رشوت، تحائف، غیر ملکی ادویات، ڈاکٹرز فارما کمپنیوں کے غلام، مہنگی ادویات تجویز پر مریضوں کی جیبیں خالی

ملتان (سہیل چوہدری سے) پاکستان میں ایکٹ پاس ہونے کے باوجود ڈاکٹر میڈیسن کمپنیوں کے مالکان سے کروڑوں روپے کے تحائف اور بیرون ممالک ٹور کے لالچ میں آکر ان کمپنیوں کی مہنگی ادویات مریضوں کو لکھ کر دے رہے ہیں جبکہ دوائیوں کے نام لکھنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور خلاف ورزی کرنے والے ڈاکٹروں کو دس سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانے کا قانون پاس کیا گیا تھا سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں ایکٹ پاس کیا گیا تھا کہ ڈاکٹروں کو ادویات کے برانڈ نام لکھنے سے روکا تھا، مگر آج بھی یہ ہدایات کاغذوں تک محدود ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) کی جانب سے 2021 میں جاری کردہ یہ حکم نامہ ڈاکٹروں کو صرف جینرک فارمولا (generic formula) لکھنے کا پابند کرتا ہے، تاکہ مریضوں کو سستی ادویات دستیاب ہوں۔ تاہم میڈیسن مافیا کی مضبوط گرفت کی وجہ سے اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا ہے جہاں فارما کمپنیاں ڈاکٹروں کو کروڑوں روپے کے تحائف، غیر ملکی دورے اور دیگر مراعات دے کر مہنگی برانڈڈ ادویات تجویز کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔DRAP 2021 کی ہدایات کے مطابق، ڈاکٹروں کو ادویات کے برانڈ نام لکھنے کی بجائے صرف جینرک نام استعمال کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کا مقصد ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا اور مریضوں سستی ادویات فراہم کرنا تھا۔ 2025 میں DRAP اس معاملے پر دوبارہ غور کر رہا ہے کہ آیا اسے قانونی طور پر لازمی بنایا جائےاس کے باوجود، ملک بھر میں ڈاکٹروں اور فارما کمپنیوں کے درمیان انسینٹو پر مبنی معاہدے عام ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، پاکستان میں ڈاکٹروں کا فارما کمپنیوں سے رشوت لینا ایک معمول کی بات ہے، جو تحائف، غیر ملکی دوروں اور مالی مراعات کی صورت میں دی جاتی ہیں۔ یہ رشوت ڈاکٹروں کو مہنگی برانڈڈ ادویات تجویز کرنے پر اکساتی ہیں، جس سے مریضوں پر مالی بوجھ بڑھتا ہے۔ ایک مطالعہ میں بتایا گیا کہ ایسی رشوتوں کو روکنے کے لیے تعلیمی اقدامات بھی ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔نشتر ہسپتال ملتان، جو جنوبی پنجاب کا ایک بڑا طبی مرکز ہے، بھی اس طرح کے الزامات کا شکار رہا ہے۔ ماضی میں ہسپتال کی انتظامیہ پر ادویات کی خریداری میں کروڑوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگے ہیں، جن میں ادویات کی مقدار میں ہیر پھیر اور جعلی ادویات کی فروخت شامل تھی۔ 2017 اور 2018 میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور دیگر افسران کے خلاف مقدمات درج کیے تھے، جن میں ادویات کی خریداری میں غبن کا انکشاف ہوا۔ حالانکہ یہ کیسز براہ راست ڈاکٹروں اور فارما کمپنیوں کے درمیان تحائف سے متعلق نہیں مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نظام کی مجموعی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں فارما کمپنیاں اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنی مہنگی ادویات کو ترجیح دلواتی ہیں۔فارما انڈسٹری کے ایک سابق افسر نے بتایا کہ “میڈیسن مافیا اتنا طاقتور ہے کہ وہ قوانین کی عملداری روک دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کو یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک کے دورے کرائے جاتے ہیں، تحائف دیے جاتے ہیں اور بدلے میں وہ کمپنی کی ادویات تجویز کرتے ہیں۔حکومت پاکستان کو اس معاملے پر سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ DRAP اور وزارت صحت کو چاہیے کہ جینرک تجویز کو لازمی بنانے کے لیے قوانین میں ترمیم کریں اور کرپشن کے خلاف موثر نگرانی کا نظام قائم کریں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے نہ صرف مریضوں کو فائدہ ہوگا بلکہ صحت کے شعبے میں شفافیت بھی بڑھے گی۔ تاہم، اب تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں