ملتان (سٹاف رپورٹر) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے حکم پر صوبہ بھر میں نوجوانوں کے لیے تباہ کن نشہ آئس فروخت کرنے والے بڑے بڑے ڈیلروں کے خلاف انتہائی کامیاب آپریشن جاری ہے اور محض 72 گھنٹوں میں صورتحال یہ ہے کہ صوبہ بھر میں2 درجن سے زائد آئس ڈیلر پولیس مقابلے میں مار دیئے گئے ہیں اور ان آئس ڈیلروں کے سب ایجنٹ منظر عام سے غائب ہو رہے ہیں۔ سب سے حیران کن طور پر آئس کی فروخت میں بہت ہی زیادہ کمی آ گئی ہے اور اس نشے کی لت میں مبتلا نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو یہ نشہ جو کہ باآسانی دستیاب تھا، اب باوجود کوشش بھی دستیاب نہیں ہو رہا۔ پنجاب کی تاریخ میں ملک امیر محمد خان گورنر مغربی پاکستان کے بعد گھنائونے جرائم کی بیخ کنی کے لحاظ سے مریم نواز شریف نہ صرف پنجاب کے سابق تمام وزرائے اعلیٰ بلکہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو مات دے گئی ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنی کمانڈ کو بھرپور انداز میں ثابت کیا ہے۔ آئس کا نشہ چونکہ دیگر نشہ آور اشیاء کی نسبت ایک سستا نشہ ہے اور باوجود اس آگاہی کے، کہ آئس کے نشے کا انجام آخر کار موت ہی ہوتا ہے، نوجوان نسل بہت تیزی سے اس لت میں مبتلا ہو رہی تھی حتیٰ کہ طالبات اور گھریلو خواتین میں بھی یہ پھیل رہا تھا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پنجاب کی انتظامیہ سے ایک اعلیٰ سطی میٹنگ میں اس کو کنٹرول کرنے کا حکم دیا اور آئی جی پنجاب سے بھی پوچھا کہ اس کے وہ اس حوالے سے کیا اقدامات کر سکتے ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ پولیس کسی حد تک کنٹرول تو کر رہی ہے اور مزید سختی کر لیتے ہیں مگر مصدقہ ذرائع کے مطابق اسی میٹنگ میں موجود سی سی ڈی اور اینٹی کرپشن کے سربراہ سہیل ظفر چٹھہ نے پیشکش کی کہ اگر انہیں موقع دیا جائے تو وہ محض 72 گھنٹوں میں پنجاب بھر سے آئس کے تمام بڑے ڈیلروں کا خاتمہ کر دیں گے۔ سہیل ظفر چٹھہ کے اس دعوے کے بعد آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور خاموش ہو گئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے فوری طور پر سہیل ظفر چٹھہ کو یہ ٹاسک دیتے ہوئے فوری آپریشن کا حکم دے دیا جس پر پہلے ہی روز پنجاب بھر سے 15 بڑے آئس ڈیلر جو بہت بڑے پیمانے پر آئس کی خرید و فروخت اور سپلائی کا منظم نیٹ ورک چلا رہے تھے، انہیں پولیس مقابلوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، غیر مصدقہ معلومات کے مطابق اب تک صوبہ بھر میں 20 سے زائد آئس ڈیلر موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور بہت سے پنجاب سے اپنا نیٹ ورک بند کر کے فرار ہو چکے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے ہیڈ کوارٹر ملتان کے تعلیمی ادارے بعض مخصوص علاقے آئس کا نشہ کرنے والوں کا گڑھ بن چکے تھے مگر دو ہی دن میں حیران کن کنٹرول دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آئس کے بڑے بڑے ڈیلروں کے خلاف آپریشن اتنا منظم انداز میں شروع کیا گیا ہے کہ ان کے لیے کسی بھی قسم کی معافی کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی اور کوئی حلف نامہ یا کوئی معافی نامہ ان منشیات کو فروشوں کے حوالے سے قابل قبول نہیں۔ پنجاب کی تاریخ میں منشیات فروشی کے خلاف اتنا بڑا اور اتنا منظم آپریشن آج تک دیکھنے میں نہیں آیا اور یہ آپریشن ان مصدقہ معلومات کی روشنی میں کیا گیا تھا کہ پنجاب پولیس کے پاس صوبہ بھر کے تمام آئس ڈیلروں کے مکمل کوائف موجود ہیں مگر وہ پولیس کو ہر طرح کی خدمات کے عوض مکمل سہولت کاری لے کر یہ مکروہ دھندا چلاتے ہوئے نوجوان نسل کو موت کے منہ میں دھکیل رہے تھے۔ ملتان ہی کی ایک اور درجے کی فیملی کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے تین بچے مختلف یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور تینوں آئس کی لت میں مبتلا ہو چکے تھے حتیٰ کہ ان میں ایک بیٹی بھی شامل تھی۔ ذرائع کے مطابق حکومت پنجاب کے احکامات اتنے سخت ہیں کہ ان آئس ڈیلروں کی املاک پر بھی قبضہ کر کے انہیں نیلام کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ رہے بانسری۔ خانیوال کی تحصیل جہانیاں کا ایک گاؤں 57 چک کہلاتا ہے، منشیات فروشوں کا گڑھ ہے اور اس گاؤں کے منشیات فروشوں کو ہمیشہ خانیوال پولیس کی سرپرستی رہی ہے۔ دکھاوے کے لیے آپریشن ہوتے رہے مگر چند ہی دنوں بعد یہ مکروہ دھندہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے اور ان دنوں بھی لاہور ،کراچی کے قریب واقع اس بین الصوبائی روٹ پر 24 گھنٹے آئس کی سپلائی جاری رہتی ہے مگر ابھی تک سی سی ڈی خانیوال نے کسی قسم کا کوئی ایکشن نہیں لیا اور جہانیاں کے متعدد ذمہ دار ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سی سی ڈی ضلع خانیوال کی حد تک تو مکمل طور پر کمپرومائزڈ ہے۔ اسی لیے جنوبی پنجاب کے منشیات کی سپلائی کے اس سب سے بڑے گڑھ 57 چک کا ہر گھر آج کل آئس کا کھل کھلا کر دھندا کر رہا ہے۔ سی سی ڈی خانیوال کی مکمل چھتر چھایا انہیں میسر ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں ایک سابق ڈی پی او وہاڑی اور ایک سابق ڈی پی او خانیوال آر پی او آفس ملتان میں جاری ایک میٹنگ میں چک نمبر 57 میں آپریشن پر آپس میں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی کر چکے ہیں کیونکہ خانیوال پولیس تب بھی اس گاؤں کے منشیات فروشوں کو مکمل تحفظ دیتی تھی اور وہاڑی کے ڈی پی او الزام لگا رہے تھے کہ ضلع وہاڑی میں منشیات کی سپلائی اسی گاؤں سے ہوتی ہے لہٰذامجھے اجازت دی جائے کہ اپنے ضلع کی حدود سے باہر جا کر خانیوال کے چک نمبر 57 میں منشیات فروشوں کے ڈیرے گرا سکوں اور ان کا قلع قمع کر سکوں مگر انہیں اجازت نہیں ملی تھی۔







