سپریم کورٹ کی جانب سے معروف انسانی حقوق کارکن ایمان زینب مزاری اور ان کے شوہر ہادی علی چٹھہ کے خلاف جاری ٹرائل کو اس وقت تک روک دینے کا فیصلہ، جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ ان کی اپیلوں کا حتمی فیصلہ نہیں کر لیتی، ایک ایسے ماحول میں سامنے آیا ہے جہاں اختلافِ رائے کو جرم اور تنقید کو دشمنی میں بدل دینے کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ یہ فیصلہ بظاہر ایک عارضی ریلیف ہے، لیکن اپنے اندر پاکستان میں شہری آزادیوں، اظہار کی آزادی اور ریاستی طاقت کے استعمال پر کئی بنیادی سوالات لیے ہوئے ہے۔عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے یہ حکم اُس وقت جاری کیا جب ایمان مزاری اور ان کے شوہر نے اپیل دائر کی کہ ان کے خلاف جاری ٹرائل میں فوجداری ضابطہ کار کی بنیادی دفعات — خصوصاً ملزم کی موجودگی میں شہادت ریکارڈ کرنے — کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ٹرائل کورٹ میں ثبوت ان کی غیر موجودگی میں قلم بند کیے گئے، جو کسی بھی منصفانہ عدالتی عمل کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ وہ نقطہ ہے جو محض ایک مقدمے کا نہیں بلکہ عدالتی ڈھانچے اور ریاستی اداروں کے طرزِ عمل کا آئینہ دار ہے۔عدالت نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ دونوں فریقوں کو برابر کا موقع دے کر اس معاملے کا فیصلہ کرے گی۔ یہ جملہ اپنی سادگی میں بہت کچھ کہہ جاتا ہے۔ اگر کسی ہائی کورٹ کو یہ یاد دلانے کی ضرورت پڑ جائے کہ ’’مکمل سماعت‘‘ انصاف کا بنیادی تقاضا ہے، تو یہ اس گہرے بحران کی علامت ہے جو ہمارے عدالتی نظام میں پنپ چکا ہے۔مقدمے کا پس منظر بھی قابلِ غور ہے۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں دائر کی گئی شکایت میں کہا گیا کہ ایمان مزاری نے ’’ایسے بیانیے‘‘ کو فروغ دیا ہے جو ’’دشمن تنظیموں‘‘ کے مقاصد سے مماثلت رکھتا ہے، اور ان کے شوہر نے ان پوسٹس کو ری شیئر کیا۔ یہ الزامات ان مبہم دفعات کا مظہر ہیں جو اختلافِ رائے کو ریاست دشمنی، تنقید کو تخریب کاری، اور جمہوری آواز کو ’’خطرہ‘‘ بنا کر پیش کرتی ہیں۔ وطن دوستی اور غداری کے درمیان لکیریں اس طرح کھینچ دی جاتی ہیں کہ ہر وہ شہری جو ریاستی طاقت کے بے جا استعمال کو چیلنج کرے، کسی نہ کسی ’’سیکیورٹی‘‘ شق کے نیچے آ جاتا ہے۔یہ ستم ظریفی بھی قابلِ توجہ ہے کہ مقدمے کی سماعت میں ناروے کے سفیر کی موجودگی کو سوشل میڈیا پر ’’سفارتی مداخلت‘‘ بنا کر پیش کیا گیا، حالانکہ عدالتوں میں سفارت کاروں کا موجود رہنا ایک معمول کی عالمی روایت ہے۔ ایمان مزاری نے بجا طور پر کہا کہ اسے ’’مداخلت‘‘ کہنا جہالت ہے۔ اصل مسئلہ شاید یہ تھا کہ اس مقدمے کی بین الاقوامی نگرانی سے کچھ حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔یہ پورا معاملہ پاکستان میں شہری آزادیوں کی سکڑتی ہوئی فضا کا حصہ ہے۔ اختلافِ رائے کو ’’قومی سلامتی‘‘ کے ترازو میں تولنے کی روش اب نئی نہیں، لیکن اس کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی جدوجہد، جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز، اور ریاستی اداروں کے اندر احتساب کے مطالبات کو مسلسل شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آئینِ پاکستان خود شہریوں کو اظہار کی آزادی، تنقید کرنے کا حق، اور ریاستی اہلکاروں کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف شکایت کا حق دیتا ہے۔ مگر جب یہی حقوق استعمال ہوں تو بعض ریاستی ادارے انہیں ’’حملہ‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔سپریم کورٹ کا یہ اقدام کم از کم اتنا ضرور ظاہر کرتا ہے کہ ادنیٰ سطح پر ہونے والی زیادتیوں کو اعلیٰ عدالتیں نوٹس لے رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کے فیصلے کسی بڑے رجحان کو روک سکتے ہیں؟ کیا وہ ماحول بدل سکتے ہیں جس میں انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، طلبہ اور سیاسی کارکنوں کو پی سی اے، سائبر کرائم قوانین اور پبلک آرڈر جیسے قوانین میں لپیٹ کر خاموش کروایا جاتا ہے؟مقدمے کے بنیادی سوالات — ثبوت، نیت، جرم اور بیانیہ — ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ لیکن ایک بات انتہائی واضح ہے: ریاست اور اس کے اداروں کا یہ طرزِ عمل کہ ’’جو بات ناگوار لگے وہ بغاوت ہے‘‘ جمہوری معاشرے کی بنیادی روح سے متصادم ہے۔ انسانی حقوق کارکنان کو نشانہ بنانا نہ تو امن قائم کرتا ہے اور نہ ریاست کو مضبوط۔ یہ صرف خوف پھیلاتا ہے، عدم اعتماد پیدا کرتا ہے اور اداروں کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے۔اسی لیے سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اگرچہ ایک عارضی روک ہے، لیکن اس کی معنویت بڑی ہے۔ یہ اس اصول کی یاد دہانی ہے کہ ٹرائل کا مقصد سزا نہیں بلکہ انصاف ہے۔ اگر انصاف ہی مشکوک ہو جائے تو سارا نظام بے معنی ہو جاتا ہے۔ایمان مزاری کے مقدمے نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان کب تک اختلافِ رائے کو دشمنی اور انسانی حقوق کی جدوجہد کو بغاوت سمجھتا رہے گا؟ کب تک قانون کو طاقتوروں کے سائے میں استعمال کیا جاتا رہے گا؟ کب تک عدالتی عمل کو جلد بازی، دباؤ اور خفیہ کارروائیوں سے مشروط رکھا جائے گا؟پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں شہری آزادیوں کی حفاظت صرف عدالتوں کے فیصلوں پر نہیں بلکہ پورے ریاستی ڈھانچے کے رویّے میں تبدیلی سے ممکن ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس سمت ایک اہم قدم ضرور ہے، مگر اصل انصاف تب ہوگا جب انسانی حقوق، اختلافِ رائے اور تنقید کو ’’جرم‘‘ سمجھنے کی سرکاری روش ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو جائے — ورنہ ٹرائل تو رک جائیں گے، مگر خوف کی زنجیریں نہیں ٹوٹیں گی۔







