پاکستان کے وزیرِ دفاع کے اس بیان نے ایک بار پھر پاک۔افغان تعلقات کے اس پیچیدہ اور حساس گوشے کو اجاگر کر دیا ہے جسے برسوں کی غلطیوں، غلط فہمیوں اور باہمی بدگمانیوں نے ایک ایسے گہرے بحران میں بدل دیا ہے جس کا کوئی آسان حل موجود نہیں۔ وزیرِ دفاع کا کہنا ہے کہ جب تک افغان سرزمین سے تحریکِ طالبان پاکستان کی پشت پناہی مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتی، پاکستان ہمسایہ ملک کے ساتھ پُرامن تعلقات قائم نہیں کر سکتا۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا افغان طالبان ایسی کوئی ضمانت دینے کی صلاحیت یا خواہش رکھتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے دوحہ معاہدے میں امریکہ جیسے عالمی طاقتور ملک کو بھی کوئی آہنی ضمانت نہیں دی، تو پاکستان سے اس کی توقع کرنا حقیقت پسندی سے کوسوں دور ہے۔افغان طالبان کی پالیسی کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی کی تاریخ، خطے کی سیاست اور دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے اس پس منظر میں جھانکنا پڑے گا جہاں غلط فیصلوں کی طویل فہرست موجود ہے۔ پاکستان اور افغانستان کا رشتہ ایک دوسرے پر انحصار اور ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے عبارت رہا ہے۔ افغانستان نے کھلے عام پشتونستان کا نعرہ بلند کرکے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کیں، اور پاکستان نے سوویت جنگ سے لے کر افغان خانہ جنگی تک، افغان معاملات میں ایسی شمولیت اختیار کی جس نے آنے والی نسلوں کو تنازعات کی بھٹی میں دھکیل دیا۔ افغان مہاجرین، مجاہدین، اور پھر طالبان کا پاکستان میں گہرا سماجی، سیاسی اور مذہبی اثرورسوخ پاکستان کی اندرونی ساخت کو بدلتا چلا گیا، جس کے منفی اثرات آج تک ختم نہیں ہو سکے۔پاکستان نے افغان تنازعے میں جس بلند سطح کی شمولیت اختیار کی، اس نے پاکستان کے اندر ہی ایک ایسا سماجی اور عسکری پس منظر تشکیل دیا جہاں ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کے لیے جگہ بن گئی۔ طالبان نے پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں اپنے لیے پناہ گاہیں، تربیتی مراکز اور سماجی نیٹ ورک بنائے۔ کئی طالبان رہنما انہی مدرسوں میں تعلیم یافتہ تھے، جنہیں وہ اپنی فکری اور عسکری تعمیر کا مرکز سمجھتے ہیں۔ یوں پاکستان کا سرحدی خطہ طالبان کا “پس منظر” بن گیا، اور آج اسی پس منظر سے وہ خطرات جنم لے رہے ہیں جنہیں پاکستان روکنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ طالبان نہ تو وہ نجات دہندہ ہیں جن کے لیے کچھ حلقے برسوں تک قصیدہ خوانی کرتے رہے، اور نہ وہ کسی اصولی ریاستی ڈھانچے پر یقین رکھتے ہیں۔ عورتوں کے ساتھ ان کا رویہ بذاتِ خود انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ ان کی اندرونی تقسیم، کمزور ریاستی صلاحیت، بکھرتی ہوئی معیشت، اور پھیلتا ہوا انسانی بحران انہیں کسی بھی بڑے فیصلے کی صلاحیت سے محروم کرتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی توقع کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن اقدام کریں گے، زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔افغان طالبان کی نظر میں ٹی ٹی پی دشمن نہیں بلکہ ایک نظریاتی حلیف ہے۔ وہ انہیں مستقبل کے کسی ممکنہ خطرے کے خلاف ایک دفاعی قوت کے طور پر دیکھتے ہیں — چاہے وہ خطرہ داعش خراسان کی صورت ہو، قومی مزاحمتی محاذ کی شکل میں ہو، یا کسی بیرونی طاقت کی جانب سے حکومت کی تبدیلی کی کوشش کی صورت میں۔ طالبان ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو سفارتی لچک حاصل کرنے، علاقائی ریاستوں سے رعایتیں لینے، اور اپنی کمزور حکومت کو سہارا دینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنے اہمترین عسکری اثاثے کو پاکستانی خواہشات کے مطابق قربان کر دیں، حقیقت پسندی کے خلاف ہے۔پاکستان کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ اس صورتحال کو سمجھتے ہوئے ایک ایسی حکمتِ عملی اپنائے جس میں صبر، مذاکرات، دباؤ اور سفارتی تدبیر کا توازن موجود ہو۔ فوجی اقدام کی دھمکی یا سرحد پار کارروائی کا تاثر طالبان کو مزید ٹی ٹی پی کے قریب دھکیل دے گا، اور ایک غیر مستحکم افغانستان پاکستان کے لیے ناقابلِ برداشت بوجھ بن جائے گا۔ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ افغانستان میں جنگ کا شعلہ کبھی پاکستان کی دہلیز پر رکا نہیں، ہمیشہ ہمارے اندر داخل ہوا ہے۔پاکستان کو طالبان پر ضرورت سے زیادہ جارحانہ دباؤ ڈالنے کے بجائے یہ باور کرانا ہوگا کہ ان کی بقا اور علاقائی قبولیت پاکستان سے بہتر تعلقات میں مضمر ہے۔ سرحدی انتظام، پناہ گزینوں کا مستقبل، تجارت اور آمد و رفت جیسے شعبوں میں دباؤ، وقتاً فوقتاً نرم و سخت پالیسیوں کے ملاپ سے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے جہاں طالبان پاکستان کے تحفظات سننے پر مجبور ہوں۔ اس کے لیے اندرونِ ملک بھی شدت پسند عناصر کو کمزور کرنا ہوگا، تاکہ طالبان کو یہ محسوس ہو کہ ٹی ٹی پی ان کے لیے پہلے جیسی کارآمد نہیں رہی۔ایک اور اہم حقیقت یہ ہے کہ افغانستان پاکستان کے لیے فوجی مسئلہ ہرگز نہیں۔ یہ سیاسی مسئلہ ہے، جس کی ایک عسکری جہت ضرور موجود ہے، مگر اصل حل سیاسی ہی ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ طالبان کو مکمل طور پر بدلنا یا ان سے توقعات کا پہاڑ کھڑا کرنا غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ معاملات کو بتدریج، صبر اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔افغانستان کے بھارت سے رابطوں پر بھی پاکستان کو ضرورت سے زیادہ ردعمل دینے کے بجائے بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ طالبان کو باور کرانا ضروری ہے کہ بھارت سے تعلقات ان کا حق ہے، لیکن اس حق کے ساتھ یہ ذمہ داری بھی جڑی ہے کہ وہ اپنی زمین کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔ یہ پیغام جتنی سنجیدگی، دوٹوک انداز اور مستقل مزاجی سے دیا جائے گا، اتنا ہی کارگر ہوگا۔آخر میں، یہ حقیقت پاکستان کے پالیسی سازوں کے سامنے رہنی چاہیے کہ افغانستان نہ تو جلد بدلنے والا ملک ہے، نہ اس کی سیاست سادہ خطوط پر چلتی ہے۔ پاکستان کو ایک ثابت قدم، سنجیدہ اور طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس میں افغان طالبان کے ساتھ انگیجمنٹ بھی ہو، دباؤ بھی ہو، مذاکرات بھی ہوں، اور اپنے اندرونی محاذ کو مضبوط کرنے کی عملی کوشش بھی۔ یہی ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے پاکستان اپنے سرحدی علاقوں میں قیامِ امن اور اندرونی سلامتی کی بحالی کے قریب پہنچ سکتا ہے۔







