اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جس دوران جسٹس طارق محمود جہانگیری خود عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے سماعت کی، اور دوران سماعت جسٹس طارق محمود جہانگیری روسٹرم پر آگئے۔ عدالت نے وکلا کو بیٹھنے کی ہدایت دی۔ چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے کہا کہ “ہمیں بطور چیف جسٹس درخواست کررہا ہوں، معزز وکلاء بیٹھ جائیں، معزز جسٹس طارق محمود جہانگیری آئے ہوئے ہیں، باقی بیٹھ جائیں۔”
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے مؤقف اپنایا کہ انہیں جمعرات کو نوٹس موصول ہوا، اور قانونی طور پر تمام ریکارڈ انہیں فراہم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر پر بینچ میں بیٹھنے پر اعتراض کیا اور کہا کہ “آپ بھی جج ہیں اور میں بھی جج ہوں، آپ کے خلاف میری اپیل زیر التوا ہے، میرا یہ اعتراض لکھا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے کبھی بھی کووارنٹو نہیں سنی، اور میرا ڈویژن بینچ کا حق متاثر ہوا ہے، آپ نے مجھے سنے بغیر کام سے روک دیا۔”
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے مزید کہا کہ درخواست پر اعتراض کے باوجود انہیں بغیر سنے کام سے روک دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے درخواست قابل سماعت قرار دینے کی ہدایت دی تھی، لیکن انہیں بغیر سنے نوٹس جاری کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ درخواست سوا سال پرانی ہے اور صرف تین دن کا نوٹس دیا گیا۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے خبردار کیا کہ “یہ پنڈورہ باکس نہ کھولیں، سب کی پگڑیاں اچھل جائیں گی۔ میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں میری ڈگری اصلی ہے، میں حلفاً کہتا ہوں کہ میری ڈگری اصلی ہے، مجھے آپ پر اعتماد نہیں ہے۔ کیس دوسرے بینچ کو منتقل کریں اور مجھے جواب داخل کرنے کی مہلت دیں۔”
عدالت نے کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کو تمام متعلقہ ریکارڈ اور دستاویزات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ درخواست گزار نے کیس کو روزانہ کی بنیاد پر چلانے کی استدعا کی۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ وقت بہت کم ہے، اور کیس روزانہ کی بنیاد پر چلایا جائے تاکہ تمام حقائق عدالت کے سامنے آ سکیں۔ صدر اسلام آباد بار نے مؤقف اپنایا کہ ہر چیز کا کوئی قانون اور قاعدہ ہوتا ہے، اور وکیل صاحب چاہ رہے ہیں کہ کیس کا آج ہی فیصلہ ہو جائے۔ سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کی جوڈیشل ہسٹری میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوا جیسا یہاں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے ڈگری کے معاملے میں اسٹے دیا ہوا ہے اور ان کے پاس سارا ریکارڈ موجود ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف آپ کو ویسے ہی ملے گا جیسے کسی اور کو ملتا ہے، اور آپ اس کیس میں براہ راست شامل نہیں تھے۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ دنیا کی ہسٹری میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی اعتراض والے کیس میں کام سے روکا جائے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر سے کہا کہ آپ یہ کیس نہ سنیں کیونکہ ان پر اعتراض ہے، اور یہ کیس کسی دوسرے بینچ کو منتقل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل موجود ہے، اسے ہی یہ معاملہ دیکھنے دیا جائے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے مؤقف اپنایا کہ کراچی یونیورسٹی نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ ان کی ڈگری جعلی ہے، اور عدالت کے ذریعے نوٹس جاری کیے بغیر انہیں کام سے روکنا غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کی جوڈیشل ہسٹری میں ایسا واقعہ کہیں نہیں ہوا، اور 34 سال پرانے کیس میں صرف تین دن کا نوٹس دیا گیا، جو غیر معقول ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جہانگیری صاحب میرے کولیگ ہیں اور کہیں نہیں جاتے، جس پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے جواب دیا کہ کسی پٹواری کو بھی اس طرح کام سے نہیں روکا جاتا جیسا مجھے روکا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا کہ کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار سے تمام متعلقہ ریکارڈ طلب کیا جائے، اور کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کی گئی تاکہ جسٹس طارق محمود جہانگیری اپنی جوابی دلائل عدالت میں پیش کر سکیں۔







