پنجاب کی سیاست میں بعض شخصیات محض افراد نہیں ہوتیں بلکہ پورے ادوار کی علامت بن جاتی ہیں۔ میاں منظور احمد وٹو کا شمار بھی انہی سیاست دانوں میں ہوتا ہے جن کی وفات کے ساتھ ہی ایک ایسا باب بند ہو گیا ہے جس میں پنجاب کی سیاست کے کئی رنگ، کئی موڑ اور کئی تضادات سمٹ کر آ جاتے ہیں۔ ان کی سیاسی زندگی کسی ایک جماعت، ایک نظریے یا ایک سادہ سیاسی راستے تک محدود نہیں رہی بلکہ وہ پاکستان کی اس حقیقت پسند سیاست کی نمائندگی کرتی ہے جس میں طاقت کے مراکز، ریاستی بندوبست، جماعتی سیاست اور ذاتی سیاسی بقا ایک دوسرے سے گتھم گتھا نظر آتے ہیں۔
میاں منظور وٹو کا تعلق اوکاڑہ کے ایک زمیندار گھرانے سے تھا اور ان کی سیاست کی جڑیں مقامی حکومتوں سے پھوٹیں۔ ضلعی کونسل کے چیئرمین سے لے کر پنجاب اسمبلی کے اسپیکر اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب تک کا سفر محض ذاتی صلاحیت کا نہیں بلکہ اس پورے سیاسی نظام کی عکاسی کرتا ہے جس میں مقامی اثر و رسوخ، انتظامی سمجھ بوجھ اور طاقت کے توازن کو سمجھنا کامیابی کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ وہ ایسے وقت میں سیاست میں ابھرے جب غیر جماعتی سیاست، محدود جمہوریت اور اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں سیاست پنپ رہی تھی، اور انہوں نے اسی ماحول میں خود کو منوایا۔
ان کی سب سے نمایاں پہچان شاید یہ تھی کہ وہ ہر سیاسی بندوبست میں اپنی جگہ بنانے کا ہنر رکھتے تھے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی کے طور پر ان کا طویل کردار، پھر وزیر اعلیٰ پنجاب بننا، اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ان کے پاس عددی اکثریت نہیں تھی، اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ محض تعداد کے نہیں بلکہ جوڑ توڑ، مفاہمت اور طاقت کے مراکز کے درمیان توازن کے ماہر تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جیسی نظریاتی جماعت کو بھی پنجاب میں حکومت سازی کے لیے انہیں قبول کرنا پڑا، حالانکہ پارٹی کے اندر اس فیصلے پر شدید تحفظات موجود تھے۔
یہ وہ دور تھا جب پنجاب کی سیاست میں نظریے سے زیادہ اقتدار کی سیاست غالب تھی۔ میاں منظور وٹو اسی سیاست کے نمائندہ کردار تھے۔ وہ کسی ایک جماعت کے مستقل وفادار نہیں رہے بلکہ وقت اور حالات کے مطابق اپنی سیاسی وابستگیاں بدلتے رہے۔ مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ قائداعظم اور بعد ازاں تحریک انصاف سے تعلقات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کی سیاست اصولی کم اور عملی زیادہ تھی۔ مگر یہی عملی سیاست پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کی ایک بڑی حقیقت بھی ہے۔
ان کی زندگی کا ایک اہم باب وہ ہے جب انہیں احتساب اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ جیل، بیماری کے نام پر اسپتال میں سب جیل، اور طویل عدالتی کارروائیاں اس نظامِ انصاف کی تصویر پیش کرتی ہیں جو طاقتور سیاست دانوں کے لیے نرم اور کمزور کے لیے سخت نظر آتا ہے۔ بالآخر بری ہونا اور پھر دوبارہ سیاست میں واپسی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں سیاست دان کا کیریئر اکثر عدالت کے فیصلوں سے زیادہ سیاسی موسم پر منحصر ہوتا ہے۔
میاں منظور وٹو کی سیاست پر تنقید بھی ہوتی رہی اور تعریف بھی۔ ناقدین انہیں موقع پرست سیاست دان قرار دیتے رہے، جب کہ حامیوں کے نزدیک وہ ایک حقیقت پسند سیاست دان تھے جو پنجاب جیسے پیچیدہ صوبے میں اقتدار کے کھیل کو سمجھتے تھے۔ حقیقت شاید ان دونوں کے بیچ کہیں موجود ہے۔ وہ نہ تو کسی انقلابی سیاست کے علمبردار تھے اور نہ ہی محض ایک بے وزن سیاست دان۔ وہ اس نظام کی پیداوار تھے جس میں نظریاتی سیاست کے لیے جگہ محدود اور انتظامی سیاست کے لیے گنجائش وسیع ہوتی ہے۔
ان کی وفات پر صدر اور وزیر اعظم کی جانب سے خراجِ عقیدت اس بات کا اظہار ہے کہ وہ ریاستی سطح پر تسلیم شدہ سیاسی کردار تھے۔ مگر اس کے ساتھ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ان جیسے سیاست دانوں نے جمہوریت کو کتنا مضبوط کیا اور کتنا کمزور۔ پنجاب میں مقامی حکومتوں، صوبائی خودمختاری اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کے حوالے سے ان کا کردار ہمیشہ متنازع رہا۔ وہ اقتدار کے کھیل میں کامیاب رہے، مگر کیا اس کامیابی کا فائدہ عام آدمی تک پہنچا، یہ سوال تاریخ کے سپرد ہے۔
میاں منظور وٹو کی سیاست ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت محض انتخابات کا نام نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جس میں طاقتور حلقے، جماعتیں اور افراد ایک دوسرے کے ساتھ برسرِپیکار رہتے ہیں۔ ایسے میں بعض سیاست دان نظریے کی سیاست کرتے ہیں اور اکثر بقا کی۔ وٹو صاحب نے بقا کی سیاست کی، اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔ ان کی کامیابی اس نظام کی کامیابی بھی ہے اور ناکامی بھی۔
ان کی زندگی کا آخری دور سیاسی لحاظ سے نسبتاً خاموش رہا، مگر ان کا نام پنجاب کی سیاست کی تاریخ سے کبھی الگ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ان شخصیات میں شامل ہیں جن کے بغیر نوے کی دہائی اور بعد کے سیاسی منظرنامے کو مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکتا۔ ان کی سیاست نے کئی نوجوان سیاست دانوں کو یہ سبق دیا کہ پاکستان میں اقتدار تک رسائی کا راستہ ہمیشہ سیدھا نہیں ہوتا، بلکہ اس میں موڑ، سمجھوتے اور مفاہمت شامل ہوتی ہے۔
میاں منظور وٹو کے انتقال پر تعزیت کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ ان کے سیاسی کردار پر سنجیدہ غور بھی کیا جائے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سوال سونپتی ہے کہ کیا ہم اب بھی اسی عملی سیاست کے اسیر رہیں گے یا کبھی اصولی، عوام دوست اور جوابدہ سیاست کی طرف بڑھ سکیں گے۔ ان کا عہد ختم ہو گیا، مگر وہ سیاست جس کی وہ نمائندگی کرتے تھے، اب بھی زندہ ہے۔ یہی ان کی اصل میراث ہے، اور یہی پاکستان کی سیاست کا سب سے بڑا چیلنج بھی۔







