ملتان (سٹاف رپورٹر) خواتین یونیورسٹی ملتان میں انتظامی اور تدریسی معاملات کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر شدید تنازع سامنے آگیا ہے۔ گورنر پنجاب/چانسلر کی جانب سے 27 نومبر 2025 کو جاری کردہ نوٹیفکیشن میں خواتین یونیورسٹی ملتان کی 25 مارچ کو منعقد ہونے والی 23 ویں اکیڈمک کونسل اور 3 اپریل کو منعقد کی گئی 43 ویں سینڈیکیٹ میٹنگ کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ گورنر نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ اجلاس قواعد و ضوابط کے خلاف اور مبینہ طور پر غلط بیانی کے ذریعے بلائے گئے تھے۔ تاہم اس نوٹیفکیشن کے صرف آٹھ دن بعد ہی یونیورسٹی کی جانب سے وہی 23 ویں اکیڈمک کونسل دوبارہ منعقد کر دی گئی جس نے جامعہ کے اساتذہ، ملازمین اور تعلیمی حلقوں میں حیرت اور تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ یونیورسٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق یہ اجلاس مبینہ طور پر عارضی و غیر منظور شدہ وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی ہدایت پر بلایا گیا جبکہ اجلاس کے انعقاد میں ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی ایڈیشنل سیکرٹری زاہدہ اظہر کی مبینہ معاونت بھی شامل تھی۔ مزید برآں خواتین یونیورسٹی ملتان کے آفیشل فیس بک پیج پر جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ایڈیشنل سیکرٹری زاہدہ اظہر نے اجلاس کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ کی کارکردگی کی تعریف بھی کی۔ اس سرکاری پوسٹ نے معاملے کو مزید متنازع بنا دیا ہے، کیونکہ وہی میٹنگ نمبر 23 جسے گورنر پنجاب باضابطہ طور پر غیر قانونی قرار دے چکے ہیں، اسے دوبارہ منعقد کرنا متعدد قانونی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ جامعہ کے متعدد سینئر اساتذہ اور انتظامی ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ جب ایک اجلاس کو چانسلر/گورنر باضابطہ طور پر کالعدم قرار دے چکے ہوں تو کیا یونیورسٹی انتظامیہ اسے دوبارہ منعقد کرنے کی مجاز ہے؟ کیا ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے افسران آئینی پوزیشن کے واضح ہونے کے باوجود ایسی کارروائی کی منظوری دے سکتے ہیں؟ کیا یہ اقدام یونیورسٹی سینڈیکیٹ اور اکیڈمک کونسل کے قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ ذرائع کے مطابق وہ اکیڈمک کونسل میٹنگ جسے کالعدم قرار دیا گیا تھا، ابتدائی طور پر بھی مبینہ طور پر طریقہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلائی گئی تھی، جس پر ہی گورنر پنجاب نے اعتراض اٹھایا اور اسے’’دھوکہ دہی اور غلط بیانی پر مبنی اجلاس‘‘ قرار دیا تھا۔ اس پورے معاملے میں ایڈیشنل سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن پنجاب زاہدہ اظہر کا کردار بھی زیرِ بحث ہے۔ جب اس سلسلے میں ان سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے میٹنگ کے آغاز میں ہی ڈاکٹر کلثوم پراچہ کو کہہ دیا تھا کہ آپ کو ایسی کیا ایمرجنسی ہے ۔ ریگولر وائس چانسلر آنے والی ہیں۔ وہ خود دیکھ لیں گی۔ پھر آئٹم نمبر 19 جس میں سپورٹس سائنس اور فزیکل ایجوکیشن کا نیا شعبہ اور بی ایس ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن ڈگری پروگرام قائم کرنے کا ایجنڈا تھا پر عارضی وائس چانسلر کو یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ آپ کے پاس ایکٹنگ چارج ہے۔ نئی وائس چانسلر کے انٹرویو منعقد کروائے جا چکے ہیں۔ آپ صرف روزانہ کے معاملات دیکھیں اور ایسے معاملات سے دور رہیں جن میں فنانس شامل ہو۔ ایڈیشنل سیکرٹری زاہدہ اظہر کی ہی ہدایات پر آئٹم نمبر 20 ڈبلیو یو ایم سپورٹس گائیڈ لائنز اور ڈبلیو یو ایم سپورٹس سکالرشپ پالیسی کی منظوری کی درخواست بھی واپس لے لی گئی کہ یہ ایجنڈا بھی مستقل وائس چانسلر دیکھیں گی۔ باقی روزمرہ کے ایجنڈا آئٹمز کو منظور کیا گیا۔ اسی اکیڈمک کونسل کی میٹنگ میں طالبات پر جعلی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے ایم فل اور پی ایچ ڈی تھیسز جمع کروانے کی فیسوں میں 300 سے 500 فیصد اضافہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ملی بھگت سے منظور کروا لیا اور ایم فل تھیسز جمع کروانے کی فیس 15000 سے بڑھا کر 55000 کر دی گئی تاکہ سپر وائزر کو 3000 کی جگہ 40000 روپے کی جائے۔ پی ایچ ڈی تھیسز کی فیس بھی 50000 سے بڑھا کر 150000 کر دی ہےجو کہ خواتین یونیورسٹی ملتان کے ایکٹ 2010 کے سیکشن 6 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جس کے مطابق 10فیصد سے زیادہ کوئی بھی فیس بڑھانے کے لیے چانسلر سے منظوری لینا ضروری ہے۔ جعلی پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ چونکہ خود پروفیسر ہیں اور اسلامیات کی بیشتر ایم فل اور پی ایچ ڈی طالبات کی سپر وائزر ہیں تو یہ ذاتی مفادات کی خاطر غریب طالبات پر ظلم کے پہاڑ ڈھاتے ہوئے فیسوں میں غیر قانونی اضافہ کر دیا۔ یاد رہے کہ جعلی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ 2 دن پہلے 108 لوگوں کے انکریمنٹس بھی غیر قانونی طور پر کاٹ چکی ہیں۔
تینتالیسویں اکیڈمک کونسل اور سنڈیکیٹ پر ایچ ای ڈی کواعتراضات،موجودہ وی سی نے شفافیت کیلئے دوبارہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا:ترجمان ویمن یونیورسٹی
ملتان (وقائع نگار) ویمن یونیورسٹی ملتان میں تعلیمی، تحقیقی اور ادارہ جاتی ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے، جہاں شفاف قیادت، میرٹ پر مبنی انتظامی نظام اور ادارہ جاتی اصلاحات کو بنیادی ترجیح دی جا رہی ہے۔ یونیورسٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پراپیگنڈا پھیلا کر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جسے یونیورسٹی ترجمان نے مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے وضاحت کی کہ یونیورسٹی کی 43 ویں اکیڈمک کونسل اور سنڈیکیٹ کے اجلاس سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فرخندہ منصور (مرحومہ) کی سربراہی میں باقاعدہ قانونی اور آئینی طریقہ کار کے تحت منعقد ہوئے تھے جن میں ایجنڈے کے مطابق فیصلے کئے گئے تھے، بعد ازاں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے ان فیصلوں پر کچھ تحفظات ظاہر کیے چنانچہ موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے انتظامی معاملات میں شفافیت، میرٹ اور ادارہ جاتی تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے سنڈیکیٹ کے آمدہ اجلاس میں ان کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یونیورسٹی ترجمان نے اس امر کی جانب توجہ دلائی کہ پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی قیادت میں یونیورسٹی نے تعلیمی معیار میں نمایاں بہتری حاصل کی ہے چنانچہ تحقیقی سرگرمیوں کا فروغ، طالبات کی قائدانہ و پیشہ ورانہ تربیت، اور قومی و بین الاقوامی کانفرنسز کا انعقاد اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اکیڈمیا اور صنعت کے درمیان مضبوط روابط قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور ادارے میں مالی شفافیت اور انتظامی نظم وائس چانسلر کی پہلی ترجیح ہے۔







