تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری (روداد زندگی)
ڈرامہ کے اختتام پر اس وقت کے سپیکر پنجاب اسمبلی شیخ رفیق احمد نے ہم سب ’’فنکاروں‘‘ کو بلایا ۔ شیخ رفیق احمد اور اس وقت کے وفاقی وزیر صحت شیخ رشید احمد پیپلز پارٹی میں بائیں بازو کے نظریات کے حامل رہنما سمجھے جاتے تھے اور شیخ رشید کو تو بابائے سوشلزم بھی کہا جاتا تھا۔ دوسرے بھی کافی بائیں بازو کے رہنما بھٹو حکومت میں شامل تھے‘ جن کی اکثریت بھٹو صاحب کے سوشلزم کے حوالے سے ناکافی اقدامات کی وجہ سے خوش نہیں تھی جن میں جے اے رحیم‘ ڈاکٹر مبشر حسن اور دوسرے رہنما بھی شامل تھے۔ شیخ رفیق احمد دھیمے مزاج کے مہذب اور صلح جو رہنما سمجھے جاتے تھے۔ شیخ رفیق احمد نے ہم طلبہ سے پوچھا کہ یہ ڈرامہ کس نے لکھا ہے اور ساتھ ہی نوکرانی کو نیشنلائزیشن کرنے کا اچھوتا خیال کس کا ہے۔ ہمارے رائٹر اور ڈائریکٹر نے کہا کہ میرا ہے مگر یہ فقرہ تو صرف ڈرامہ کی حد تک ہی تھا۔ شیخ رفیق صاحب نے کہا کہ آپ اس فقرے کی اہمیت اور سنگینی سے واقف ہیں تو ہمارے انقلابی دوست نے کہا کہ ہم نے اسے صرف مزاج کے طور پر شامل کیا تھا۔ مگر اصل میں ظفر نے مجھے اس جملہ کو ڈرامہ میں ڈالنے کیلئے کہا تھا۔ پھر شیخ رفیق مجھ سے مخاطب ہوئے، کہنے لگے برخوددار آپ نے کبھی سرمایۂ دارانہ ممالک کے سماجی‘ معاشرتی حالات اور وہاں پر عورت کی حیثیت کے بارے میں کچھ پڑھا ہے یا دیکھا ہے۔ اسی طرح سوشلسٹ اور کمیونسٹ ممالک کے حالات کا دیگر سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ممالک سے تقابلی جائزہ لیا ہے‘ میں خاموش رہا تو انہوں نے کہا کہ آپ نے سنی سنائی باتوں پر نہ صرف یقین کر لیا ہے بلکہ اسے بغیر کسی تحقیق اور جستجو کے پھیلا بھی رہے ہو‘ سرمایہ دارانہ ممالک میں عورت کی حیثیت محض ایک پراڈکٹ کی سی ہے اور اسے روح کی بجائے جسم سمجھ کر جنس کو کمرشلائز کر دیا گیا ہے‘ دیوار کے اس پار دیکھنے والے کیمرے سرمایہ دارانہ سماج ہی نے ایجاد کئے ہیں ان ممالک میں جسم فروشی کی باقاعدہ اجازت ہے آپ مجھے بتائیں کہ کسی کمیونسٹ یا سوشلسٹ ملک میں جسم فروشی کی اجازت ہے میرے اور میرے دوستوں کے پاس ان کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
ہمیں تو ہمارے بائیں بازو کے ’’دانشوروں‘‘ کے ذریعہ یہی معلوم ہوا تھا کہ بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن اور زرعی اصلاحات صرف دکھاوا ہیں اور 1970ء کے انتخابات میں جو انقلابی فضا تیار ہوئی تھی اسے بھٹو صاحب کے مصنوعی اقدامات نے ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر انقلاب کا راستہ خود ہی روک دیا ہے بلکہ سامراجی طاقتوں کو مزید طاقتور بنا دیا ہے۔ ان خیالات کا زمینی حقائق سے کتنا تعلق تھا‘ ہمارے علم میں اس حوالے سے کچھ بھی نہ تھا۔ ہم جیسے نوجوان جذبات کے گھوڑے پر سوار تھے۔ مجھے آج لمز کے طلبا کی طرف سے عبوری اور عارضی وزیر اعظم کو کئے گئے سوالات پر اپنا زمانہ طالب علمی یاد آ گیا مگر اس دور میں بدتہذیبی ابھی رواج نہیں پائی تھی۔ نہ ہی سوشل میڈیا “مجاہدین” کی فوج ٹوئٹر‘ فیس بک یا ڈیجیٹل میڈیا پر نبرد آزما ہوئی تھی جو کہ ہماری طرح زمینی حقائق سے نابلد اور علمی و تحقیقی جستجو سے عاری ہے اور صرف سوشل میڈیا پر اپنی ’’مردانگی‘‘ کے جوہر دکھانے تک ہی محدود ہے۔
شیخ رفیق احمد کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ اپنی ناسمجھی اور شیخ رفیق احمد کی گفتگو کی سچائی واضح ہوتی گئی اور پھر جب U.S.S.R یعنی روس ’’مجاہدین اسلام‘‘ کی وجہ سے افغانستان کی طویل جنگ میں شکست کھا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور اس کے نتیجہ میں کئی مسلم ممالک ازبکستان‘ ترکمانستان تاجکستان‘ چیچنیا وغیرہ وجود میں آ گئے۔ اس روسی شکست سے پہلے دنیا بھر کے ممالک میں جسم فروشی میں تھائی لینڈ‘ فلپائن‘ افریقہ اور بھارت کے علاوہ چند دوسرے ممالک کی اجارہ داری تھی پھر چشم فلک نے دیکھا اِن نو آزاد ریاستوں کی ’’مسلمان‘‘ لڑکیوں اور عورتوں نے جن کی عمریں 12 سال سے لیکر 60 سال تھیں۔ امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت ’’منڈی‘‘ کی معیشت اختیار کر چکی ہیں اور اس میدان میں ان نو ازاد ریاستوں نے تھائی لینڈ اور فلپائن جیسے ممالک کو مات دے دی ہے۔ کمیونسٹ ممالک میں کم از کم عورت کی خوراک اور عزت تو محفوظ تھی۔ شیخ رفیق احمد کے ساتھ مجھے بابا غلام فرید کا سات سو سال پرانا قول یاد آ گیا۔
اسلام کے پانچ نہیں چھ رکن ہیں اور چھٹا رکن روٹی ہے جس کی وجہ سے اس وقت کے فقہیان نے ان پر کفر کے فتوے بھی لگائے کیونکہ یہ رکن ہمارے بادشاہوں‘ حکمرانوں اور سرمایہ داروں کو قبول نہیں تھا کہ رعایا کی غربت کی عمارت پر ہی تو ان کے عشرت کدے آباد تھے اور ہیں اور شاید رہیں گے۔ (جاری ہے )