بہاولپور: سلمیٰ جبیں قتل کیس، مبینہ سودے بازی، ملزم رہا، پولیس کی ناکامی پر سوالات اٹھنے لگے

بہاولپور(کرائم سیل)سلمیٰ جبیں قتل کیس میں پیش رفت کے نام پر سامنے آنے والی صورتحال نے پولیس تفتیش، گرفتاریوں اور مبینہ سودے بازی پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس اندوہناک قتل کیس میں ملوث مرکزی ملزم مقتولہ کے والد اور دیگر ملزمان مبینہ طور پر عبوری ضمانتیں کروا کر مقامی پولیس کے پاس شامل تفتیش ہونے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں، جبکہ نامزد ملزم ذیشان معملات طے ہونے کے بعد ڈیرہ نواب پولیس کے سامنے پیش ہو چکا ہے۔ مقامی ذرائع یہ بھی کنفرم کر رہے ہیں کہ مرکزی ملزم طالب حسین بھی جلد پولیس کے ساتھ ڈیل کرکے پیش ہو جائے گا مگر پولیس اس اہم کیس میں عبوری ضمانتوں سمیت آفیشل طور پر کسی قسم کی معلومات کی تصدیق کرنے گریزاں ہے۔ ذرائع کے مطابق اس سے قبل پولیس نے ملزمان کے قریبی رشتہ داروں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہوئے طالب حسین کے بہنوئی مہر فضل، مہر مشتاق سیال، قاضی نور پکھیوار اور اوچشریف سے ممتاز عباسی کو گرفتار کیا۔ اسی طرح طالب حسین کے ساتھ مبینہ ناجائز تعلقات کی شہرت رکھنے والی ایک خاتون کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا جسے بعد میں مقامی بااثر افراد کی مداخلت پر رہا کر دیا گیا۔ طالب حسین کے دو بیٹے پہلے ہی پولیس کی تحویل میں ہیں، جن میں ایک نامزد ملزم جبکہ دوسرا نامعلوم افراد کے زمرے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان کو پناہ دینے کے الزام میں ڈی جی خان کے ایک زمیندار کے بیٹے کو بھی پولیس نے گرفتار کیا، جس کے بعد مبینہ طور پر ایک وکیل کے ذریعے طالب حسین نے اپنے بیٹے ذیشان کو پولیس کے سامنے پیش کیا۔اہلِ علاقہ میں یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ ظالم قاتلوں نے پولیس کے ساتھ معاملات طے کر لیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود پولیس مرکزی ملزمان کو گرفتار کرنے کی کوششوں میں ناکام رہی، جبکہ اس دوران صرف طالب حسین کے قریبی تعلق داروں پر ریڈ مارے جاتے رہے، متعدد افراد کو گرفتار کر کے چھوڑ دیا گیا اور اصل ملزمان پسِ پردہ ریلیف کے لیے سودے بازی کرتے رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب معاملات فائنل ہو گئے تو ملزمان کے پیش ہونے کا سلسلہ شروع کرایا گیا۔اہم سوال یہ بھی ہے کہ پولیس ملزمان سے مبینہ معاملات اور رعایتوں کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات دینے سے بھی اجتناب کر رہی ہے۔ وقوعہ کے پہلے ہی روز پولیس نے طالب حسین کے گھر سے کپاس سے بھری ایک ٹرالی، موٹر سائیکل، اور دیگر قیمتی سامان تحویل میں لے لیا تھا، جس پر بھی شفافیت کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔عینی شاہدین کے مطابق سلمہ جبیں کی پیدائش اگرچہ طالب حسین کے گھر ہوئی، تاہم اس کی پرورش امیرہ بی بی نامی خاتون نے کی۔ طویل تگ و دو کے بعد مقتولہ کے والد نے اس کا نکاح قاسم کے ساتھ کروانا قبول کیا، مگر نکاح کے صرف دو روز قبل طالب حسین نے اپنی دیگر بیٹیوں کی مدد سے سلمہ جبیں کو اسکی شادی سے پہلے مہندی اور دیگر رسومات کی غرض سے اپنے گھر بلا لیا اور اسی رات ظلم کی انتہا کر دی گئی ۔طالب حسین نے اپنے بیٹوں اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر امیرہ بی بی اور دیگر خواتین کو ایک کمرے میں بند کیا اور اپنی بیٹی پر تشدد کیا اور اسکا گلا دبا کر قتل کر دیا۔ شور شرابے پر ملزمان مقتولہ کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر مہر فضل حسین کے گھر لے گئے اور بعد ازاں لاش کو فصلوں میں پھینک کر غائب ہوگئے۔15 پر بروقت اطلاع کے باوجود پولیس 12 گھنٹے تک نہ لاش تلاش کر سکی اور نہ ہی ملزمان کو گرفتار کیا جا سکا۔ لاش برآمد ہونے کے بعد پولیس نے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا۔یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ طالب حسین مبینہ طور پر علاقے میں یہ بات کہتا رہا کہ “میں اپنی بیٹی کو قتل کر کے خود ہی مدعی بن جاؤں گا، ایک بیٹے کو پیش کر دوں گا اور آسانی سے بچ نکلوں گا” جو اب سچ ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔مقتولہ کی پرورش کرنے والی امیرہ بی بی پولیس کی کارکردگی سے شدید نالاں ہیں اور اہلِ علاقہ کے ساتھ حکومت سے سی سی ڈی طرز کی شفاف اور غیر جانبدار تفتیش کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کیس کی تفتیش بہاولپور پولیس کے بجائے سی سی ڈی کے سپرد کی جائے تاکہ اصل قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بہاولپور پولیس اس سفاکانہ قتل میں ملوث بااثر ملزمان کو واقعی قانون کے کٹہرے میں لاتی ہے یا یہ کیس بھی مبینہ سودے بازیوں کی نذر ہو جاتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں