دو حادثے، ایک معاشرہ — ہماری اجتماعی غفلت کا آئینہ

اسلام آباد کی دو الگ الگ خبریں — ایک جامعہ میں گیس لیکج سے دھماکا اور دوسری ایک تیز رفتار گاڑی کے نیچے آ کر دو محنت کش لڑکیوں کی المناک ہلاکت — بظاہر مختلف نوعیت کے واقعات ہیں، مگر دراصل یہ دونوں اس معاشرے کے گہرے، مسلسل اور خطرناک بیمار رُخ کی علامت ہیں۔ یہ دو خبریں ہمیں ایک ایسا آئینہ دکھاتی ہیں جس میں ہم اپنی اجتماعی غفلت، بے حسی، طبقاتی طاقت کے آگے قانون کی بے بسی اور ادارہ جاتی کمزوریوں کو صاف دیکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ فکریہ ہے جسے نظر انداز کرنا صرف مزید سانحات کو دعوت دینا ہے۔
پہلا واقعہ اسلام آباد کی ایک معتبر جامعہ نمل میں ہوا، جہاں ایک کمرے میں گیس لیکج اور برقی خرابی کے باعث دھماکا ہوا اور سات افراد جھلس کر زخمی ہوئے۔ یہ دھماکا محض ایک حادثہ نہیں تھا، بلکہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ ہمارے تعلیمی ادارے بنیادی سلامتی کے اصولوں پر بھی عمل نہیں کرتے۔ گیس کنکشن موسم کے مطابق بند اور کھولنے کی معمولی احتیاط بھی نہیں کی گئی۔ عمارت کی جانچ، حفاظتی معائنہ، گیس لائنوں کی صفائی — ان میں سے کچھ بھی منصوبہ بندی کے ساتھ نہیں کیا گیا۔ جب تک دھماکا نہیں ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہ لیا کہ ایک کمرہ گیس سے بھر چکا ہے اور چھوٹا سا شور بھی قیامت لا سکتا ہے۔
کیا ہماری جامعات علم کے مراکز ہیں یا لاپرواہی کے نمونے؟ درجنوں اداروں کے ہاسٹلوں اور کینٹینوں میں گیس لیکج معمول کی بات ہے، مگر اس کے باوجود نہ تربیت ہوتی ہے نہ تحقیقاتی رپورٹس جاری ہوتی ہیں۔ آگ لگنے، دھماکے ہونے یا اموات کے بعد چند دن شور اٹھتا ہے، پھر خاموشی چھا جاتی ہے — جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ نوجوان طلبہ و طالبات جن کے لیے یونیورسٹی ایک خواب ہوتی ہے، وہ یہاں صرف علم نہیں بلکہ ریاستی اور انتظامی نااہلی کا عملی تجربہ بھی سیکھتے ہیں۔
دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ دل دہلا دینے والا ہے۔ ایک اعلیٰ عدالت کے جج کے بیٹے کی تیز رفتار گاڑی دو نوجوان لڑکیوں کی زندگیوں کو اس وقت کچلتی ہوئی گزر گئی جب وہ اپنی ڈیوٹی سے گھر جا رہی تھیں۔ دونوں لڑکیاں فوراً دم توڑ گئیں۔ گاڑی بھاگ گئی، اور معمول کا طریقہ یہی ہے کہ ایک طاقتور خاندان کا فرد پہلے سیاست، پھر قانون اور آخر میں اثرورسوخ کے ذریعے خود کو بچانے کی کوشش کرے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں، نہ ہی آخری ہو گا۔ دو سال پہلے اسلام آباد ہی میں ایک اور جج کی بیٹی کے ہاتھوں دو افراد کی ہلاکت ہوئی تھی جس کا انجام وہی نکلا جو اس معاشرے میں طاقتور کے ہر جرم کا انجام ہوتا ہے — خاموشی، تاخیر، دباؤ اور پھر رہائی۔
سوال یہ ہے کہ آخر کیوں ہمارے نوجوان مر جاتے ہیں، مگر طاقتوروں کے بچے محفوظ رہتے ہیں؟ کیوں ہر سانحے کے فوراً بعد ایک نمونہ خیزی شروع ہو جاتی ہے: مقدمہ تو ہو جاتا ہے مگر انجام وہی رہتا ہے — مفاہمت، عدم ثبوت، رپورٹس میں تبدیلی، گواہوں کی خاموشی، اور آخر میں بریت؟ کیا قانون صرف کمزور کے دروازے پر پہنچتا ہے؟ کیا انصاف صرف غریب کی گردن میں پھندا ڈالنے کا نام ہے؟
ایک طرف نمل یونیورسٹی میں طالب علم جھلس رہے ہیں، دوسری طرف دو محنت کش لڑکیاں سڑک پر چیخ چیخ کر زندگی سے لڑتی ہوئی دم توڑ دیتی ہیں، مگر ہمارا معاشرہ ایک ہی چیز میں مستقل دکھائی دیتا ہے: غفلت، بے حسی اور طاقتور کے لیے نرم رویہ۔ گیس لیکج کے سبب دھماکے کا واقعہ ہو یا سڑک پر تیز رفتاری سے قتل — دونوں کے پیچھے ایک ہی حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ ہمارے نظام میں پیشگی احتیاط، جان کی حرمت اور قانون کی عمل داری سب کچھ ایک تماشہ بن چکا ہے۔
