اسلام آباد(بیورورپورٹ)ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) کی جانب سے منگل کو جاری کی گئی سالانہ سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں پولیس کو حکومت کے سب سے زیادہ بدعنوان شعبے کے طور پر تصور کیا جاتا ہے، اس کے بعد ٹینڈر اور پروکیورمنٹ سیکٹر اور پھر عدلیہ کا نمبر آتا ہے۔ٹی آئی کی پریس ریلیز کے مطابق نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے کا مقصد عوام کی حکومت کے اہم امور پر رائے جانچنا ہے۔اس سال کے سروے سے پتہ چلا کہ 4 ہزار افراد میں سے 24 فیصد (ہر صوبے سے ایک ہزار افراد) نے پولیس کو سب سے زیادہ بدعنوان شعبہ قرار دیا، پنجاب میں بدعنوانی کے سب سے زیادہ تاثرات 34 فیصد، بلوچستان میں 22 فیصد، سندھ میں 21 فیصد اور خیبر پختونخوا میں 20 فیصد ریکارڈ کیے گئے۔یہ شعبہ پچھلے سرویز میں بھی مسلسل سب سے زیادہ بدعنوان قرار دیا گیا ہے۔تاہم تازہ سروے کے نتائج میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ 2023 کے مقابلے میں عوام کی پولیس کے بارے میں رائے میں نمایاں بہتری آئی ہے۔پولیس کے بعد سب سے زیادہ بدعنوان شعبہ ٹینڈر اور پروکیورمنٹ سیکٹر تھا، جسے 16 فیصد نے بدعنوان تصور کیا، بدعنوانی کا سب سے زیادہ تصور بلوچستان میں 23 فیصد، خیبرپختونخوا میں 18 فیصد، سندھ میں 14 فیصد اور پنجاب میں 9 فیصد تھا۔عدلیہ کو تیسرے نمبر پر بدعنوان شعبے کے طور پر 14 فیصد نے قرار دیا جس میں سب سے زیادہ خیبرپختونخوا میں 18 فیصد تھا۔پریس ریلیز کے مطابق زیادہ تر شہری یعنی تقریباً 66 فیصد نے کہا کہ وہ 2025 میں کسی سرکاری افسر کو رشوت دینے پر مجبور محسوس نہیں کرتے۔تاہم سروے میں یہ بھی ظاہر ہوا کہ تقریباً 77 فیصد نے حکومت کی بدعنوانی کے خلاف کوششوں سے ’کم اطمینان‘ ظاہر کیا۔عوامی خدمات تک رسائی کے سلسلے میں سب سے زیادہ رشوت سندھ میں ریکارڈ کی گئی، جہاں 46 فیصد نے رشوت دینے پر مجبور محسوس کیا، پنجاب میں یہ تعداد 39 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 20 فیصد تھی۔مزید برآں 59 فیصد نے یہ تسلیم کہ صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ بدعنوان ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ رائے پنجاب میں 70 فیصد، بلوچستان میں 58 فیصد، کے پی میں 55 فیصد اور سندھ میں 54 فیصد کے درمیان مشترک ہے۔نتائج سے پتہ چلا کہ احتساب، شفافیت کی کمی، معلومات تک محدود رسائی اور بدعنوانی کے کیسز کی کارروائی میں تاخیر ملک میں بدعنوانی کے ’اہم اسباب‘ ہیں۔پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ملک گیر طور پر 78 فیصد افراد یہ سمجھتے ہیں کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) جیسے اینٹی کرپشن اداروں کا احتساب ہونا چاہیے، جو عوام کی طرف سے ان اداروں میں زیادہ نگرانی اور دیانتداری کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔عوام نے احتساب کے لیے درج ذیل وجوہات بیان کیں۔تحقیقات میں شفافیت کی کمی (35 فیصد)، اینٹی کرپشن اداروں کی آزاد نگرانی کا فقدان (33 فیصد)، اور اینٹی کرپشن اداروں کے اختیارات کا سیاسی مقاصد کے لیے غلط استعمال (32 فیصد)۔سروے میں بدعنوانی کم کرنے کے لیے 3 اہم اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔عوام نے ہسپتالوں، ڈاکٹروں اور فارماسوٹیکل کمپنیوں کو اس شعبے میں بدعنوانی کے اہم مراکز قرار دیا۔انہوں نے فارماسوٹیکل کمپنیوں کی ڈاکٹروں کو کمیشن دینے پر سخت پالیسی اور پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی کو موثر اقدامات کے طور پر تجویز کیا۔عوام نے صحت کے شعبے میں سخت ریگولیٹری میکانزم کی بھی ضرورت پر زور دیا۔سروے کے مطابق، 51 فیصد نے یہ بھی مانا کہ این جی اوز، ہسپتال، ٹرسٹ، میڈیکل ٹیسٹنگ لیبارٹریز، تعلیمی ادارے اور دیگر خیراتی ادارے جو ایف بی آر سے ٹیکس کی چھوٹ حاصل کرتے ہیں، عوام سے کوئی فیس نہ لیں۔ملک گیر طور پر 53 فیصد افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکس سے مستثنیٰ خیراتی اداروں کو اپنے ڈونرز کے نام اور چندے کی رقم اپنی ویب سائٹ پر شائع کرنی چاہیے۔







