کیا ایک سزا پرانے روگ کا علاج بن سکتی ہے؟پاکستان کی سیاسی و عسکری تاریخ میں ایک سابق جاسوسی سربراہ کو فوجی عدالت سے چودہ برس قیدِ سخت کی سزا سنایا جانا بلاشبہ غیر معمولی واقعہ ہے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف فوجی عدالت کا فیصلہ پہلی نظر میں ایک بڑی پیش رفت دکھائی دیتا ہے، لیکن اس فیصلے کی معنویت کو سمجھنے کے لیے محض سزا کے اعلان پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ نہیں کہ ایک طاقتور جنرل کو سزا ملی — سوال یہ ہے کہ یہ سزا کس نظام، کس پس منظر اور کس سیاسی انجینئرنگ کے تناظر میں سامنے آئی، اور کیا یہ سزا اس ادارہ جاتی ڈھانچے کی اصلاح کا باعث بن سکے گی جس نے کئی دہائیوں سے پاکستان کی سیاست، معیشت اور انصاف کے پورے نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف چار سنگین الزامات ثابت ہوئے: سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، ریاست کے مفاد کے خلاف سرکاری رازوں کی خلاف ورزی، اختیارات کا ناجائز استعمال اور دوسروں کو مالی نقصان پہنچانا۔ ان الزامات میں سے ہر ایک پاکستان کی تاریخ کے ان تاریک ابواب کی یاد دلاتا ہے جن میں طاقتور جرنیل سیاست، عدلیہ، میڈیا اور کاروباری حلقوں کو اپنی مرضی کے مطابق موڑتے رہے، حکمران بناتے اور گراتے رہے، سیاسی جماعتوں کی ساخت تبدیل کرتے رہے، اور ریاستی اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے۔ اس فیصلے کو محض ایک فرد کے خلاف کارروائی سمجھنا غلط ہوگا — یہ طویل عرصے سے جاری اس غیر علانیہ جنگ کا حصہ ہے جس میں ریاست کے اندر موجود مختلف طاقتیں اثر و نفوذ کے توازن کو نئے سرے سے ترتیب دے رہی ہیں۔یہ بات درست ہے کہ فیض حمید پر مقدمے کا آغاز ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کے الزامات سے ہوا، لیکن جلد ہی یہ معاملہ محض زمین یا پیسے کے جھگڑے سے کہیں آگے بڑھ گیا۔ ان پر جو الزامات لگے، وہ دراصل اس سیاسی منصوبہ بندی اور انجینئرنگ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا اعتراف کئی صحافی، سیاست دان اور خود سابق فوجی افسر کر چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جوڑ توڑ، عدالتی فیصلوں کی تشکیل، میڈیا پر دباؤ، اور مخصوص بیانیوں کو توانائی فراہم کرنا — یہ سب الزامات برسوں سے طاقت کے ان حلقوں پر لگتے رہے ہیں مگر کبھی کسی پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ اس پس منظر میں یہ سزا ‘‘نظریاتی تبدیلی’’ سے زیادہ ‘‘طاقت کے اندرونی تصادم’’ کا اظہار محسوس ہوتی ہے۔حکومتی وزراء اس فیصلے کو ‘‘تاریخی’’ قرار دے رہے ہیں، اسے ‘‘خود احتسابی’’ کا مظاہرہ بتا رہے ہیں، اور اسے اداروں کی تطہیر کی طرف قدم کہہ رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے: خود احتسابی کب مکمل سمجھی جائے گی؟ کیا صرف ایک فرد کی سزا کافی ہے جبکہ انہی پالیسیوں، انہی حکمت عملیوں اور اسی سیاسی انجینئرنگ سے فائدہ اٹھانے والے سینکڑوں سیاسی رہنما، سرکاری افسر، جج اور کاروباری حلقے آج بھی سیاست کے سب سے طاقتور کردار ہیں؟ اگر فیض حمید ‘‘حد سے گزرنے’’ کے باعث آج کٹہرے میں کھڑے ہیں تو وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ان ’’حدود‘‘ کو قائم رکھا، جنہوں نے انہیں سیاسی کردار دیا اور جنہوں نے پورے نظام کو ان کی سرگرمیوں کے لیے نرم اور استقبال پذیر بنایا؟اس فیصلے کے سیاسی مضمرات بھی بے حد اہم ہیں، خصوصاً اس لیے کہ فوجی ترجمان نے یہ واضح کیا ہے کہ سیاسی معاملات میں ان کی مداخلت سے متعلق الزامات ‘‘الگ سے دیکھے جا رہے ہیں’’۔ اس بیان سے کئی سوال جنم لیتے ہیں۔ کیا یہ مقدمہ مستقبل میں کسی بڑے سیاسی کیس کے لیے استعمال ہوگا؟ کیا یہ کسی بڑی سیاسی قیادت کے خلاف کارروائی کی بنیاد بن سکتا ہے؟ کیا اس مقدمے کو سیاسی صفائی کے نئے دور کی شروعات سمجھا جائے یا یہ محض طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک علامتی کارروائی ہے؟پاکستان کے کئی صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلے کو مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف کارروائی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ خدشات بلا سبب نہیں، کیونکہ پاکستان کی تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہے کہ جہاں طاقت کے مراکز نے سیاسی انحرافات کو ’’قانونی کارروائی‘‘ کی آڑ میں دبانے کی کوشش کی۔ اگر اس فیصلے کو ایک سیاسی منصوبے کا تسلسل سمجھا گیا تو یہ اقدام نہ صرف شفافیت کو مزید داغ دار کرے گا بلکہ اس ‘‘خود احتسابی’’ کے پورے عمل پر سوالیہ نشان بھی چھوڑ جائے گا۔ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی طاقتور جاسوسی ادارے کے سربراہ کو سزا سنائی گئی ہے، مگر اس سے وہ بنیادی سوال حل نہیں ہوتا جو قوم برسوں سے پوچھ رہی ہے: کیا پاکستان اس سیاسی و عسکری سرچشمے کو بدلنے میں سنجیدہ ہے جہاں فردِ واحد کے فیصلے پورے ملک کی سیاست کو تہ و بالا کر دیتے ہیں؟ جب تک پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں حقیقی جمہوری شفافیت، پارلیمانی نگرانی، عدالتی آزادی اور طاقت کے اداروں کی آئینی پابندی کو یقینی نہیں بنایا جاتا، ایک یا دو سزائیں محض ’’استثنائی واقعات‘‘ کے طور پر رہ جائیں گی۔ نظام وہی رہے گا، لوگ بدل جائیں گے۔اس فیصلے کو ایک مثبت قدم سمجھنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اسے اصلاح کا نقطہ آغاز تب ہی کہا جا سکتا ہے جب اس کے نتیجے میں —طاقتوروں کی مروجہ سیاسی انجینئرنگ کا مستقل خاتمہ کیا جائے،پارلیمان کو اصل قانون ساز اختیار واپس لوٹایا جائے،عدلیہ کو سیاسی دباؤ سے آزاد کیا جائےاور عسکری اداروں کو آئین کی حدود میں رہنے کے لیے ایک واضح اور ناقابلِ تنسیخ پالیسی ترتیب دی جائے۔ورنہ یہ سزا بھی پاکستان کی تاریخ کے ان فیصلوں میں شامل ہو جائے گی جنہیں وقتی طور پر تو بہت سراہا گیا لیکن انہوں نے بنیادی ڈھانچے کو چھوا تک نہیں۔ اگر ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو سزا ہو سکتی ہے تو یہ ایک علامت ضرور ہےمگر علامت کو حقیقت میں بدلنے کے لیے پورے نظام کی تطہیر ضروری ہے — اور یہی وہ چیلنج ہے جس سے پاکستان ابھی تک نظریں چراتا رہا ہے۔یہ سزا تاریخ کا ایک موڑ ہو سکتی ہے، مگر تبھی جب اسے ادارہ جاتی اصلاحات کی آغاز گاہ سمجھا جائے، نہ کہ طاقت کے کھیل میں محض ایک اور ’’قربانی‘‘ کا نام۔