نمل کے واقعے میں انتظامیہ کی لاپرواہی کھل کر سامنے آئی۔ سوال ہے: کیا کسی نے گیس لائن کی مرمت کرانے کی ذمہ داری لی تھی؟ کیا کوئی معائنہ ہوا؟ کیا کسی نے کمرے کو چیک کیا؟ کیا کسی نے اس بات کا جائزہ لیا کہ موسم تبدیل ہونے پر گیس کھولنے کے کیا خطرات ہو سکتے ہیں؟ نہیں۔ کیونکہ ہمارے اداروں میں ذمہ داری کا تصور صرف کاغذ تک محدود ہے، عمل تک نہیں۔
اسی طرح گاڑی تلے کچلی جانے والی دو لڑکیوں کا معاملہ بھی جبر اور اشرافیائی تحفظ کی مثال ہے۔ جن بچیوں کا گھر ان کی قلیل تنخواہ سے چلتا تھا، وہ آج لقمہ اجل بن گئیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر گاڑی کسی عام شہری کی ہوتی تو کیا پولیس کی کارروائی اسی رفتار سے ہوتی؟ کیا میڈیا اسی محتاط لہجے میں خبر دیتا؟ کیا عدالت اسی تحمل سے آزادانہ فیصلہ سناتی؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب ہم سب جانتے ہیں، لیکن دینے سے کتراتے ہیں۔
ہمارا سماج سانحات پر ماتم تو کرتا ہے، مگر سبق نہیں سیکھتا۔ حادثے ہوتے رہتے ہیں، مگر ادارے ماضی سے کوئی سبق نہیں لیتے۔ ایک دھماکے کے بعد دوسرا دھماکا، ایک ہلاکت کے بعد دوسری ہلاکت — اور پھر تبدیلی کا وہی وعدہ جو کبھی پورا نہیں ہوتا۔ ہم یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ معاشرے کی اصل تباہی بم دھماکوں سے نہیں ہوتی، بلکہ مسلسل ہونے والی وہ انسانی غلطیاں تباہ کرتی ہیں جنہیں ہم معمول کا واقعہ سمجھ کر بھلا دیتے ہیں۔
ہمیں خود سے یہ سخت سوال کرنا ہو گا کہ آخر انسانی جان ہماری ترجیحات میں سب سے آخری نمبر پر کیوں ہے؟ ہمارے تعلیمی ادارے حفاظتی انتظامات پر خرچ کیوں نہیں کرتے؟ ہماری سڑکیں اور ٹریفک قوانین صرف کمزور کے لیے سخت اور طاقتور کے لیے نرم کیوں ہیں؟ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر مرتبہ اثر ورسوخ کے آگے کیوں جھک جاتے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب طاقتور کا بچہ گاڑی چلاتا ہے تو اس کے ہاتھ میں گاڑی ہی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ہاتھ میں قانون کی ڈوریاں بھی ہوتی ہیں۔
یہ دو واقعات صرف خبریں نہیں، معاشرے کے اجتماعی ضمیر پر سوالیہ نشان ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم ایک ایسے دوراہے پر پہنچ چکے ہیں جہاں انسانی جان، ادارہ جاتی ذمہ داری، قانون کی بالادستی اور سماجی انصاف — سب کچھ خطرے میں ہے۔
ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ اگر ہم نے اس غفلت کے سلسلے کو نہ روکا تو کل کوئی اور یونیورسٹی دھماکے کا شکار ہوگی، کوئی اور سڑک کسی اور نوجوان کی جان لے لے گی، اور کوئی اور طاقتور خاندان کسی اور کمزور پر حاوی ہو جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم حادثے کے بعد شور مچانے کے بجائے حادثہ ہونے سے پہلے ذمہ داری نبھانا سیکھیں۔ کیونکہ جس معاشرے میں جان کی قدر نہ ہو، وہاں دھماکے بھی معمول بن جاتے ہیں اور لاشیں بھی خبر کا ایک سطر۔
پاکستان کو اب فیصلہ کرنا ہوگا: کیا ہم اسی بے حسی کے ساتھ جیتے رہیں گے یا واقعی ایک ایسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں جہاں ہر جان اہم ہو اور ہر شخص قانون کے برابر ہو؟ یہ فیصلہ آج کرنا ہے، ورنہ کل بہت دیر ہو جائے گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں