سرمایہ کاری کا بدلہ: جمہوریت کی قیمت اور ریاستی اختیار کا بگاڑ

پاکستان بزنس کونسل کے دو روزہ اقتصادی مکالمے میں ایس ایف آئی سی کے نیشنل کوآرڈی نیٹر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز احمد نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں عملی کارپوریٹ ٹیکس شرح بعض اوقات 50 فیصد تک پہنچ جاتی ہے، جو سرمایہ کاری کے لیے بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس مسئلے سے آگاہ ہے اور اسے حل کرنے پر کام کر رہی ہے۔جنرل سرفراز نے یہ بھی کہا کہ بیرونی سرمایہ کاری اس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک مقامی سرمایہ کار خود آگے نہ بڑھیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اب حکومت پہلے پاکستانی کاروباری شخصیات اور صنعتکاروں کے سامنے منصوبے پیش کرے گی تاکہ وہ قیادت سنبھالیں، اپنے منصوبے پیش کریں اور پھر بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ شراکت داری کی راہ بنے۔انہوں نے کاروباری برادری سے براہ راست اپیل کی کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر قابلِ عمل منصوبے لائیں، اس یقین دہانی کے ساتھ کہ ایس ایف آئی سی انہیں سرمایہ، ملکوں اور مناسب پارٹنرز تک رسائی میں مدد دے گا۔ ان کے مطابق خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب کے سرمایہ کار تیار بیٹھے ہیں لیکن وہ مقامی شراکت دار کی نشاندہی چاہتے ہیں۔دوسری نشست میں ایف بی آر چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے ٹیکس نظام میں خودکار طریقہ کار، نئے اصلاحاتی اقدامات اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی کوششوں سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت سپر ٹیکس اور دیگر بلند شرحوں کو بتدریج کم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ ٹیکس دہندگان کی کمپلائنس بہتر ہو۔ ساتھ ہی انہوں نے ٹیکس-ٹو-جی ڈی پی شرح کو 2028 تک 18 فیصد تک بڑھانے کا ہدف بھی پیش کیا۔ایس ایف آئی سی کے چئیرمین کا یہ اعتراف کہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں آ رہی بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ایس ایف آئی سی دراصل فوجی اسٹبلشمنٹ کی اس سوچ کا برین چائلڈ تھی جس کا اظہار سابق آرمی چیف جنرل قمر اشفاق باجوہ نے پاکستان کی بزنس کمیونٹی کے سامنے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کیا تھا ۔ اس سوچ کے مطابق پاکستان کی غیر منتخب فوجی ہئیت مقتدرہ کا خیال یہ تھا کہ وہ پاکستان کی معشیت کے بحران کو حل کرنے کا ایک قابل عمل ایجنڈا رکھتی ہے جس کے لیے اس کی قیادت میں ایک بالادست ادارے کے قیام کی ضرورت ہے۔ ایس ایف آئی سی کے ڈھانچے کو پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی معاشی فیصلہ سازی پر عملی برتری کے طور پر دیکھا گیا، اور اس تاثر کی کئی ٹھوس وجوہات ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا جائزہ کسی سادہ الزام یا یک رخے بیان کے طور پر نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخی سیاسی معیشت، طاقت کے ڈھانچے اور سول اداروں کی کمزوریاں سامنے رکھ کر کرنا پڑتا ہے۔سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں فوج کا کردار ہمیشہ صرف دفاعی امور تک محدود نہیں رہا۔ ریاستی کمزوری، سیاسی عدم استحکام، بیوروکریسی کی سست رفتاری اور حکومتی عدم تسلسل نے فوج کو بتدریج ایسے خلا میں دھکیل دیا جہاں اس نے اسٹیبلائزنگ فورس” کے طور پر اپنی پوزیشن قائم کی۔ ایس ایف آئی سی اسی تاریخی تسلسل کا ادارہ جاتی اظہار تھا۔ جب اسے قائم کیا گیا تو اس کے اجلاسوں کی سربراہی ایک حاضر سروس جنرل کے ہاتھ میں دی گئی، اُس کے سیکرٹریٹ میں فوجی نمائندے شامل ہوئے، اور اس کی رپورٹنگ لائن ریاست کے سویلین فریم ورک سے ہٹ کر ایک سکیورٹی-ایکانومک ہائبرڈ” ماڈل میں کھل کر سامنے آئی۔ سرمایہ کاروں کے ساتھ ملاقاتیں، منصوبوں کی منظوری، فیصلوں کی ٹائم لائن، تمام پروٹوکول عسکری طرزِ حکمرانی سے مشابہت رکھتے تھے۔یہاں اصل نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو جب گورننس، ٹیکس اصلاحات، عدالتی شفافیت، توانائی پالیسی اور بیوروکریٹک ذمہ داری جیسے بنیادی ڈھانچوں کی اصلاحات چاہیے تھیں، تو ایس ایف آئی سی نے ان کی بجائے ٹاپ ڈاؤن کنٹرول اور عسکری نظم کے ذریعے رفتار پیدا کرنے کو حل سمجھا۔ اس سے تیزی تو آئی، مگر اعتماد نہیں آیا، کیونکہ کاروباری دنیا یہ جانتی ہے کہ فوجی ادارہ نہ تو منتخب اداروں کو جوابدہ ہے، نہ عدالتی اسکروٹنی اس پر مکمل لاگو ہوتی ہے، اور نہ ہی معاشی فیصلوں میں اس کا کوئی جمہوری مینڈیٹ ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے مقامی اور عالمی سرمایہ کاروں کے لیے یہ سوال کھڑا ہوا کہ اگر سرمایہ کاری اس ون ونڈو” پلیٹ فارم پر ہوگی تو مستقبل میں کسی بھی سیاسی تبدیلی یا سول ملٹری تناؤ کی صورت میں اس کا انجام کیا ہوگا؟یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں طاقت کا توازن ہمیشہ سول اداروں کے بجائے عسکری اداروں کے حق میں جھکتا رہا ہے۔ لہٰذا ایس ایف آئی سی کا ابھرنا اسی طویل تاریخی راستے کا منطقی قدم تھا، نہ کہ اچانک حادثہ۔ مگر اس سے ایک سنگین مسئلہ بھی پیدا ہوا: یہ تاثر کہ معاشی فیصلے منتخب اداروں اور پارلیمان کے بجائے عسکری ایگزیکٹو کے پاس منتقل ہو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں سرمایہ کاری کا ماحول وقتی طور پر منظم تو ہوسکتا ہے، مگر دیرپا اعتماد پیدا نہیں ہوتا کیونکہ معیشت پالیسی کے rule-based نظام سے نکل کر personality-driven یا institution-driven ماڈل میں چلی جاتی ہے۔بین الاقوامی سرمایہ کار، جو پہلے ہی عدالتوں، ریگولیٹری عدم استحکام اور پالیسی کے الٹ پلٹ ہونے سے پریشان تھے، ایس ایف آئی سی کے ڈھانچے میں ایک اضافی غیر یقینی عنصر دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے سوال یہ نہیں کہ فوج بدعنوانی کے خلاف سخت اقدام کر سکتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ کیا کوئی ایسا فریم ورک موجود ہے جو سویلین احتساب، ادارہ جاتی چیک اینڈ بیلنس، اور پالیسی کے مستقل تسلسل کو یقینی بناتا ہو؟ بدقسمتی سے ایس ایف آئی سی اس معاملے میں یقین دہانی فراہم نہیں کر سکا۔لہٰذا ایس ایف آئی سی کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی برتری کے طور پر دیکھنا محض سیاسی تنقید نہیں، بلکہ پاکستان کے معروضی طاقت کے ڈھانچے کی بالکل درست پڑھت ہے۔ اس کا بنیادی مسئلہ یہی تھا کہ اس نے اصلاحات کا مقصد حاصل کرنے کے بجائے، ریاست کی دیرینہ مرکزیاتی عسکری منطق کو معاشی ڈھانچے میں بھی سرایت کر دیا۔ اس سے رفتار تو پیدا ہوئی، مگر شفافیت، تسلسل، اعتماد اور سسٹمک ریفارمز نہیں آئیں — اور یہی وہ عناصر ہیں جو کسی بھی ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری لانے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ایس ایف آئی سی کے سربراہ کی یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں موثر کارپوریٹ ٹیکس 45-50 فیصد تک چلا جاتا ہے لیکن ایف ڈی آئی کے نہ آنے کی وجہ صرف ٹیکس نہیں ہے۔ اگر یہی وجہ ہوتی تو بھارت ، بنگلہ دیش اور ویتنام جیسے ملک جہاں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 25 فیصد ہے اور موثر حالت میں یہ ٹیکس وہاں 40 فیصد تک چلے جاتے ہیں اور ریگولیٹری فرکشن بھی نہایت سخت ہے تو وہاں ایف ڈی آئی بھی نہ آتا لیکن آرہا ہے۔ وہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کی ایک وجہ تو سیاسی استحکام، مستقل پالیسی اور سرمایہ کار دوست بیوروکریسی ہے۔ ٹیکس کو واحد مسئلہ بنانے سے سٹراچرل ایشوز سائیڈ لائن ہورہے ہیں ۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہ آنے کی وجوہات میں گزشتہ 30 سال میں پالیسی میں تسلسل کا نہ ہونا ، ریاست اندر ریاست ، سول و ملٹری اداروں کے مختلف اشارے ، ناقابل اعتماد عدالتیں و سست عدالتی نظام ، بجلی و کیس کے دنیا کے سب سے بلند ترین ٹیرف ، کرپشن ، رینٹ سیکنگ کا نظام، زمین ، رئیل اسٹیٹ اور ڈالر ریٹرن کو ترجیح دینے والا مقامی سرمایہ دار شامل ہیں ۔ تو ایس ایف آئی سی سرمایہ کاروں کو ٹیکس ریٹ کا بتاکر قائل نہیں کرسکتی جب تک نظامِ حکمرانی ٹھیک نہ ہو۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز کا یہ کہنا کہ غیر ملکی سرمایہ جب آئے گا جب مقامی سرمایہ کار اس کے ساتھ شریک ہوگا ۔ یہ بیان حقیقت پسندانہ بھی ہے اور خطرناک بھی ۔ یہ دلیل اصولی طور پر درست ہے کہ بیرونی سرمایہ کار اس ملک میں کیوں آئے جہاں مقامی سرمایہ دار خود سرمایہ کاری سے گریزاں ہو۔ مقامی سرمایہ دار طویل المدت صنعتی سرمایہ کاری کے بجائے رئیل اسٹیٹ، فاریکس ٹریڈنگ، اسمگلنگ اور اجناس کی ذخیرہ اندوزی جیسے rent-seeking شعبوں میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے، لہٰذا بیرونی سرمایہ کار اس رویے کو دیکھ کر مزید محتاط ہو جاتا ہے۔ مگر اس بیانیے میں ایک خطرناک پہلو بھی پوشیدہ ہے: جب ایس ایف آئی سی یہ اعلان کرتی ہے کہ پہلے اپنے ہی بڑے صنعتکاروں اور تجارتی خاندانوں کو میز پر بٹھایا جائے گا اور پھر بیرونی سرمایہ کار آئیں گے، تو دراصل یہ ایک ایلیٹ کارٹل کو باضابطہ شکل دینے کے مترادف ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سرمایہ کاری کے فیصلے کھلے مقابلے یا شفاف طریقہ کار کے بجائے محدود گروہوں، چند طاقتور خاندانوں اور ملٹری-بزنس بلاک کی اجتماعی سودے بازی کے ذریعے طے پائیں گے۔ یہ وہی ایلیٹ کیپچر ماڈل ہے جس نے پاکستان کی سیاسی معیشت کو دہائیوں سے مفلوج کر رکھا ہے اور جس کے نتیجے میں منڈی کی حقیقی مسابقت، اداروں کی خودمختاری اور عوامی مفاد مسلسل کمزور ہوتا چلا گیا ہے۔اب زرا ایف بی آر کی اپروچ کا جائزہ لیتے ہیں – ایف بی آر کی پالیسی بظاہر ٹیکس کم کرنے کی ایک مشروط پیشکش پر مبنی ہے، لیکن حقیقت میں اس پیشکش کے دروازے پر ایک خاموش نوشتہ ہمیشہ موجود رہتا ہے: ’’کمپلائنس ناممکن‘‘۔ چیئرمین رشید محمود لنگڑیال کے مطابق ٹیکس ریٹس میں کمی اسی وقت ممکن ہے جب ٹیکس دہندگان کی کمپلائنس بہتر ہو، ورنہ ریاست کو 1.6 ٹریلین روپے کا بھاری خسارہ برداشت کرنا پڑے گا، اور اسی لیے حکومت ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 18 فیصد تک لے جانے کا ہدف رکھتی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ خود ایف بی آر اچھی طرح جانتا ہے کہ اس ملک میں بڑے سرمایہ دار طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانا عملی طور پر ممکن نہیں۔ زرعی آمدن پر ٹیکس لگانا سیاسی طور پر ناممکن ہے، ریٹیل سیکٹر کو فارملائز کرنا دہائیوں سے ایک ناتمام وعدہ بنا ہوا ہے، اور رئیل اسٹیٹ کارٹیل کے خلاف مؤثر کارروائی کسی بھی حکومت کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔ پاکستان کے تاریخی ریکارڈ سے یہ حقیقت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جب بھی ریاست سرمایہ دار طبقے کو ٹیکس میں نرمی دیتی ہے، تو کمپلائنس بڑھنے کے بجائے مزید کم ہوجاتی ہے، کیونکہ ٹیکس رعایتیں ہمیشہ ایک نئے چکر کی بنیاد رکھتی ہیں جس میں طاقتور گروہ مزید استثنیٰ کے عادی ہو جاتے ہیں اور ٹیکس نظام مزید کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ایس ایف آئی سی کا ٹیکس بیانیہ بظاہر سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے پیش کیا جاتا ہے، مگر اس کے عملی اثرات مخصوص طبقوں کے حق میں جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ فائدہ بڑے کاروباری گروہوں کو پہنچتا ہے جو پہلے ہی ٹیکس میں مختلف استثنیٰ حاصل کرنے کے عادی ہیں اور اب ’’ٹیکس ری rationalisation‘‘ کے نام پر مزید مراعات چاہتے ہیں۔ ایس ایف آئی سی انہیں ’’نیشنل چیمپیئنز‘‘ بنا کر بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے سامنے پیش کرنا چاہتی ہے، گویا بیرونی سرمایہ انہی چند طاقتور گروہوں کے ذریعے ملک میں داخل ہوسکے گا۔ دوسرا بڑا فائدہ خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب اور جی سی سی کے سرمایہ کاروں کو ملتا ہے، جو مسلسل یہ سوال کرتے ہیں کہ ان کا مقامی پارٹنر کون ہوگا۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ مشترکہ منصوبوں میں مقامی ایلیٹ کو ریاستی ضمانت فراہم کی جائے گی، زمین، بندرگاہیں، معدنیاتی بلاکس اور زرعی رقبے ’’اسٹریٹجک شراکت داری‘‘ کے نام پر مخصوص ہاتھوں میں مرتکز ہوں گے، اور طویل مدت میں اس سے ریاست اور عوام کے حصے میں کم جبکہ اشرافیہ کے حصے میں زیادہ فائدہ آئے گا۔جہاں تک غیر ملکی سرمایہ کاری کے بحران کا تعلق ہے، اس کی جڑ محض ٹیکس کی شرحوں میں نہیں بلکہ حکمرانی کے گہرے بحران میں ہے۔ عدالتی نظام انصاف فراہم کرنے میں ایک دہائی یا اس سے بھی زیادہ وقت لیتا ہے، بیوروکریسی میں میرٹ کی بجائے ماتحتی اور حکم ماننے کا کلچر غالب ہے، کاروباری ماحول غیر متوقع اور غیر یقینی ہے، سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور ویٹو پاور فیصلہ سازی کو مزید پیچیدہ بناتی ہے، کرنسی مسلسل گرتی رہتی ہے اور ٹیکس نظام طاقتور طبقوں کو استثنیٰ دیتا ہے۔ ایسے ماحول میں کوئی بھی سنجیدہ، طویل المدت بیرونی سرمایہ کار قدم رکھنے سے گریز کرتا ہے اور صرف وہ سرمایہ آتا ہے جو فوری اور زیادہ منافع دینے والے شعبوں میں دلچسپی رکھتا ہو۔ اس طرح ایف ڈی آئی کا بحران دراصل ادارہ جاتی اور حکمرانی کے بحران کا براہِ راست نتیجہ ہے، نہ کہ صرف ٹیکس ریٹ کا مسئلہ۔ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو 18 فیصد تک پہنچانے کا دعویٰ زیادہ تر ایک معاشی نعرے کی حیثیت رکھتا ہے، عملی حقیقت سے اس کا کوئی براہِ راست تعلق نہیں بنتا۔ پاکستان کی معیشت کا نصف سے زیادہ، یعنی تقریباً 55 فیصد حصہ، مکمل طور پر غیر رسمی شعبے پر مشتمل ہے جہاں نہ کوئی ریکارڈ ہوتا ہے اور نہ ہی ریاست کی رسائی۔ اسی طرح کاروباری طبقے کی صورتحال یہ ہے کہ 90 فیصد سے زائد تاجر اور بزنس افراد فائلر ہی نہیں، جبکہ معیشت کا غالب ڈھانچہ فوری منافع دینے والے rentier capitalism پر قائم ہے جس میں پیداوار کم اور کرایہ خوری زیادہ ہے۔ ایسے ماحول میں ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا مشکل ہی نہیں بلکہ ساختیاتی طور پر ناممکن ہے، چنانچہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 18 فیصد تک لے جانے کی بات ایک ایسی خواہش ہے جس کی تکمیل کا نہ کوئی عملی راستہ موجود ہے اور نہ ہی معیشت کا موجودہ ڈھانچہ اسے ممکن بناتا ہے۔ایس ایف آئی سی اور ایف بی آر کی پالیسیوں میں ایک بنیادی تضاد مسلسل ابھرتا ہے جو سرمایہ کاری کے پورے بیانیے کو کمزور کرتا ہے۔ ایس ایف آئی سی کا مؤقف یہ ہے کہ ٹیکس کم کیے جائیں تاکہ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ماحول سازگار ہو، بڑے سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کو سامنے لایا جائے، اور انہیں تمام دروازے کھول کر دیے جائیں تاکہ وہ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے راستہ بنا سکیں۔ دوسری طرف ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ٹیکس کم کرنے کی کوئی بھی کوشش اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ٹیکس دہندگان کی کمپلائنس بڑھے، جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بڑے سرمایہ دار ہی ستر فیصد سے زیادہ ٹیکس چوری کرتے ہیں اور اسی لیے ایف بی آر اس بات پر زور دیتا ہے کہ تمام شعبوں کو بلا تفریق ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے۔ دونوں اداروں کی یہ باہمی عدم مطابقت خود سرمایہ کاری کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ بنتی ہے، کیونکہ پالیسی سگنلز ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔حتمی تجزیہ یہی دکھاتا ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہ آنے کی تین مرکزی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ حکمرانی اور پالیسی میں تسلسل موجود نہیں؛ سرمایہ کار ٹیکس ریٹ سے زیادہ گورننس دیکھتا ہے اور پاکستان اس بنیادی امتحان میں ناکام رہتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دار طبقے اور ریاست کا رشتہ پیداواری معیشت کے بجائے rentier بنیادوں پر قائم ہے، اور ایس ایف آئی سی اسی پرانے کارٹل کو ادارہ جاتی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ تیسری وجہ ٹیکس اصلاحات کا بنیادی تضاد ہے: ایف بی آر چاہتا ہے کہ کمپلائنس بڑھے تو ریٹ کم کیے جائیں، مگر اشرافیہ کا معاشی نظام کم ریٹ ملتے ہی مزید کم کمپلائنس کی طرف جاتا ہے—یعنی ٹیکس میں رعایتیں خود ٹیکس چوری کو بڑھاتی ہیں۔ایسی صورت میں نہ ایف ڈی آئی آ سکتی ہے، نہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں اضافہ ممکن ہے، اور نہ معیشت میں دیرپا استحکام آ سکتا ہے۔ پاکستان کو محض ٹیکس اصلاحات نہیں بلکہ سیاسی معیشت کی جڑوں میں اصلاحات درکار ہیں—اداروں میں تسلسل، عدالتی ڈھانچے کی اصلاح، کرایہ خوری کے ماڈل کا خاتمہ، توانائی کے شعبے کی ساختی اصلاح اور حقیقی معنوں میں rule of law۔ جب تک ریاست ’’ایلیٹ بارگین اکانومی‘‘ کے چکر سے باہر نہیں نکلتی، سرمایہ کاری بھی نہیں آئے گی، ریونیو بحران بھی برقرار رہے گا، اور معیشت پائیدار بنیادوں پر کھڑی بھی نہیں ہو سکے گی۔اب یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ پاکستان کی غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کی قیادت نے پاکستان کی سیاسی – معشیت کو ٹھیک کرنے کے نام پر معاشی پالیسی سازی میں جس بالادست کردار کو ایس ایف آئی سی کی شکل میں اپنے ہاتھ میں لیا اس کی دو سال کی کارکردگی ہمیں کیا بتاتی ہے؟ جون 2023 میں اس وقت قائم کیے گئے ایس ایف آئی سی کو اب دو برس مکمل ہو چکے ہیں، اور اس مدت میں اس کی کارکردگی کو دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ادارہ ایک بڑے بحران کے پس منظر میں وجود میں آیا تھا۔ 2022–23 میں معیشت گرتی ہوئی، ریاستی ڈھانچہ غیر یقینی کا شکار، اور ایف ڈی آئی مسلسل کم ہوتی جا رہی تھی۔ ایسے میں حکومت نے ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیا جس کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاری لانے، بالخصوص خلیجی ممالک اور سعودی عرب سے اسٹریٹجک سرمایہ کاری حاصل کرنے، معدنیات، زراعت، توانائی اور آئی ٹی جیسے شعبوں کو کھولنے، اور بیوروکریسی، فوج اور سرمایہ کاروں کے درمیان ’’ون ونڈو‘‘ رابطہ قائم کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ اس پورے عمل نے پاکستان کی سیاسی معیشت میں ایک بڑی تبدیلی یہ متعارف کروائی کہ فوج کو معاشی پالیسی میں باضابطہ اور ادارہ جاتی حیثیت دی گئی، جو ملکی طاقت کے ڈھانچے کے لیے ایک نیا مرحلہ تھا۔ابتدا میں ایس ایف آئی سی کے گرد امیدوں کی ایک بڑی لہر پیدا کی گئی۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ جلد ہی 100 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی، سعودی عرب اور یو اے ای کے بڑے منصوبے شروع ہوں گے، ریکوڈک میں فوری سرمایہ کاری آئے گی، آئی ٹی برآمدات میں اضافہ ہوگا، اور بڑے زرعی فارمز کے لیے اصلاحات کی جائیں گی۔ لیکن عملی کارکردگی ان وعدوں سے بہت کم رہی۔ ایف ڈی آئی کے اعداد و شمار نے سب سے پہلے ان دعووں کی قلعی کھولی؛ 2021–22 میں ایف ڈی آئی 1.87 ارب ڈالر تھی، جو 2022–23 میں 1.45 ارب ڈالر رہ گئی، اور ایس ایف آئی سی کے قیام کے بعد 2023–24 میں مزید سکڑ کر 1.01 ارب ڈالر پر آ گئی۔ اگلے سال کے لیے بھی 1.1 سے 1.2 ارب ڈالر کی کمزور توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں۔ واضح ہے کہ دو برس میں بڑھوتری کے بجائے تاریخی کمی دیکھنے میں آئی، اور ایس ایف آئی سی اپنا بنیادی مقصد، یعنی بڑے پیمانے پر ایف ڈی آئی لانے کا ہدف پورا نہ کر سکی۔اگرچہ کچھ کامیابیاں ضرور سامنے آئیں۔ جی سی سی کے ساتھ سیاسی و معاشی سطح پر بامعنی روابط بڑھے، سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل کی اپ گریڈیشن ہوئی، یو اے ای اور قطر کے ساتھ متعدد مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے اور ریاض و ابوظہبی کے ساتھ پروجیکٹ پائپ لائن تیار کی گئی۔ معدنیات کے شعبے میں کچھ ادارہ جاتی بہتری آئی، ریکوڈک سمیت مختلف منصوبوں کا فریم ورک مضبوط ہوا اور بیوروکریسی و اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فیصلہ سازی میں رفتار پیدا ہوئی۔ آئی ٹی اور ڈیجیٹل لائسنسنگ میں بھی چند فوری بہتریاں محسوس کی گئیں۔لیکن ان کے مقابلے میں خامیاں اور ناکامیاں کہیں زیادہ گہری اور بنیادی نوعیت کی تھیں۔ نہ کوئی میگا سعودی سرمایہ کاری عملی شکل اختیار کر سکی، نہ زرعی میگا پروجیکٹس شروع ہوئے، نہ سووریئن فنڈز کے مشترکہ منصوبے بن پائے، نہ معدنیات میں بڑے جوائنٹ وینچرز سامنے آئے۔ مقامی سرمایہ کار بھی ایس ایف آئی سی پر اعتماد نہ کر سکے اور بدستور رئیل اسٹیٹ، کرنسی اسپیکولیشن، اجناس کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ جیسی rent-seeking سرگرمیوں کو ترجیح دیتے رہے، جبکہ صنعتی سرمایہ کاری کا کوئی قابلِ ذکر رجحان سامنے نہ آیا۔ ایس ایف آئی سی کے مرکزی عسکری ڈھانچے پر تنقید بڑھتی گئی، کیونکہ اس میں سول اداروں کا کردار کمزور، صوبوں اور پارلیمان کا عمل دخل تقریباً غائب اور شفافیت محدود رہی۔ زرعی فارمز کا منصوبہ بھی پنجاب اور سندھ میں کسانوں کی شدید مزاحمت اور زمینوں کے حقِ ملکیت کے تنازعوں کے باعث ناکام ہوا۔ کاروباری طبقے کی عمومی رائے یہی ہے کہ جب تک ٹیکس، توانائی اور قانون کی حکمرانی جیسے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے، ایس ایف آئی سی کسی بڑی تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔بین الاقوامی اداروں نے بھی مسلسل یہی نشاندہی کی کہ پاکستان میں ایف ڈی آئی کا بحران ٹیکس کی شرح کی وجہ سے نہیں بلکہ گورننس، سیاسی عدم استحکام، ادارہ جاتی تضادات، عدالتی غیر یقینی اور مسلسل پالیسی کے الٹ پلٹ ہونے کی وجہ سے ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف دونوں نے پالیسی ریورسز، عدم اعتماد، قانونی عدم تحفظ اور rent-seeking معیشت کو ایف ڈی آئی نہ آنے کے بنیادی اسباب قرار دیا۔ کاروباری برادری، جیسے پی بی سی، او آئی سی سی آئی اور کی سی سی آئی نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا کہ ایس ایف آئی سی نے توقعات پوری نہیں کیں بلکہ معاشی فیصلہ سازی میں طاقت کے غیر معمولی ارتکاز نے سرمایہ کاروں کے لیے مزید mixed signals پیدا کیے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں