذوالفقار علی بھٹو نے غریب عوام میں عزت نفس پیدا کی اور ان میں اپنے بنیادی حقوق کا ادراک پیدا کیا یہی وجہ تھی کہ پہلی دفعہ پی پی کے کارکن جو کہ اپنے علاقہ کے چیئرمین بنے وہ عام آدمی تھےانہوں نے روایتی پولیس اور انتظامیہ کے ٹائوٹوں جو کہ انگریز کے زمانہ سے ہی عوام پر مسلط تھے‘ کی جگہ لے لی۔ اسی دور میں منا ٹانگے والا کی ایس ایچ اواور پٹواری کے ساتھ سلوک کی داستانیں مشہور ہوئیں۔ کیونکہ پی پی بھی ایک ہجوم تھا اسے تنظیمی ڈھانچے میںنہ ڈھالا جا سکا۔ لیکن ان عام چیئرمینوں سےبیوروکریسی اور پولیس خوفزدہ تھی یہی وجہ ہے کہ آج تک بیوروکریسی پیپلزپارٹی کو قبول کرنےکو تیار نہیں۔ہمارے بائیں بازو کے عناصر جو یہ کام کر سکتے تھے وہ فوری انقلاب نہ آنے کی وجہ سے پارٹی سے دور ہوتے گئے کیونکہ ماجھے‘ ساجے اور گامے جو پارٹی ورکر تنظیمی عہد وں پر تعینات ہوئے وہ پارٹی کو منظم کرنے میں ناکام رہے۔ بھٹومرحوم سے بھی بڑی غلطیاں ہوئیں۔ میرے ایک سندھی دوست کا کہنا تھا کہ بڑے آدمیوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔
میں پہلے بھی افواہ اور حقیقت کے زیر عنوان بھٹو مرحوم کی غلط پالیسیوں بارے میں لکھ چکا ہوں بھٹو صاحب نے جے اے رحیم کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا دفاع نہیں ہو سکتا۔ مجھے اس وقت کے ایک سیاسی رہنما نے بتایا تھا کہ بھٹو مرحوم جے اے رحیم کی بہت عزت کرتے تھے مگر جے اے رحیم مرحوم نے کیبنٹ میٹنگ میں بھٹو مرحوم کی دیر سے آنے پر بڑی بے عزتی کی جس پر بھٹو بھی اپنی طبیعت پر کنٹرول نہ کر سکے تاہم انہیں کنٹرول کرنا چاہیے تھا اسی طرح معراج محمد خان کے ساتھ بھٹو صاحب کے ناروا سلوک اور معراج محمد خان کی بھٹو کے خلاف ضیاالحق کے ہاتھوں استعمال ہونے سے انکار نے مرحوم معراج محمد خان کی عزت میں مزید اضافہ کر دیا۔ اس وقت تو میرے جیسے نوجوان بھٹومرحوم کے انہی وجوہات کی بنیاد پر خلاف تھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت کے بائیں بازو کے رہنما مستقبل کے حوالے سے آنے والے حالات کا کوئی ادراک رکھتے تھے۔ جہاں تک دائیں بازو کی رہنمائوں اور ان کی سیاست کا تعلق ہے وہ تو باقاعدہ سامراجی قوتوں کے دانستہ یا غیر دانستہ ایجنڈے پر کام کر رہے تھے۔ روس اور امریکہ کی سرد جنگ کے حوالے سے میں پہلے لکھ چکا ہوں سرمایہ دارانہ نظام نے سوشلسٹ نظام کے خلاف مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد ہی کر لیا تھا جس کی وجہ سے عرب ممالک خود مختار بادشاہتیں اور ’’جمہوری‘‘ پاکستان وجود میں آئے اور بھٹو مرحوم نے بین الاقوامی اسلامی کانفرنس بلا کر اور عربوں کو تیل کا ہتھیار استعمال کرنے پر آمادہ کر کے پاکستان میں ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے ساتھ ساتھ شملہ معاہدہ کے دوران مسئلہ کشمیر کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی بنیاد رکھی اس پر سامراجی قوتیں بھٹو کا خاتمہ چاہتی تھیں اور بھٹو کے’’ شریک جرم‘‘ شاہ فیصل کو قتل کروانا اور انوار السادات جس کی بھٹو نے اعلانیہ 1973ء کی مصر اسرائیل جنگ حمایت کی تھی تو راستے ہٹا کر کیا پیغام دینا چاہتی تھیں اسی طرح بھٹو نے یاسر عرفات کی جس طرح مدد کی تھی کیا وہ معمولی فیصلے تھے؟
میں شیخ رفیق احمد کی باتوں پر غور کرتا ہوںتو کتنی سچی معلوم ہوتی ہیں لیکن ہمارے بازو کے عناصر انہیں سمجھنے میں ناکام رہے وہ بھی دائیں بازو کے ساتھ مل کر بھٹو صاحب کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی 1977ء کی نام نہاد تحریک کا حصہ بن گئے جس کے نتیجہ میں جو کچھ ہوا اورجو اب تک ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ مجھے 1977ء میں بائیں بازو کی اکثریت کی سیاسی سوجھ بوجھ پر حیرت ہوئی پھر خیال آتا ہے ہم جتنے بھی پڑھ لکھ جائیں ہم میں قبائلی عصبیت کا اثرات باقی رہتے ہیں۔ بچپن میں سنتے تھے ’’نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ ( یعنی نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے ) اس بنیاد پر بھٹو کو منظر سے ہٹانا ہی بائیں بازو کی اکثریت کی منزل ٹھہری۔ مجھے 1979ء کے بلدیاتی انتخابات کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ روہیلانوالی میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر گروپ بنایا تھا جس کا مقصد 1977ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی حمایت کرنا تھا ( اس وقت جمہوری اتحاد کے بننے کے بعد کچھ سمجھ آ چکی تھی اور بھٹو ’’سفید ہاتھی ‘‘کا خط راولپنڈی میں لہرا کر قوم کو بتا چکے تھے میرے خلاف سازشوں کے تانے بانے کہاں بنے جا رہے ہیں‘‘ خیر 1979ء میں جب بلدیاتی انتخاب ہوئے تو ہمارے دوستوں میں ڈاکٹر نذر قریشی اور چوہدری عبدالرشید کونسلر منتخب ہوئے۔ دونوں ہی چیئرمین کے امیدوار تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو آمادہ کرنے کی کوششیں کرتے رہے مگر یہ کوششیں ناکام ہوئیں ہمارے اس وقت گروپ لیڈر جام احمد علی پونٹہ تھے انہوں نے کہا کہ اگر آپ دونوں متفق نہیں ہوتے ہم کسی تیسرے کو چیئرمین بنا لیں تو دونوں راضی ہو گئے اور حاجی جام احمد علی صاحب کے خاندان کا ٹریکٹر ڈرائیور چیئرمین منتخب ہو گیا اس کی جو عزت ہوئی وہ ظاہر ہے اسی طرح بھٹو دشمنی میں ضیا الحق کے فیصلوں کا جو عذاب نازل ہوا اسے قوم آج تک بھگت رہی ہے۔