اسلام آباد: وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل سے گفتگو میں واضح کیا ہے کہ عمران خان سے ملاقات کے لیے اجازت دینا عدالت کی ذمہ داری نہیں، اس سلسلے میں اسی فورم سے رجوع کیا جائے جس نے انہیں سزا سنائی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کے تبادلے سے متعلق کیس میں وفاقی آئینی عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کی انٹرا کورٹ اپیل عدم پیروی کی وجہ سے خارج کر دی۔ اسی طرح کراچی بار کی اپیل بھی وکیل کی عدم پیشی کے باعث نمٹا دی گئی، جبکہ بانی پی ٹی آئی کے وکیل اور لاہور ہائی کورٹ بار سمیت لاہور بار ایسوسی ایشن کے وکیل کو مزید وقت دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔
چھ رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس امین الدین خان نے کی، جبکہ جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس کے کے آغا، جسٹس روزی خان اور جسٹس ارشد حسین شاہ بھی بینچ کا حصہ تھے۔
سماعت شروع ہوئی تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک پیش نہ ہوئے، جس پر عدالت نے اپیل عدم پیروی پر خارج کر دی۔
کراچی بار اور اسلام آباد بار کے سابق صدر کے وکیل فیصل صدیقی بھی عدالت میں موجود نہیں تھے، اور ان کی اپیل بھی اسی بنیاد پر خارج کر دی گئی۔
لاہور ہائی کورٹ بار اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان پیش نہ ہوئے، تاہم معاون وکیل اجمل طور عدالت آئے اور سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی، جسے عدالت نے منظور کر لیا اور ان اپیلوں کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
بعد ازاں بانی پی ٹی آئی کے وکیل ادریس اشرف عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں، اس لیے اپنے موکل سے ہدایات لینے کے لیے وقت درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ شارٹ آرڈر کو چیلنج کیا تھا اور اب مکمل فیصلہ آنے کے بعد اضافی دلائل جمع کرانے ہیں۔
ادریس اشرف نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں ہدایات لینے کے لیے اجازت دی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اجازت دینے کا اختیار اسی عدالت کو ہے جو سزا دینے والا فورم ہے، آئینی عدالت ایسا حکم نہیں دے سکتی۔ تاہم عدالت نے وکیل کی مہلت مانگنے کی درخواست قبول کرتے ہوئے انہیں وقت فراہم کر دیا۔
وکیل نے آرٹیکل 187 کے تحت مکمل انصاف کی فراہمی کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت سے خصوصی اختیار استعمال کرنے کی استدعا بھی کی، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں۔
بعد ازاں بانی پی ٹی آئی کے وکیل کو مزید وقت دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔







