(روداد زندگی) ڈاکٹر ظفر چوہدری
آئیے پھر سائنس کالج وحدت روڈ لاہور چلتے ہیں۔ یہ 1974/75ء کا زمانہ تھا۔ یہ تو میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ کالجوں اور بین الکلیاتی تقریری مقابلوں کے علاوہ مشاعروں کا احوال اس دور میں کیسا ہوتا تھا۔ میں انہی دنوں اسلامی جمعیت طلبا کے مقابلہ میں ایک لبرل گروپ کے نام سے جمعیت مخالف طلباء کو بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع کر چکا تھا اور میں تقریباً ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ سائنس کالج وحدت روڈ لاہور رہا۔ سیاسی اور ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے بحیثیت طالب علم یہ میرا بھرپور زمانہ تھا اس کے بعد چانڈکا میڈیکل کالج سندھ میں داخلے کے بعد یہ سرگرمیاں جاری نہ رہ سکیں۔ اس دور میں کتابیں اور آوارگی ہی میرا مقدر ٹھہری جس کے بارے میں آئندہ لکھوں گا۔ بدقسمتی سے لاہور سے لاڑکانہ چلے جانے کے بعد سائنس کالج کے دوستوں سے مختصر رابطہ رہا اور اب میں تقریباً سب دوستوں کے نام بھی بھول چکا ہوں۔ چند دوستوں کے نام نقوی یا ڈار کے حوالہ سے ہی یاد ہیں۔ اسی طرح جن صاحب دیوان شاعر سے میں اصلاح لیتا تھا ان کا دیوان اور نام بھی دونوں بھول چکا ہوں۔ کالج میں ڈرامہ سوسائٹی بھی تھی اس کے کرتا دھرتا بھی ہمارے گروپ کے ایسے رکن تھے جو اندرون لاہور سے تعلق کی وجہ سے اصلی اور خالص لاہوری تھے۔ انہوں نے کالج میں ڈرامہ سٹیج کرنے کا پروگرام بنایا۔ میں چونکہ ہاسٹل میں رہتا تھا ڈرامہ کی تیاری میرے کمرہ میں ہی شروع ہو گئی۔ ڈرامہ سوسائٹی کے صدر نے مختلف رسالوں سے ٹکڑے جوڑ کر ڈرامہ کا پلان تیار کیا۔ مجھے یاد آیا انہی صاحب نے میرے دو عدد مضامین سابق وزیر اعلیٰ پنجاب محمد حنیف رامے کے ہفت روزہ رسالہ ’’نصرت‘‘ میں بھی شائع کروائے تھے مگر اب میرے پاس اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ خیر ڈرامہ کیلئے جب ’’فنکاروں‘‘ کا انتخاب شروع ہوا تو ظاہر ہے کہ مصنف ہی ہیرو کے کردار کیلئے منتخب ہوئے۔ ہیروئن کا کردار ایک سمارٹ اور کلین شیو لڑکے کے حصہ میں آیا۔ ایک کردار ملازم کا تھا جس کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔ ہیرو صاحب نے مجھے کہا کہ یار یہ چھوٹا سا کردار ہے چوہدری آپ کر لیں میرا ڈرامہ یا اداکاری سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا اور میں آئندہ طلباء یونین کے انتخابات میں صدارت کا امیدوار تھا۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ اس کردار کی وجہ سے کالج کے طلباء میں میرا امیج خراب ہو گا تو دوسرے دوستوں نے کہا کہ یہ تو ڈرامہ ہے اور کوئی تیار نہیں ہے تم اگر قربانی دو گے تو سب گروپ کے طلباء کیلئے مثال بن جائے گی۔ چار و ناچار میں یہ چھوٹا سا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہو گیا۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ سیٹھ صاحب جس کے گھر میں ملازمت کرتا تھا‘ یعنی گھریلو نوکر تھا وہ کافی عیاش قسم کے آدمی تھے اور ان کا بیٹا جو کہ ہیرو تھا وہ اپنے والد کی حرکات‘ پیسے کے لالچ اور غریبوں کے ساتھ علم کی وجہ سے ان کا مخالف تھا۔ دوسرے لفظوں میں ظالم سماج اور انقلابی نوجوان کے درمیان کشمکش اس وقت کے تناظر میں دکھایا جانا مقصود تھا۔ کیونکہ ذوالفقار بھٹو صاحب ایک انقلابی تحریک کے نتیجہ میں برسر اقتدار آئے تھے مگر میرے سمیت بہت سے ’’انقلابی‘‘ بھٹو کی پالیسیوں کے مخالف تھے کہ انہیں فوری طور پر سوشلزم اور مزدور کسان راج نافذ کرنا چاہیے ۔ اس دور کے سیاسی پس منظر کے بارے میں یہی تاثر‘ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے طلباء اور سیاسی کارکنوں میں پایا جاتا تھا۔ خیر ڈرامہ کی ریہرسل کئی دنوں تک جاری رہی۔ ڈرامہ مصنف ہی ہدایتکار بھی تھے۔ انہوں نے مجھے نوکر کی نفسیات اور عادات بارے کافی سمجھایا اور اکثر مجھے کہتا۔ ظفر! ڈرامہ کی حد تک اپنے اندر کے چوہدری کو قابو میں رکھو۔ میرے لئے تو اداکاری ہی مشکل کام تھا‘ اوپر سے اپنی اَنا کے چوہدری کو مارنا اس سے بھی زیادہ مشکل تھا مگر ’مرتا کیا نہ کرتا‘ اور بلھے شاہ کی مشہور کافی ’’مینوں نچ کے یار مناوناں ایں‘‘ یاد آ جاتی۔ جب یہ ڈرامہ سٹیج کیا گیا تو مہمان خصوصی شیخ رفیق احمد اس وقت پنجاب اسمبلی کے سپیکر تھے‘ پرنسپل مجید اعوان صاحب اور دوسرے اساتذہ بھی موجود تھے۔ ڈرامہ میں سیٹھ صاحب اور ان کا ہیرو بیٹا دونوں ایک ہی نوکرانی پر عاشق ہو جاتے ہیں۔ اب چونکہ میں سیٹھ صاحب کا بااعتماد اور نمک خور نوکر تھا تو سیٹھ صاحب مجھ سے مشورہ اور شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گاموں دیکھ میرے بیٹے کے لچھن‘ تم کیا کہتے ہو‘ میں کہتا ہوں کہ سیٹھ صاحب نوکرانی کی نیشنلائز کر لیں۔ ( جاری ہے )