خطرناک موڑ: معدنیات کی دنیا میں نیا سیاسی توازن

پاکستان کے معدنی وسائل ہمیشہ سے ہمارے لیے امید کا دروازہ بھی رہے ہیں اور ایک ایسا میدان بھی جہاں عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے صف بندی کرتی رہی ہیں۔ تازہ ترین پیش رفت — پانچ سو ملین ڈالر کے مفاہمتی یادداشت کا امریکی ادارے یو ایس اسٹریٹجک میٹلز اور پاکستان کی سرکاری ادارے ایف ڈبلیو او کے درمیان دستخط ہونا — اسی حقیقت کو ایک بار پھر منظرِ عام پر لے آیا ہے کہ معدنیات کا معاملہ اب محض زمین کے نیچے دفن خزانے کا نہیں رہا، بلکہ عالمی سیاست کے سب سے نازک توازن کا حصہ بن چکا ہے۔یہ معاہدہ بظاہر پاکستان کے لیے سرمایہ کاری، جدید ٹیکنالوجی، روزگار اور ترقی کی نئی راہیں کھولنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں نایاب ارضی عناصر اور اہم معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ان وسائل کی سائنسی بنیادوں پر تلاش، استخراج اور پراسیسنگ کے لیے ابھی تک جدید ٹیکنالوجی، تربیت یافتہ افرادی قوت اور مضبوط انتظامی ڈھانچے سے محروم ہیں۔ ایسے میں امریکہ کے ساتھ شراکت داری بلاشبہ ایک ایسا دروازہ کھول سکتی ہے جو ہمیں عالمی معدنیاتی منڈی میں بہتر مقام دے سکتی ہے۔ لیکن یہ تصویر اتنی سادہ نہیں۔اس نئے معاہدے سے سب سے زیادہ ارتعاش چین میں محسوس ہو رہا ہے — وہ چین جو پاکستان کی معدنیات کی تلاش، سی پیک، ریکوڈک جیسے منصوبوں اور بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ستون رہا ہے۔ چین کی ناراضی، شکوک، اور عدم اعتماد اس لیے بھی بڑھ سکتے ہیں کہ امریکہ اور جاپان حالیہ برسوں میں چین کی معدنیاتی برتری کا توڑ کرنے کے لیے متحرک ہو چکے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کا واشنگٹن کے ساتھ ہاتھ ملانا بیجنگ کے لیے ایک واضح اشارہ ہے کہ اسلام آباد اپنی پالیسی میں تنوع لانا چاہتا ہے۔یہ تنوع ضرور مفید ہو سکتا ہے — لیکن اسی کے اندر خطرہ بھی پنہاں ہے۔ماہرین نے درست کہا کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے معاشی امکانات لاتا ہے، لیکن سفارتی سطح پر ایک نئی کشمکش بھی پیدا کرے گا۔ اگر چین نے اپنے بڑے منصوبوں، سرمایہ کاری، یا اشتراک میں کمی کر دی تو پاکستان ایک ایسے خلا میں جا سکتا ہے جسے صرف امریکہ پُر نہیں کر سکے گا۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی بیرونی قرضوں، ادھوری اصلاحات اور کمزور برآمدی ڈھانچے کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ چین اگر بُرا مانے تو اس کے اثرات ہماری مالیاتی، تجارتی اور صنعتی دنیا پر بہت گہرے ہوں گے۔پاکستان کے سامنے اس وقت سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا ہم اس نئی عالمی صف بندی میں دونوں طرف کا اعتماد برقرار رکھ سکتے ہیں؟ یا پھر ہم بھی اس دوڑ کا حصہ بن جائیں گے جس میں چھوٹے ملکوں کی خارجہ پالیسی طاقتوروں کی خواہشات کے بوجھ تلے دب جاتی ہے؟ریکوڈک کا معاملہ ہمارے سامنے ہے۔ کئی برسوں سے چینی کمپنیاں وہاں سرگرم ہیں۔ اگر انہیں یہ تاثر ملا کہ امریکہ کی شرکت سے ان کی جگہ کم ہو رہی ہے، یا پاکستان کسی نئے عالمی بلاک کی طرف جھک رہا ہے، تو اس کے نتائج دور رس ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ تجزیہ کاروں نے واضح طور پر کہا کہ چینی کمپنیاں شدید ناگواری میں منصوبے چھوڑ کر جا سکتی ہیں۔ ایسے میں پاکستان دو طرفہ نقصان کا شکار ہوگا — ایک جانب امریکی مفادات، دوسری جانب چینی شکوک، اور درمیان میں ہمارے اپنے معدنی ذخائر جو سیاسی کھینچا تانی کی نذر ہو جائیں گے۔پاکستان جیسے ملک کے لیے یہی اصل امتحان ہے:کیا ہم ایک ایسا ماڈل تعمیر کر سکتے ہیں جہاں سرمایہ کاروں کی آمد بھی ہو، عالمی طاقتوں کے درمیان توازن بھی رہے، اور ہمارے اپنے وسائل کا کنٹرول بھی ہاتھ سے نہ نکلے؟بدقسمتی سے ہماری تاریخ اس سوال کا جواب بہت واضح کرتی ہے — ہم اکثر عالمی طاقتوں کے فیصلوں کا بوجھ اٹھاتے ہوئے اپنے مقامی مفادات کو قربان کر دیتے ہیں۔کچھ ماہرین نے بجا طور پر نشاندہی کی کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ہمیشہ یک طرفہ رہے، جن میں واشنگٹن نے اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ ڈرون حملے، افغان جنگ، اتحادی امداد اور پھر مفادات کی تبدیلی — ان تمام تجربات نے پاکستان کو یہی سکھایا کہ امریکی پالیسی میں استحکام کم ہوتا ہے اور تبدیلی تیز۔ اس کے مقابلے میں چین کا اشتراک زیادہ مستقل، سادہ اور شرائط سے پاک رہا ہے۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین کی سرمایہ کاری نے پاکستان میں ٹیکنالوجی منتقلی، مقامی تربیت، یا معدنیات کی گھریلو پروسیسنگ میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائی۔ چین کا ماڈل بنیادی طور پر اپنے اسٹریٹجک مفادات پر مبنی رہا۔ اس پس منظر میں امریکہ کے ساتھ اشتراک ایک موقع بھی ہے — بشرطیکہ اسے پالیسی نااستحکامی، سفارتی غلط بیانی اور غیر شفاف معاہدوں سے آلودہ نہ ہونے دیا جائے۔اصل مسئلہ یہی ہے: ہماری ریاست کی کمزور انتظامی صلاحیت، غیر شفافیت، سیاسی تقسیم، اور ادارہ جاتی کمزوری ہمیں عالمی کھلاڑیوں کے درمیان اعتماد کے ساتھ کھڑا ہونے نہیں دیتی۔ جب مقامی حکومتیں خود معدنیات کی نگرانی، ماحولیات کے تحفظ، مقامی آبادی کے حقوق، یا شفاف معاہدوں پر عمل درآمد نہیں کرا سکتیں، تو پھر عالمی طاقتیں اس کمزوری کو اپنے مفاد میں استعمال کرتی ہیں۔پاکستان کو اب فیصلہ کرنا ہے:کیا ہم معدنی وسائل کا یہی پرانا ماڈل جاری رکھیں گے — جس میں غیر ملکی کمپنیاں فائدہ اٹھائیں اور مقامی آبادی مٹی چباتی رہے؟یا ہم ایک ایسا ماڈل اختیار کریں گے جس میں سرمایہ کاری ہو، لیکن کنٹرول پاکستان کا ہو، فائدہ پاکستان کو ملے، اور فیصلہ پاکستان کرے؟ایف ڈبلیو او کا اس معاہدے میں شامل ہونا کچھ حد تک ریاستی نگرانی کی علامت ضرور ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس پورے عمل کو شفاف بنا پائے گی؟ کیا مقامی آبادی کو شریک کیا جائے گا؟ کیا ماحولیاتی معیارات پر سختی سے عمل ہوگا؟ کیا عالمی طاقتوں کے درمیان توازن برقرار رکھا جائے گا؟اگر یہ سب نہ ہوا، تو یہ معاہدہ محض ایک نئے بحران کی بنیاد بن سکتا ہے۔پاکستان کی معدنیات اس خطے کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔ مگر اگر ہم نے موقع ضائع کیا، تو یہی ذخائر دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان کشمکش کا میدان بن جائیں گے۔ وقت ہے کہ ہم دانشمندی، شفافیت، اور مضبوط خارجہ حکمتِ عملی سے قدم بڑھائیں۔ ورنہ ایک بار پھر ہمارے اپنے وسائل دوسروں کے ہاتھوں کی بندوق بن جائیں گے — اور پاکستان محض ایک خام مال فراہم کرنے والی ریاست کی صورت اختیار کر لے گا۔یہ اسی تلخ حقیقت کی یاد دہانی ہے:معدنیات کی جنگ میں کمزور ملکوں کا مستقبل صرف اسی وقت محفوظ رہتا ہے جب وہ اپنی پالیسی خود بنائیں — کسی کے کہنے پر نہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں