صادق پبلک سکول، فیسوں میں 150 فیصد اضافہ، 6 لاکھ روپے تک پہنچ گئی، معاملہ سنگین

بہاولپور (سپیشل رپورٹر ) بہاولپور صادق پبلک سکول میں فیسوں میں غیر معمولی اضافے پر شدید تنازع، والدین اور انتظامیہ آمنے سامنے بہاولپور کے معروف تعلیمی ادارے صادق پبلک سکول میں فیسوں میں 100 سے 150 فیصد تک اضافے کا معاملہ سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے، جہاں نہ صرف والدین بلکہ عدالت بھی مسلسل اس مسئلے کا جائزہ لے رہی ہے۔ اس وقت عدالت میں دو مختلف فریقوں کی تین پٹیشنز دائر ہیں، جن میں سے ایک پٹیشن توہینِ عدالت کی بھی ہے ۔سکول کی حیثیت سرکاری اور نجی اداروں سے مختلف ہے کیونکہ یہ ایک سیمی گورنمنٹ ادارہ ہے جس کے تمام فیصلے 24 رکنی بورڈ آف گورنرز کرتا ہے۔ اس بورڈ میں گورنر پنجاب، کمشنر بہاولپور، سی ای او ایجوکیشن، اسکول پرنسپل اور عسکری نمائندگان شامل ہیں والدین کے مطابق سابق گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کے دستخط شدہ نوٹیفکیشن کے بعد سکول نے اچانک فیسوں میں غیر معمولی اضافہ کیا، جس سے تمام والدین پر شدید مالی دباؤ پڑا۔ مثال کے طور پر جس بچے کی فیس 70 ہزار روپے تھی وہ بڑھا کر 1 لاکھ 48 ہزار روپے کر دی گئی۔ نرسری اور پریپ کے کئی بچوں کے والدین کو 3 لاکھ روپے تک فیس جمع کرانے کے نوٹس موصول ہوئےجبکہ کچھ والدین کو 5 سے 6 لاکھ روپے تک کی طلبی کی گئی۔ والدین کا مؤقف ہے کہ دنیا بھر میں فیسوں میں اضافہ ایک مخصوص شرح کے مطابق ہوتا ہے، مگر یہاں 100 سے 150 فیصد تک اضافہ یکایک کر دیا گیا، جس کی کوئی واضح قانونی بنیاد موجود نہیں۔ والدین نے الزام لگایا ہے کہ سکول کی آڈٹ رپورٹ، بھرتیوں کا طریقہ کار اور مالی معاملات بالکل غیر شفاف ہیں۔ متعدد اہم عہدوں پر بھاری تنخواہوں پر تعیناتیاں کی گئی ہیں جن کی کارکردگی اور میرٹ پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ والدین کے مطابق 10 لاکھ روپے ماہانہ پر برسر کی بھرتی اور 30 سے 33 لاکھ روپے ماہانہ پر تعینات سابق پرنسپل کی تنخواہ نے بھی معاملے کو مزید متنازع بنا دیا ہے۔ اسی دوران والدین کے مختلف گروپس میں شدید اختلافات بھی سامنے آئے ہیں۔ ایک گروہ کی قیادت کرنے والا ایک والد سیاسی شخصیت کا بھانجا تھا، جسے مبینہ طور پر 30 لاکھ روپے کے اینڈرائیڈ ایپ کے ٹھیکے کے بعد سکول سے چُھڑوا دیا گیا۔ جبکہ موجودہ متحرک گروپ کے بعض افراد پر بھی ذاتی مفادات کے لیے مختلف فیصلے کرنے کے الزامات سامنے آئے ہیں، جن میں انتظامیہ سے 23 فیصد سالانہ فیس بڑھانے کا مبینہ معاہدہ بھی شامل ہے عدالت نے معاملے پر سکول انتظامیہ کو والدین کے ساتھ ایک باضابطہ میٹنگ کرنے کا حکم دیا تھا، مگر متعدد والدین کا کہنا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر اس میٹنگ سے باہر رکھا گیا، جس پر توہینِ عدالت کی ایک پٹیشن بھی دائر کر دی گئی ہے اس وقت تین فریقین عدالت میں موجود ہیں ایک گروپ جو انتظامیہ سے معاہدے کا دعویٰ کر رہا ہے دوسرا گروپ جو مکمل طور پر فیس بڑھانے کی مخالفت کر رہا ہے اور والدین کا ایک نمائندہ جس کا مؤقف ہے کہ نہ 23 فیصد اور نہ 2.3 فیصد، فیس میں کسی قسم کا اضافہ قابل قبول نہیں۔ والدین کا کہنا ہے کہ فیس بڑھانے کے نوٹس نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ سکول کی جانب سے بچوں کو کلاسز سے نکال کر فیس جمع کرانے پر مجبور کرنا نفسیاتی دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال 3 دسمبر کو والدین نے احتجاج کیا تھا جس پر اسکول پرنسپل نے ڈولفن فورس سمیت ایس ڈی پی او سٹی اور تھانہ کینٹ کے ایس ایچ او کو والدین کی گرفتاری کے لیے بلوا لیا تھا۔ تاہم مذاکرات کے بعد پولیس نے فیصلہ کیا کہ والدین کو عزت کے ساتھ سُنا جائے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے 50 والدین کی جانب سے دائر پٹیشن کی سماعت 11 دسمبر کو مقرر ہے، جس کے بعد امکان ہے کہ اس پیچیدہ تنازع پر کوئی اہم پیش رفت سامنے آئے گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں