پاکستان کی معیشت ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں پالیسی کی ناکامی، سیاسی انتشار، مرکز اور صوبوں کے درمیان عدمِ اعتماد، اور دہائیوں سے اپنائے گئے غلط معاشی ڈھانچے مل کر ایسے بحران پیدا کر چکے ہیں جنہیں اب محض وعدوں اور بیانات سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نمائندوں سے خطاب اس پیغام کو ایک بار پھر ابھارتا ہے کہ سیاسی قوتوں میں اعتماد اور شراکت داری ہی وہ بنیاد ہے جس کے بغیر کوئی معاشی منصوبہ، کوئی اصلاحات اور کوئی پالیسی بار آور نہیں ہو سکتی۔یہ امر اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر کوئی بھی سیاسی جماعت ہو، حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، اس کا بنیادی مقصد معاشی ترقی، معاشی شراکت اور عوامی بہبود کا حصول ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں سیاسی منشور محض کاغذی اعلانات رہتے ہیں کیونکہ ریاست کی سمت مسلسل بیرونی پروگراموں — خصوصاً بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے سخت شرائط والے پروگراموں — کے زیر اثر رہتی ہے۔ پاکستان چوبیس مرتبہ اس ادارے کے پاس جا چکا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری معاشی سمت کبھی داخلی منصوبہ بندی یا مستقل پالیسیوں کے تحت طے نہیں ہوئی، بلکہ ہر بار قلیل مدتی آسانی کے بدلے پائیدار اصلاحات کو نظر انداز کیا گیا۔موجودہ سیاسی تناظر میں سب سے بڑا خطرہ وہ کشیدگی ہے جو دو بڑی جماعتوں، یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان بڑھ رہی ہے۔ ریاستی ڈھانچے کا موجودہ ’’ہائبرڈ‘‘ ماڈل کسی بھی قسم کی پالیسی تکمیل کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے کا شدید محتاج ہے۔ بلاول بھٹو کی طرف سے باہمی اعتماد اور شراکت داری کی اپیل اسی ضرورت کا اظہار ہے۔ انہوں نے نہایت سادگی مگر گہرائی سے یہ اصول پیش کیا کہ سیاست دانوں کو کم از کم ان پالیسیوں پر عملدرآمد سے ابتدا کرنی چاہیے جن پر پہلے ہی اتفاق موجود ہے۔جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے متعلق پنجاب اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد ایک ایسی مثال ہے جو برسوں سے سیاسی بیانیوں میں موجود مگر عملی پیش رفت سے محروم ہے۔ مقامی حکومتوں کے مضبوط ہونے، صوبائی اکائیوں کے بااختیار ہونے اور انتظامی ڈھانچے کے زمین کے قریب آنے سے ہی وہ ترقی ممکن ہے جس کا وعدہ ہر جماعت اپنے منشور میں کرتی ہے۔ بلاول بھٹو کی یہ نشاندہی کہ ’’وفاقیت‘‘ کی حقیقی بنیاد صوبوں کی معاشی خود مختاری ہے، محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ قومی بقا کی اقتصادی شرط ہے۔انہوں نے کاروباری برادری کی جانب سے 165 اضلاع پر کی گئی تحقیق کو سراہا اور اسے صوبائی خود مختاری کے حق میں مضبوط دلیل قرار دیا۔ یہ اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ ہے کہ معیشت کا درد رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ ترقی اوپر سے نہیں بلکہ نیچے سے شروع ہوتی ہے۔ ایسی تحقیق اگر پالیسی کا حصہ بنے تو وہ وفاق اور صوبوں کے درمیان اعتماد کو بڑھا سکتی ہے۔بلاول بھٹو نے اٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی بہتر ٹیکس وصولیوں کی مثال دے کر یہ ثابت کیا کہ جب اختیارات کو مرکزیت سے نکال کر مقامی سطح پر منتقل کیا جاتا ہے تو معیشت بہتر ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ اہم تجویز بھی پیش کی کہ صوبوں کو وفاقی محصولات اتھارٹی میں نمائندگی دی جائے اور اگر کوئی صوبہ اپنی متوقع محصولات سے زیادہ ٹیکس جمع کرے تو اسے اضافی رقم رکھنے دی جائے۔ یہ تصور ’’مرکز سے صوبوں تک اعتماد‘‘ کی بنیاد رکھتا ہے، ورنہ مرکز اور صوبوں کے درمیان ہر سال پیدا ہونے والا عدمِ اعتماد اور کشمکش ملک کی معیشت کو کمزور ہی کرتی رہی ہے۔یہ تجاویز کسی ایسے وقت میں دی گئی ہیں جب وفاقی حکومت آئین کی شق 160 کی اس ذیلی شق میں تبدیلی پر غور کر رہی ہے جس کے تحت صوبوں کو ان کے جائز مالی حصے کا تحفظ حاصل ہے۔ اس تحفظ کو کمزور کرنا دراصل وفاقیت کی بنیاد کو چھیڑنے کے مترادف ہے۔ بلاول بھٹو نے بجا طور پر کہا کہ ’’آپ شہد سے زیادہ مکھیاں اکٹھی کر سکتے ہیں، سرکہ سے نہیں‘‘۔ ٹیکس دہندگان کے ساتھ احترام کے ماحول کی ضرورت، ٹیکس قوانین کا علاقائی مسابقت کے مطابق ہونا، اور وفاقی محکموں کے روایتی جبر کا خاتمہ وہ نکات ہیں جنہیں نظر انداز کر کے کوئی بھی معاشی ترقی ممکن نہیں۔بلاول بھٹو نے بجلی کے نرخ کم کرنے، پیداواریت میں اضافے، خصوصی اقتصادی زونز اور سرکاری و نجی شراکت داری کو بھی لازمی اصلاحات قرار دیا۔ ان اصلاحات کے بغیر کوئی بھی صنعتی پالیسی، کوئی برآمدی منصوبہ اور کوئی روزگار پروگرام کامیاب نہیں ہو سکتا۔ مگر ان سب کے سامنے سب سے بڑی دیوار وہ سخت شرائط ہیں جو بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے جاری پروگرام نے کھڑی کر رکھی ہیں۔ یہ قرض پروگرام اگر نہ ہو تو تین دوست ممالک سے ملنے والی امداد، قرضوں کی تجدید اور مالی تعاون رک سکتا ہے۔ مگر اس پروگرام کے تحت جو ’’تشخیص‘‘ ہمارے معاشی ڈھانچے کے متعلق کی گئی ہے وہ نہایت سخت اور افسوسناک ہے۔عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق ہماری معیشت کو سب سے زیادہ نقصان ریاستی رعایتوں، ٹیکس چھوٹ، اور پسندیدہ کاروباری گروہوں کی غیر شفاف سرپرستی نے پہنچایا۔ برسوں تک کچھ مخصوص طبقات کو دی گئی سبسڈیاں، کم قیمت مالیاتی سہولیات، ٹیکس سے استثنیٰ، اور زرعی و صنعتی قیمتوں پر سرکاری مداخلت نے مسابقت کو ختم کیا، وسائل کا غلط استعمال بڑھایا اور معیشت کو ایسے ’’کمزور صنعتی ڈھانچے‘‘ میں بدل دیا جو آج تک کھڑا نہیں ہو سکا۔یہ تشخیص چاہے کتنی ہی تلخ ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ معاشی بدحالی کسی ایک حکومت یا ایک جماعت کی وجہ سے نہیں، بلکہ مسلسل غلطیوں، غیر منقسم اختیارات، غیر منصفانہ معاشی ڈھانچے اور طاقتور مفادات کی ملی بھگت سے جنم لیتی ہے۔ان حالات میں سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ نہ وفاق اور نہ کوئی صوبہ خود کو الگ تھلگ محسوس کرے۔ خصوصاً وہ صوبہ جسے موجودہ نظام میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ صوبوں اور وفاق کے درمیان اعتماد اور تعاون ہی وہ بنیاد ہے جس پر معاشی استحکام کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔ بلاول بھٹو کی طرف سے پیش کیے گئے اصول — اعتماد، شراکت داری، احترامِ رائے اور مشترکہ اقتصادی ایجنڈا — صرف سیاسی نعرے نہیں، بلکہ ایک ایسی معاشی ضرورت ہیں جس کے بغیر پاکستان کسی مالی بحران سے نہیں نکل سکتا۔ایسے وقت میں جب ہماری معیشت نہایت نازک مرحلے میں ہے، پالیسی کا رُک جانا، سیاسی انتقام کا بڑھ جانا، یا صوبوں اور وفاق کے درمیان کشیدگی بڑھنا وہ خطرات ہیں جنہیں ملک اب مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لیے اب یہ فیصلہ سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ باہمی اختلافات سے اوپر اٹھ کر ملک کی اجتماعی بھلائی کو مقدم رکھتے ہیں یا پھر ہم اسی چکر میں مزید معاشی تنزلی اور سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھتے جائیں۔







