تنخواہ، انکریمنٹ،الاؤنسز ریکوری ، سرکاری ملازمین میں تشویش

ملتان (سٹاف رپورٹر) سرکاری اداروں میں تنخواہوں، انکریمنٹس اور الاؤنسز سے متعلق جاری کیے جانے والے حالیہ ریکوری احکامات نے ملک بھر کے سرکاری ملازمین میں گہری تشویش پیدا کر دی ہے۔ قانونی ماہرین نے ایسے متعدد ریکوری آرڈرز کو غیر قانونی، بے اختیار (Ultra Vires) اور سرکاری قواعد، خصوصاً Fundamental Rules (FR) 53 اور 54 کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ریکوری آرڈر تب ہی قانونی حیثیت رکھتا ہے جب وہ FR-53 اور FR-54 میں درج لازمی حفاظتی اصولوں کے مطابق جاری کیا گیا ہو۔ ان قواعد کے تحت کسی بھی الاؤنس، تنخواہ یا انکریمنٹ کی واپسی بغیر وجہ بتائے، بغیر نوٹس، بغیر تسلی بخش انکوائری اور بغیر اوور پیمنٹ کی مکمل تصدیق کے نہیں کی جا سکتی۔ ماہرین کے مطابق The proposed recovery would be ultra vires the Fundamental Rules 53 and 54, as no recovery can be made in a manner inconsistent with the protections and procedures established under these rules. Any order for recovery is ultra vires the Fundamental Rules 53 and 54 because these rules govern the lawful grant, withdrawal, or modification of pay, increments, and allowances. Recovery cannot be undertaken without fulfilling the mandatory procedural requirements, including due notice, justification, and verification of overpayment.”یعنی ریکوری کا ہر وہ حکم جس میں لازمی قانونی تقاضے پورے نہ کیے جائیں، اپنے آغاز ہی سے قانونی اثر کھو بیٹھتا ہے۔ یہاں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ ریکوری کیوں غیر قانونی قرار دی جا سکتی ہے؟ 1) نوٹس اور جواب کا بنیادی حق ہونا چاہیے کیونکہ FR-54 میں واضح طور پر درج ہے کہ کسی ملازم سے کسی اضافی ادائیگی کی واپسی اسی وقت کی جا سکتی ہے جب متعلقہ ادارہ: پہلے تحریری نوٹس دے، وجہ بیان کرے، مکمل ریکارڈ فراہم کرے اور ملازم کو جواب دینے کا باقاعدہ موقع دے، کسی بھی ریکوری آرڈر میں یہ مراحل غائب ہوں تو حکم خود بخود کالعدم سمجھا جاتا ہے۔2) غلط ادائیگی کی ذمہ داری ادارے کی ہوتی ہے اور سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کے مطابق اگر غلطی سے کوئی الاؤنس یا انکریمنٹ جاری ہو جائے تو غلطی ادارے کی ہوتی ہے، ملازم کی نہیں۔ایسی صورت میں ریکوری کرنا انتظامی نااہلی اور قانونی تجاوز تصور کیا جاتا ہے۔ 3) ’گڈ فیتھ‘ میں ملنے والی رقم واپس نہیں لی جا سکتی۔ اگر کوئی ملازم اضافی رقم اس یقین میں وصول کرتا ہے کہ وہ جائز ہے—اور اسے علم نہ ہو کہ رقم غلطی سے دی گئی ہے—تو یہ رقم ’’گڈ فیتھ‘‘ کی ادائیگی کہلاتی ہے۔ قانونی طور پر ایسی رقوم کی ریکوری ممنوع یا انتہائی محدود ہوتی ہے۔ 4) انکریمنٹ یا الاؤنس روکنے کا پورا طریقہ کار طے ہے۔ FR-53 کے مطابق پے یا انکریمنٹ کے معاملے میں کوئی بھی تبدیلی آڈٹ رپورٹ کے بعد، مکمل مالی تصدیق کے بعد، ملازم کو سنوائی کا حق دینے کے بعد ہی نافذ ہو سکتی ہے۔ اس طریقہ کار کی خلاف ورزی پورے عمل کو غیر مؤثر بنا دیتی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے غیر قانونی طور پر جاری کردہ ریکوری احکامات ملازمین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، سروس رولز کو کمزور کرتے ہیں، اداروں میں عدم اعتماد پیدا کرتے ہیں اور عدالت میں چیلنج ہونے پر کالعدم قرار دیے جا سکتے ہیں مزید برآں ایسے احکامات جاری کرنے والا افسر بھی غیر قانونی کارروائی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ملک بھر کے مختلف سرکاری محکموں میں ایسے ریکوری آرڈرز کے بعد ملازمین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ متعدد ملازمین کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے دور میں اچانک ریکوری کسی اذیت سے کم نہیں۔ ادارے کی غلطی کی سزا ملازم کو نہیں دی جا سکتی۔ قانونی تقاضوں کے بغیر ریکوری سراسر ناانصافی ہے تمام قانونی حوالوں اور مثالوں کی روشنی میں ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ FR-53 اور FR-54 کی خلاف ورزی کے ساتھ جاری کیا جانے والا کوئی بھی ریکوری آرڈر غیر قانونی، بے اختیار (Ultra Vires)، ناقابلِ نفاذ اور کالعدم قرار دیے جانے کے قابل ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں