تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری (رودادزندگی)
شیخ رفیق احمد صاحب نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لبرل اور جمہوریت پسند قوتوں کیلئے اگر کوئی سیاسی فورم ہے تو وہ پیپلزپارٹی ہی ہے اسی جماعت میں رہ کر اپنے مقاصد کو بڑھاوا دے سکتے ہیں، پیپلزپارٹی سے غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر مستقبل میں انہیں درست کرنے کیلئے ترقی پسند عناصر کو اِسی پارٹی میں رہ کر جدوجہد کرنی چاہیے۔ میری شیخ رشید مرحوم جو کہ بھٹو حکومت میں وفاقی وزیر صحت تھے، سے کبھی بھی ملاقات نہیں ہوئی میرے جن دوستوں کی شیخ رشید مرحوم سے ملاقاتیں ہوئی وہ بتایا کرتے تھے کہ ان کے خیالات اور رائے بھی شیخ رفیق احمد جیسے ہی تھے۔ ہمارے بائیں بازو کے دانشوروں مزدور راہنمائوں اور کارکنوں نے پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم میں بہت محنت کی تھی اور جماعت اسلامی سمیت دائیں بازو کی جماعتوں نے بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ حالانکہ یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات جنرل نوابزادہ شیر علی خان نے جماعت اسلامی اور دیگر دائیں بازو کے عناصر سے شعبہ اطلاعات و نشریات کو بھر دیا تھا ۔ اس وقت کی مقامی اور بین الاقوامی مقتدرہ بھی ان کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ پرنٹ میڈیا میں جماعت اسلامی شورش کاشمیری نوائے وقت اور جنگ گروپ کے اخبارات اور رسائل کا حنیف رامے مولانا کوثر نیازی اور دوسرے بائیں بازو کے بہت سے دانشور جن میں منو بھائی، حمید اختر سمیت کئی نام شامل تھے بھی بھر پور مقابلہ کر رہے تھے اور پی پی کا منشور اور نعرے عوام تک پہنچا رہے تھے۔ بھٹو مرحوم کے اقتدار میں آنے کے بعد ہمارے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے راہنما اور دانشوروں کی اکثریت زمینی حقائق کے برعکس انتخابی مہم کے دوران لگائے گئے نعروں اور کئے گئے وعدوں پر فوری عمل درآمد چاہتی تھی۔ پی پی پی ایک ملٹی کلاس پارٹی تھی جو کہ جاگیرداروں، قبائلی سرداروں علماء اور چند صنعتکاروں کے ساتھ ساتھ بیک وقت مزدوروں کسانوں اور پسے ہوئے طبقات پر مشتمل تھی۔ اس دور میں میڈیا کی کمان زیادہ تر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں نے سنبھالی ہوئی تھی۔ بھٹو مرحوم کے دور اقتدار میں غریب عوام میں حق بات کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور اسمبلیوں میں بھی عام کارکن یا ان کے نامزد کردہ نمائندگان منتخب ہوئے۔ مثالیں تو بہت سی ہیں مگر ایک مثال بورے والا ضلع وہاڑی کی میں خصوصی طور پر دینا چاہوں گا، وہاں ڈاکٹر شیر علی بنام کے ایک سرگرم کارکن بھٹو کے جیالے تھے۔ ڈاکٹر شیر علی بنیادی طور پر دندان ساز تھے۔ ایوب خان کے خلاف جب فاطمہ جناح نے 1965ء میں الیکشن میں حصہ لیا تو وہ محترمہ فاطمہ جناح کے بہت بڑے سپورٹر تھے۔ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان نے انہیں گورنر ہاؤس طلب کیا، جب ڈاکٹر شیر علی پیش ہوئے تو نواب آف کالا باغ نے کہا کہ تم فاطمہ جناح کا بیج اُتار دو نواب آف کالا باغ کی دہشت سے بڑے بڑے لوگوں کا پتہ پانی ہو جاتا تھا۔ ڈاکٹر شیر علی نے جواب دیا کہ میں یہ بیج نہیں اتاروں گا۔ آپ نے گولی مارنی ہے تو اس کا بندوبست کر لیں اگر جیل میں ڈالنا ہے تو میں اپنا بستر ساتھ ہی لیکر آیا ہوں یہ جواب سننے کے بعد نواب آف کالاباغ اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میں تمہاری وفاداری اور جرأت کی قدر کرتا ہوں پھر نواب آف کالا باغ نے ڈاکٹر شیر علی کے ساتھ کھانا کھایا اور گورنر کی گاڑی اسے واپس بورے والا چھوڑنے گئی کہ وفاداری بشرط استواری کی رسم ابھی باقی تھی۔ ویسے بھی بہادری اور دلیری کی قدر بھی کوئی بہادر اور دلیر بندہ ہی کر سکتا ہے۔ یہ واقعہ ان دنوں جب میں بورے والا کے رورل ہیلتھ سنٹر ساہوکا میں تعینات تھا، بورے والا کے دوستوں نے سنایا تھا۔ میں پھر بھٹک گیا۔ بات بھٹو صاحب کی ہو رہی تھی۔ انہوں نے بورے والا کے جلسہ میں ڈاکٹر شیر علی سے کہا کہ آپ پیپلزپارٹی کی طرف سے ممبر پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ ڈاکٹر شیر علی نے کہا کہ میری صحت اور معاشی حالات اجازت نہیں دیتے تو بھٹو صاحب نے کہا کہ آپ کے انتخابی اخراجات پارٹی اٹھائے گی جب ڈاکٹر شیر علی نے معذرت کی تو بھٹو صاحب نے کہا کہ یہ ٹکٹ تمہارا ہے بتائو کس کو دینا ہے تو ڈاکٹر شیر علی نے کہا عزیز ڈوگر کو دے دیں۔ اس طرح ڈاکٹر شیر علی کا نامزد کردہ عزیز ڈوگر جو کہ ڈوگر برادری کے معزز شخص چوہدری رحمت علی ڈوگر کا بیٹا تھا۔ ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہو گیا۔ آجکل تو پارٹی ٹکٹ کی بولی لگتی ہے۔ تادم تحریر تو تحریک انصاف کے امیدواروں کی طرف سے پارٹی ٹکٹ کے لیے دیئے گئے پیسے ڈوب چکے ہیں جو مرید عباس بپی کے ذریعے پارٹی فنڈز میں جمع ہوئے تھے کہ بپی بھی پارٹی سے کنارہ کش ہو گئے۔نون لیگ کی آئندہ الیکشن کے لیے ٹکٹ کی کم از کم فیس 6 کروڑ بتائی جاتی ہے تاہم دروغ برگردن راوی، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ بات کہاں تک سچ ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ پارٹی فنڈ کیلئے نون لیگ اور پیپلزپارٹی الیکشن کے خواہش مند حضرات سے معقول رقم حاصل کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ انتخابی مہم کے اخراجات کروڑوں میں ہیں۔ آج کسی مخلص کارکن کے لیے الیکشن میں حصہ لینا ممکن ہی نہیں ہے۔