پاکستان کی داخلی سلامتی کی صورتِ حال ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں خطرات کی پیچیدگی بڑھتی جا رہی ہے، دشمن زیادہ منظم ہو رہے ہیں، اور ریاستی اداروں کی حکمتِ عملی اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہے۔ ریاست جو طریقے برسوں سے آزما رہی ہے—چیک پوسٹیں، ناکے، شہر بند کرنا، انٹرنیٹ جام کرنا، وی وی آئی پی پروٹوکول کی آڑ میں پورے شہروں کو جام کر دینا—یہ سب ایسے اقدامات ہیں جو نہ صرف ناکام ثابت ہو رہے ہیں بلکہ عام شہریوں کے لیے اذیت کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ دہشت گردی روکنے کے نام پر بنائے گئے یہ حفاظتی حصار نہ دہشت گردوں کو روکتے ہیں اور نہ ہی عوام کے اعتماد کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ اقدامات شہری آزادیوں کو محدود کرتے ہیں، کاروبار کو نقصان پہنچاتے ہیں، اور ایک ایسا تاثر دیتے ہیں کہ ریاست کے پاس اس بڑھتے ہوئے چیلنج کا کوئی بامعنی حل موجود نہیں۔اسلام آباد اور کوئٹہ کے حالات اس ناکامی کی دو نمایاں مثالیں ہیں۔ دونوں شہروں میں حکومت اور سکیورٹی اداروں نے بھاری وسائل لگا رکھے ہیں، بھاری نفری تعینات ہے، سیف سٹی کیمروں پر اربوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں، اور ہر روز لوگوں کو چیک پوسٹوں پر گھنٹوں گزارنے پڑتے ہیں۔ لیکن اگر نتائج دیکھے جائیں تو ایک شہر نسبتاً محفوظ جبکہ دوسرا مسلسل دہشت گردوں کا ہدف بنا ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ وسائل کا نہیں، طریقہ کار کا ہے—اور وہ طریقہ کار اب وقت کے ساتھ غیر مؤثر ہو چکا ہے۔اسلام آباد میں جنوری دو ہزار اکیس سے اب تک چھ حملے ہوئے، جن میں اکیس افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ حملے چھوٹے پیمانے پر تھے—زیادہ تر پولیس اہلکاروں یا مضافاتی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ لیکن گیارہ نومبر کا حملہ اس حقیقت کا اعلان تھا کہ دفاعی حصار پھٹ چکا ہے۔ ضلعی عدالتوں میں ہونے والا یہ حملہ نہ صرف بارہ جانیں لے گیا بلکہ یہ بھی ثابت کر گیا کہ دہشت گرد محفوظ ترین سمجھے جانے والے علاقوں تک پہنچ سکتے ہیں۔لیکن اگر اسلام آباد کے مقابلے میں کوئٹہ کو دیکھا جائے تو صورتحال کئی درجے زیادہ پُرتشدد نظر آتی ہے۔ اسی عرصے میں وہاں ایک سو باون حملے ہوئے جن میں دو سو چونسٹھ افراد مارے گئے۔ کوئٹہ کے اہداف بھی وسیع ہیں: عام شہری، علما، سرکاری افسران، قبائلی زعما، سیاسی کارکن، حتیٰ کہ مذہبی اقلیتیں بھی مسلسل نشانہ بنتی رہی ہیں۔ وہاں دشمن بھی متنوع ہیں—بلوچ مسلح تنظیمیں، داعش، لشکرِ جھنگوی، تحریکِ طالبان پاکستان، اور کئی چھوٹے جنگجو گروہ۔ یہ تعداد اور تنوع بتاتے ہیں کہ ریاستی سکیورٹی ڈھانچے کی موجودہ حکمتِ عملی زمینی حقیقت کے مقابلے میں نہایت محدود اور ناکافی ہے۔دونوں شہروں میں بڑھتے ہوئے حملے یہ واضح کرتے ہیں کہ دہشت گرد گروہ وقت کے ساتھ اپنے طریقے بدل چکے ہیں، جبکہ ریاستی اداروں کی حکمتِ عملی ایک ہی دائرے میں گھوم رہی ہے۔ چیک پوسٹیں، کیمرے، خفیہ نگرانی اور انٹرنیٹ جام کرنا—یہ سب ظاہری حفاظتی اقدامات ہیں، جنہیں دہشت گرد آسانی سے چکمہ دے دیتے ہیں۔ سکیورٹی اداروں کی ’’نظر آنے والی طاقت‘‘ وقت کے ساتھ کمزور ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ دشمن اب چھپ کر وار نہیں کرتا بلکہ براہِ راست انہی کمزوریوں کو ہدف بناتا ہے جو ان ظاہری حفاظتی اقدامات میں موجود ہیں۔اسلام آباد میں شہریوں کی مایوسی اور کوئٹہ میں خوف کا پھیلاؤ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی ناراضگی بھی ایک بڑی خطرناک لہر جنم لے رہی ہے۔ شہر بند کرنا، راستے سیل کرنا، پروٹوکول کی وجہ سے گھنٹوں ٹریفک روک دینا—یہ سب عام لوگوں کے لیے اذیت ناک تجربات ہیں، جو نہ صرف ریاست پر اعتماد کو کمزور کرتے ہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ دہشت گردی صرف بندوق سے نہیں روکی جاتی؛ اس کے لیے عوام کا اعتماد، شہری تعاون، حکمتِ عملی میں جدت اور سیاسی یکجہتی بھی ضروری ہے۔ریاست کے پاس اس وقت ایک اور محاذ بھی ہے: طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنا کہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان اور دیگر گروہوں کی سرپرستی بند کرے۔ گزشتہ دنوں پاکستان نے واضح کر دیا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت کی بحالی، سرحدی تعاون اور خطے کے بڑے توانائی منصوبوں کا مستقبل کابل کے رویے سے مشروط ہے۔ لیکن کابل کو ملنے والا یہ پیغام مؤثر ثابت نہیں ہو رہا۔ افغان نائب وزیرِ اعظم برادر کی جانب سے پاکستانی راستہ چھوڑ کر دیگر تجارتی راستے اختیار کرنے کا اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا دباؤ کام نہیں کر رہا۔ یہ کشمکش دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مجموعی حکمتِ عملی پر سوالیہ نشان چھوڑ دیتی ہے۔یہیں وہ نکتہ اہم ہو جاتا ہے جسے ریاست مسلسل نظر انداز کرتی ہے—دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف بندوق، بارود، ناکوں اور چیک پوسٹوں سے نہیں جیتی جا سکتی۔ یہ جنگ سیاسی بصیرت، علاقائی اتحاد، شفاف پالیسیوں، عوامی اعتماد، ٹیکنالوجی کے جدید استعمال اور حکمتِ عملی کی مسلسل تبدیلی سے جیتی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ہر بار خوف، دباؤ اور طاقت کے نمائشی استعمال کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ریاستی اہلکار اپنی حفاظت کے لیے وسیع ترین حصار کھڑے کر لیتے ہیں، سرخ زون وسیع کر دیے جاتے ہیں، لیکن عوام کو روزمرہ زندگی میں ناقابلِ برداشت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس دوہرے معیار نے عوام اور ریاست کے درمیان فاصلہ پیدا کر دیا ہے۔اگر سکیورٹی ادارے انسانی وسائل، ٹیکنالوجی، مالیاتی نگرانی اور انٹیلی جنس کو حقیقی معنوں میں مربوط کر دیں تو انہیں ناکوں اور چوکیدارانہ سکیورٹی کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ جدید دنیا میں سکیورٹی کا مؤثر ماڈل وہی ہے جہاں کم نظر آنے والی مگر زیادہ مؤثر تکنیکیں استعمال کی جاتی ہیں، جیسے ڈیٹا تجزیہ، مالیاتی سراغ رسانی، مشکوک نقل و حرکت کی ٹیکنالوجی سے شناخت، اور اہداف کی بنیاد پر کارروائیاں۔پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ صرف دہشت گرد نہیں—بلکہ وہ سماجی نفسیاتی دباؤ بھی ہے جو عدم تحفظ، بے بسی اور ریاستی ناکامی سے پیدا ہوتا ہے۔ کوئٹہ میں خوف اور اسلام آباد میں غصہ—یہ دونوں کیفیات ریاست کی پالیسیوں کی ناکامی کی علامت ہیں۔ عوام بار بار یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اگر ریاست اپنے عوام کو محفوظ نہیں کر سکتی تو پھر ان تکلیف دہ حفاظتی بندوبست کا فائدہ کیا ہے؟ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اپنی سکیورٹی حکمتِ عملی کو ازسرِ نو ترتیب دے۔ علاقائی رابطے سے لے کر داخلی سکیورٹی تک ہر میدان میں بہتر ہم آہنگی اور جدید طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کو عوام کے اعتماد کی بحالی، شفافیت، بہتر تربیت، ٹیکنالوجی کے استعمال اور زمینی حقائق کی بنیاد پر حکمتِ عملی تشکیل دینی چاہیے۔ بصورتِ دیگر نہ صرف دہشت گرد اپنی کارروائیاں بڑھاتے رہیں گے بلکہ عوامی بے چینی بھی ایک بڑے سیاسی بحران میں تبدیل ہو جائے گی۔دہشت گردی صرف جسمانی نقصان نہیں پہنچاتی—یہ ریاست کے اداروں کو کمزور کرتی ہے، عوام کے اعتماد کو توڑتی ہے اور معاشرے کو خوف اور بے یقینی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اگر پاکستان اس خطرے کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو اسے فرسودہ طریقوں کے بجائے دانش، دور اندیشی اور شفاف پالیسیوں کا سہارا لینا ہوگا۔ یہی راستہ ہے جو داخلی سلامتی کو مضبوط بنا سکتا ہے اور ملک کو مسلسل عدم استحکام کے دائرے سے باہر نکال سکتا ہے۔







