ملتان (وقائع نگار) نشتر ہسپتال ون کی ریڈیالوجی اور لیبارٹری ’جدید سہولیات کے دعووں کے باوجود مریض بنیادی ٹیسٹوں کیلئے خوار ہونے لگے نشتر ہسپتال کی انتظامیہ اور محکمہ صحت پنجاب کی جانب سے مسلسل یہ دعوے کئے جاتے رہے ہیں کہ ہسپتال کے ریڈیالوجی اور لیبارٹری شعبے جدید ترین مشینوں، مکمل فعال نظام اور ہر طرح کے تشخیصی ٹیسٹ کی سہولت سے آراستہ ہیں۔ سرکاری بیانات کے مطابق یہاں سی ٹی اسکین، ایم آر آئی، الٹراساؤنڈ، ایکسرے، فلوروسکوپی، اور جدید خون و بائیو کیمیکل ٹیسٹ باقاعدگی سے انجام دیے جا رہے ہیں۔تاہم زمینی حقیقت ان دعووں سے مختلف منظر پیش کرتی ہے۔ذرائع کے مطابق گزشتہ دس دنوں سے آرتھوپیڈک وارڈ میں زیر علاج ایک غریب مریضہ کو متعدد ایسے ٹیسٹ لکھ کر دیے گئے جن میں سے کئی نشتر ہسپتال ون میں کیے ہی نہیں جا سکتے۔ مریضہ کے لواحقین پہلے ہی معاشی طور پر کمزور تھے، لیکن انہیں سرکاری اسپتال کے اندر ہی ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث نجی لیبارٹریوں کا رخ کرنا پڑا۔یہ صورتحال اس سنگین تضاد کو واضح کرتی ہے جو کاغذی دعووں اور عملی سہولیات کے درمیان موجود ہے۔ہسپتال کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم آر آئی مشین کبھی تکنیکی خرابی، کبھی ہیلیئم کی کمی اور کبھی آپریٹر نہ ہونے کے باعث اکثر بند رہتی ہے۔سی ٹی اسکین کا بیک لاگ کئی کئی دنوں تک برقرار رہتا ہے، جبکہ ایمرجنسی کیسز کو ترجیح دینے کے باعث عام مریض کے ٹیسٹ کا وقت مسلسل آگے بڑھتا رہتا ہے۔ریڈیالوجی میں اسٹاف کی کمی کے باعث مقررہ اوقات کار میں بھی تمام مشینیں فعال نہیں ہوتیں۔بعض ضروری سرجیکل پری اوپ ٹیسٹ کی سہولت سرے سے دستیاب نہیں، جنہیں نجی لیبز کی طرف ریفر کرنا معمول بن چکا ہے۔ہسپتال میں جب کوئی بااثر یا پروٹوکول مریض پہنچے تو تمام ٹیسٹ تیزی سے ہونے لگتے ہیں، رپورٹس فوری جاری ہوتی ہیں اور آپریشن کا عمل باآسانی مکمل ہو جاتا ہے۔لیکن دوسری جانب غریب مریض دنوں تک صرف اس انتظار میں رہتے ہیں کہ ان کا ٹیسٹ کب ہوگا اور رپورٹ کب ملے گی۔نشتر ہسپتال ون کے آرتھوپیڈک وارڈز کے کئی ڈاکٹرز اس وقت نشتر 2 میں ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں، جس کے باعث دونوں جگہ عملے کی تقسیم نے علاج کے عمل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔نشتر 2 کو ایک مکمل، الگ ہسپتال کے طور پر چلانے کا منصوبہ تھا، لیکن جزوی عملدرآمد نے نہ اسے مکمل فعال ادارہ بننے دیا نہ نشتر ون کو مستحکم رہنے دیا۔شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر قانون سازی کر کے یہ یقینی بنا دیا جائے کہ تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز سمیت ان کے اہل خانہ کا علاج انہی سرکاری ہسپتالوں میں ہوگا، تبھی اسپتالوں کی حالت ٹھیک ہو سکتی ہے۔عوام کو یقین ہے کہ اگر منتخب نمائندوں کے لیے یہی سہولیات لازمی قرار دے دی جائیں تو صرف چھ ماہ میں ہی سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی میں حیران کن بہتری دیکھنے کو ملے گی۔







