سرمایہ کاری کا بحران اور معاشی کمزوری کا بڑھتا ہوا بھنور

پاکستان اس وقت شدید معاشی بے یقینی کے گرداب میں گھرا ہوا ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک بیرونی مالیاتی استحکام کی بھیک مانگنے پر مجبور ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے کمی ایک خطرناک علامت بن کر سامنے آئی ہے۔ یہ محض ایک معاشی اعداد و شمار کا مسئلہ نہیں بلکہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ پاکستان کی معیشت اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں اعتماد، پالیسی کا تسلسل، طویل المدتی اصلاحات اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول سب معدوم ہو چکے ہیں۔ یہ صورتِ حال نہ صرف معاشی مستقبل کو دھندلا رہی ہے بلکہ ریاست کے خارجی کھاتوں کو اس نہج پر لانے والی ہے جہاں کوئی بھی بیرونی جھٹکا پورے ڈھانچے کو زمین بوس کر سکتا ہے۔مالی سال 26ء کی پہلی چار ماہ کی رپورٹ بیرونی سرمایہ کاری کی صورتحال کو بے نقاب کرتی ہے۔ مرکزی بینک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری میں چھبیس فیصد کمی آئی ہے۔ ایک ارب ایک کروڑ پچاس لاکھ ڈالر سے کم ہو کر سات سو سینتالیس ملین ڈالر تک آ جانا معمولی گراوٹ نہیں—یہ ایک ایسی معاشی چیخ ہے جسے نظرانداز کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ اس عرصے میں سرمایہ کاری کے یہ بہاؤ کم ہوئے جبکہ ملک سے سرمایہ باہر جانے کی رفتار بڑھ گئی۔ یوں ملک نے مجموعی طور پر دو سو ترسٹھ ملین ڈالر کی کمی کا سامنا کیا، ایسے وقت میں جب ہر ڈالر کی ضرورت شدید ہے۔مزید تشویشناک پہلو یہ ہے کہ سرمایہ کاری کے مجموعی بہاؤ میں بھی عدم توازن بڑھ رہا ہے۔ کل سرمایہ کاری کا بہاؤ ایک اعشاریہ دو صفر تین ارب ڈالر رہا، مگر اس میں سے چار سو چھپن ملین ڈالر باہر نکل گئے۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں پاکستان سے پہلے سے زیادہ سرمایہ نکال رہی ہیں۔ یہ علامت ہمیشہ کسی ملک کی ساکھ، پالیسی کے غیر واضح ہونے اور کاروباری غیر یقینی کی نشاندہی کرتی ہے۔سرمایہ کاری صرف براہ راست سرمایہ کاری تک محدود نہیں رہتی۔ دوسری اور تیسری اقسام—پورٹ فولیو سرمایہ کاری اور حکومتی قرضہ جاتی سرمایہ کاری—دنیا بھر میں کسی ملک کی معاشی ساکھ کا اہم پیمانہ ہوتی ہیں۔ لیکن ان دونوں کا حال بھی بدتر ہے۔ پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں ایک سو ساٹھ ملین ڈالر کی خالص کمی ہوئی، جو گزشتہ سال کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ حکومتی سطح پر ملنے والی سرمایہ کاری میں تو انتہائی تشویش ناک کمی دیکھنے میں آئی: گزشتہ سال دو سو تراسی ملین ڈالر کی آمد کے مقابلے میں اس سال تین سو اناسی ملین ڈالر کی منفی تبدیلی۔ یوں تمام اقسام کی غیر ملکی سرمایہ کاری ملا کر دیکھیں تو مجموعی سرمایہ کاری میں بیاسی اعشاریہ پانچ فیصد تک کمی ہو چکی ہے—صرف دو سو نو ملین ڈالر باقی رہ گئے ہیں، جبکہ گزشتہ برس ایک ارب ڈالر کے قریب سرمایہ ملک میں آیا تھا۔یہ صورتحال اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ پاکستان کے بیرونی مالیاتی نظام کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ ترسیلات زر اگرچہ ایک مضبوط سہارا ہیں، مگر ان پر اس قدر انحصار کبھی صحت مند معاشی انتظام کا حصہ نہیں رہا۔ ترسیلات زر کا کام بیرونی کھاتوں کے بوجھ کو کم کرنا ہوتا ہے، نہ کہ پورے ملک کی معیشت کو سہارا دینا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری جو قرضہ پیدا نہیں کرتی بلکہ ترقی و پیداوار کو بڑھاتی ہے—وہی آج ملک میں ناپید ہے۔اکتوبر میں سرمایہ کاری کے اعداد و شمار نے وقتی طور پر کچھ مثبت تاثر ضرور پیدا کیا، کیونکہ ماہانہ بنیادوں پر سرمایہ کاری بائیس فیصد بڑھی۔ لیکن اس ’’بہتری‘‘ کا سبب یہ نہ تھا کہ سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا بلکہ اس ماہ سرمایہ باہر کم نکلا۔ چارٹ میں بہتری کا مطلب تھوڑا سا ’’خون کم بہہ جانا‘‘ ہے—نہ کہ زخم بھر جانا۔ مجموعی رجحان اب بھی شدید منفی ہے۔
یہ تمام اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان نہ صرف نئی سرمایہ کاری لانے میں ناکام ہو رہا ہے بلکہ موجودہ سرمایہ کاری کو برقرار بھی نہیں رکھ پا رہا۔ سرمایہ کار صرف اس بات سے گھبرا کر نہیں جا رہے کہ معاشی حالات خراب ہیں—بلکہ وہ اس سے زیادہ خوفزدہ ہیں کہ حکومت کے پاس کوئی قابلِ اعتبار حکمتِ عملی، واضح پالیسی، یا انتظامی صلاحیت موجود نہیں جس پر سرمایہ کاری کی بنیاد رکھی جا سکے۔ پالیسی بدلنے کی رفتار تیز ہے، وعدے بار بار بدلے جاتے ہیں، ٹیکس نظام غیر واضح ہے، بجلی اور گیس کی قیمتیں ہفتہ وار بنیادوں پر بڑھتی ہیں، اور کاروباری ماحول غیر پیش گوئی کا شکار ہے۔ ایسے میں کون سرمایہ دار اپنی دولت لگا کر اسے خطرے میں ڈالے گا؟
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کا خاتمہ ترقی کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ نہ صنعتوں میں نئی مشینری لگتی ہے، نہ روزگار بڑھتا ہے، نہ برآمدات۔ جب بیرونی سرمایہ کاری نہیں آتی تو اندرونی سرمایہ بھی خوفزدہ ہو جاتا ہے—نتیجتاً پورا نظام جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔
یہ بحران ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم معاشی انتظام پر گہری نظر ڈالیں۔ حکومت نے اکثر نئے اہداف، منصوبے، یا سرمایہ کاری کے وعدے کیے، مگر نہ مستقل مزاجی دکھائی نہ اصلاحات کا عملی ثبوت۔ سرمایہ کاری اعتماد سے آتی ہے—اور اعتماد ایک دو دن میں قائم نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ٹھوس انتظامی ڈھانچہ، شفاف قوانین، سبسڈی اور رعایتیں نہیں بلکہ استحکام چاہیے۔
اس وقت ملک کے پاس مزید جھٹکے برداشت کرنے کی گنجائش نہیں۔ ذخائر دباؤ میں ہیں، بیرونی قرضے بڑھ رہے ہیں، مقامی صنعتیں سکڑ رہی ہیں، اور عالمی سطح پر بھی معاشی مقابلہ سخت ہوتا جا رہا ہے۔ کسی بھی قسم کی بیرونی مدد یا قرض وقتی سہارا ہے—مستقل حل نہیں۔ پاکستان کو فوراً اپنی معاشی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ سرمایہ کاری کا یہ بحران ملکی بقا کے بڑے بحران میں بدل جائے گا۔
ملک کی معیشت اس وقت صرف ایک چیز کا مطالبہ کرتی ہے: پالیسی کا تسلسل، مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ، اور ایک ایسی حکمتِ عملی جو سرمایہ کار کو یہ باور کرا سکے کہ پاکستان میں اس کا سرمایہ محفوظ ہے، اسے فائدہ ہوگا، اور ماحول غیر یقینی نہیں۔ جب تک یہ تین بنیادی شرائط پوری نہیں ہوں گی، بیرونی سرمایہ کاری کا بحران مزید گہرا ہوتا جائے گا، اور پاکستان کی معاشی آزادی محدود سے محدود تر ہوتی چلی جائے گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی گراوٹ محض ایک معاشی اشارہ نہیں بلکہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے—اور وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں