(جرم وانصاف) تحریر؛ شعیب افتخارجوئیہ
محکمہ پنجاب پولیس ’’مٹی پائو‘‘ پالیسی پر عمل پیرا ہوتا دکھائی دے رہی ہے۔ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس تفتیش اور کرائم کنٹرول کے بنیادی مقصد کو چھوڑ کر صرف پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اس چہرے کو سوشل میڈیا کے ذریعے تبدیل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں جو شاید ان کے بطور آئی جی تعیناتی کے دوران کئے گئے اقدامات کے ذریعے داغدار اور عام شہریوں کے دلوں میں ایسے گھائو لگا گیا ہے جو کئی دہائیوں تک نہ بھرسکے۔ جس طرح لوگوں کے گھروں میں گھس کر ان کی مائوں ، بہنوں ، بیٹیوں کی تذلیل اس دور میں پولیس کے ذریعے کی گئی ہے وہ آج سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملی۔ بات ہورہی تھی پولیس کی جانب سے بہتری کے اقدامات کی ، پنجاب بھر میں غربت اور مہنگائی کے باعث وارداتوں میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کرائم گراف کئی گنا بڑھ گیا ہے جسے روکنے کیلئے آئی جی پنجاب سمیت کوئی افسر سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہا اور یہی پولیس کا اصل کام ہے کہ جرائم پر قابو پائے لیکن پنجاب بھر میں حالات اس کے برعکس ہیں۔ آئی جی پنجاب نے افسران کو ٹک ٹاکر بنانے کی ٹھان رکھی ہے۔ پنجاب میں افسران نے وڈیوز شوٹ کرنے کیلئے علیحدہ سٹاف رکھ لیا ہے اور اب وہ روزانہ کی بنیاد پر نت نئی وڈیوز بنانے کی تیاریوں میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ اس وقت پیش آیا جب گلگشت ڈویژن میں ایک دم ’’افراتفری‘‘ ہوتی دکھائی دی۔ جب کسی سے پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ آر پی او ملتان کی آمد ہے۔ افسران نے فوری کرائم کی صورت حال سے آگاہ کرنے کے لئے کام مکمل کیا۔ سب انتظار میں تھے کہ وہ آکر تمام تر ریکارڈ ملاحظہ کریں گے ، کرائم کی سنگین ہوتی صورتحال کا جائزہ لیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ آر پی او ملتان گشت ڈویژن پہنچے تو تھانہ کوتوالی جو ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے ، پر ایک وڈیو شوٹ کرائی اور چل دیئے۔ اس بارے نیوز جاری نہ ہونے پر قلمکار نے آر پی او آفس رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ صرف وڈیو بنانے گئے تھے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں ایک ٹک ٹاک وڈیو کے ذریعے معلوم ہوا کہ ضلع خانیوال میں پنجاب کا سب سے بہادر ، ایمانداراور دبنگ ایس ایچ او بھی تعینات ہے جس کی تعریف خود ڈی پی او خانیوال عمر فاروق آئی جی پنجاب سے کرتے دکھائی دیئے۔ وہ شوٹنگ کے دوران ایس ایچ او کی تعریف میں اتنے آگئے نکل گئے کہ آئی جی پنجاب کو انہیں ٹوکنا پڑگیا۔رہا مذکورہ ایس ایچ و کے کنڈکٹ اور کارکردگی کا تو سب جانتے ہیں۔ ڈی پی او خانیوال ایس ایچ او بارے تعریف کررہے تھے جو محکمہ پولیس میں ’’فاطمہ کے بھائی قائداعظم‘‘ کے دوست کے نام سے مقبول ہیں جبکہ ان کے والد کی تعریف بھی کی تو انہیں شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ آخری بار ایس پی گلگشت کے ہاتھوں محکمانہ تنزلی کے بعد سب انسپکٹر سے اے ایس آئی ہوچکے ہیں اور حوالدار بننے سے چند دوستوں کی کوششوں سے بچ گئے۔ ڈی پی او خانیوال کے اس اقدام سے یہ بات واضح ہے کہ وہ اپنے ضلع میں کتنی گرفت رکھتے ہیں اور کتنے دیانت دار ہوں گے۔
خیر بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ ہم تو بات بھونڈے کی کررہے تھے۔ چند روز قبل ملتان پولیس میں پٹرول کی کمی بارے بھی نشاندہی ہم نے ہی کی اور کچھ دن پہلے ملتان پولیس کے ترجمان نے بھی اپنے جاری کردہ بیان میں اس کی تصدیق کردی اور پھر دیکھنے میں آیا کہ محافظ سکواڈ کی گشت کو بہتر کرنے کیلئے ملتان پولیس نے نئی موٹرسائیکلیں خرید کی ہیں اور ایک بار پھر میں حیران ہوا ، پھر سوچا شاید پٹرول کا بحران ختم ہوچکا ہوگا لیکن دو روز قبل پولیس لائن کے پمپ پر ایک جوان کو نئی موٹرسائیکل میں پٹرول ڈلواتے دیکھا اور جب اسے مبارک باد دی کہ تمہیں نئی موٹرسائیکل مبارک ہو تو وہ کہنے لگا ، جناب نئی موٹرسائیکل تو مل گئی ہے ، کاش اسے چلانے کیلئے پٹرول بھی دستیاب ہوجائے۔ میں نے کہا ، پٹرول مل تو رہا ہے پھر اس نے بتایا کہ 6 گھنٹے کی گشت کے لئے صرف ایک لٹر پٹرول محکمہ کی جانب سے ملا ہے باقی ’’عوام کی جیب‘‘ سے ڈلوانے بار ےاحکامات موصول ہوئے ہیں۔ وہیں جب دوسری طرف نظر پڑی تو ایک ملازم پرچی کاٹتا دکھائی دیا۔ اس کے قریب گیا تو معلوم ہوا وہ ایک سی ایس پی افسر کے ڈبل کیبن ڈالے کو فل کرانے کیلئے کھڑا ہے۔
ملتان شہر اور گرد و نواح میں کرائم کی بڑھتی ہوئی صورت حال پولیس کنٹرول سے باہر ہوچکی ہے اور ایسے موقع پر تھانوں میں سفارشی چٹوں کےذریے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کرپٹ ترین ایس ایچ اوز لگوانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک آرڈر جاری ہونے پر میں بے ساختہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ایک ایسے پولیس ملازم کو ایک ایسے تھانے میں بطور ایس ایچ او تعینات کیا گیا جو پیشہ ور ڈاکوئوں کی آماجگاہ کہلاتی ہے جہاں سے بڑے بڑے نامور ڈاکو ملتان شہر میں وارداتیں کرتے اور نکل جاتے ہیں۔ وہاں ایسے شخص کو تعینات کیا گیا جسے میں حوالدار کے دور سے جانتا ہوں۔ جو پانچ روپے بھی نہیں چھوڑتا ، اپنے مرحوم استاد کا جملہ یاد آگیا جو اس حوالدار جو آج آئی جی پنجاب کے پروموشن کے ریلے میں تھانیدار بن گیا ہے پر فٹ آتا ہے کہ وہ ’’سانپ کی کھمب‘‘ سے بھی پیسے اٹھالے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا جبکہ اس کی تعیناتی کے آرڈر پر ایک صحافی دوست نے سوشل میڈیا پر یہ جملہ کہہ کر بات ہی ختم کردی تھی کہ ’’اب تھانہ صدر شجاع آباد کا اللہ حافظ ہے‘‘۔ جس پر میرے ذہن میں آیا کہ ملتان پولیس کا بھی اللہ حافظ ہے۔
خیر چند روز قبل ملتان میں تعینات ایس پی گلگشت بابر جاوید جوئیہ کو ایس ایس پی کے عہدے پر ترقی ملی ہے جو آئندہ کسی ضلع میں ڈی پی او لگ جائیں گے۔ یہ سن کر خوشی محسوس ہوئی۔ ان کی ملتان تعیناتی اور وہ بھی گلگشت ڈویژن جو قبضوں اور بھاری لین دین کے حوالے سے کافی مشہور ہے ، میں ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ بابر جوئیہ نے ایک بہترین پروفیشنل پولیس آفیسر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ان کی تعیناتی برسوں یاد رکھی جائے گی۔ ان کے خلاف وہ کرپٹ ٹولہ جس کی دال نہ گل سکی ہ، وہ بھی سخت روییے کی بات کرتا تو دکھائی دیا لیکن کرپشن یا اختیارات سے تجاوز کی بات نہ کرسکا ہے۔ بابر جوئیہ سے آئندہ بھی اسی قسم کی جرأت مندانہ نوکری کی امید بھی ہے اور دُعائیں بھی ان کے ساتھ ہیں۔
اور بھی بہت کچھ لکھنے کو تھا لیکن کالم کی سطریںاجازت نہیں دیتی۔ آئندہ کے کالم میں ایک ایسا واقعہ قارئین کی کی نذر کروں گا جو اگر اس وقت لکھتا تو شاید ملتان پولیس میں ایک بھونچال برپا کردیتا۔ کسی کو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑجاتے ، عوام کا پولیس سے یہ اعتماد اٹھ جاتا کہ یہی ہیں ہماری عزت ، جان و مال کے محافظ ۔