ملتان (میاں غفار سے) پنجاب کے محکمہ خوراک کو ختم کرنے کے بعد صوبہ بھر کے کاشت کاروں سے ایک من بھی سرکاری گندم نہ خریدنے کا ذخیرہ اندوزوں اور بیوروکریسی کے مبینہ گٹھ جوڑ سے کیا جانے والا فیصلہ جہاں موجودہ سال میں لاکھوں کاشتکاروں کو کنگال کر گیا وہیں پر محض چھ ماہ میں چند گنے چنے ذخیرہ اندوزوں کو اربوں روپیہ منافع کی صورت میں دے گیا۔ یہ وہی خطیر رقم ہے جو صوبہ بھر کے گندم کے کاشت کاروں کو ان کی چھ ماہ کی دن رات محنت کے بعد ملنی تھی۔ بیوروکریسی، شوگر مافیا اور پنجاب کے بڑے بڑے ذخیرہ اندوزوں کے علاوہ ایل ڈی سی نامی ایک غیر ملکی کمپنی نے پنجاب بھر میں مجموعی طور پر 20 سے 25 لاکھ ٹن گندم 2000 روپے سے 2200 روپے فی من خرید کی جبکہ گندم کی سرکاری قیمت 3900 روپے فی من تھی۔ ذخیرہ اندوزوں اور بیوروکریسی کے اس گٹھ جوڑنے پہلے حکومت پنجاب کو ڈی ٹریک کرکے صوبہ بھر سے محکمہ خوراک کے ذریعے گندم نہ خریدنے کا مشورہ منوایا اور حکومت پنجاب نے ان کے جھانسے میں آ کر گندم نہ خریدنے کا اعلان کر دیا حتیٰ کہ محکمہ خوراک کو ہی ختم کر دیا تو ذخیرہ اندوز مافیا میدان میں اتر آیا جن میں سیڈ ملز کے مالکان، پاکستان کے منظم ترین شوگر مافیا سے وابستہ لوگ اور پرائیویٹ ذخیرہ اندوز رات گندم خریدنے میں جت گئے اور انہوں نے ملی بھگت کر کے گندم کا ریٹ گرانا شروع کر دیا۔ کاشت کار کی گندم کھلے آسمان تلے پڑی رہ رہ کر جب خراب ہونے لگی تو وہ اگلی کپاس کی فصل اگانے کے لیے ذخیرہ اندوزوں کی طے کردہ قیمت یعنی دو ہزار روپے سے 22 سوروپے فی من پر پرائیویٹ پارٹیوں کو اپنی گندم فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ بہاولپور کے علاقے ڈیرہ بکھاکےامتیاز نامی ایک ذخیرہ اندوز نے گندم کی بوریاںسٹاک کی جن کی مالیت ایک ارب روپیہ بنتی ہے اور چھ ماہ بعد ہی ایک ارب کے ساتھ ایک ارب روپیہ منافع کمایا جس پر کسی بھی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں کیونکہ مذکورہ شخص ایف بی آر میں سرے سے رجسٹرڈ ہی نہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں گندم کا ریٹ 4 ہزار روپے فی من تک پہنچ چکا ہے جبکہ اسلام آباد میں گندم 4200 روپے من فروخت ہو رہی ہے جبکہ پشاور میں چار ہزار چار سو روپے فی من فروخت ہو رہی ہے اور یہ وہی گندم ہے جو ذخیرہ اندازوں نے صوبہ بھر کے لاکھوں کاشتکاروں کا خون نچوڑ کر ان سے 22 سوروپے فی من کے حساب سے خرید کر تقریباً 125 سے 130 ارب روپے کی سرمایہ کاری اسی سال اپریل اور مئی میں کی تھی اور محض چھ ماہ بعد 50 سے 53 ہزار فی ٹن خریدی جانے والی گندم سٹاک کرنے کے بعد اب 100 فیصد زائد منافع پر فروخت کی جا رہی ہے اور اس طرح جو 100 سے 110 ارب روپیہ صوبے بھر کے کاشتکار کی جیبوں میں جانا تھا وہ چند ذخیرہ اندوز لے کر چلتے بنے اور حکومت پنجاب کو اس سازش کی سمجھ ہی نہ آ سکی کہ بیوروکریسی اور ذخیرہ اندوزوں کے اس گٹھ جوڑ نے صوبہ بھر کے کاشتکاروں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت پنجاب کی ساکھ پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ گندم سٹاک کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ایل ڈی سی میں ایک پاکستانی سیاسی خاندان بھی حصہ دار ہے۔







