تحریر:میاں غفار(کار جہاں،قسط اول)
پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی بطن سے دو پارٹیاں نکلیں جن میں سے ایک کو عمران خان نے از خود بڑی کوشش اور “حکمت” سے نکالا جبکہ دوسری ’’دبائو‘‘ میں آ کر نکلی اور بغیر کسی ایجنڈے کے نکلی ۔ ایک کی جڑیں پاکستان کی 60 فیصد آبادی والے صوبہ میں مضبوطی پکڑ رہی ہیں اور دوسری کا اثر و رسوخ خیبر پختونخواہ میں ہے جہاں ہمیشہ ہی سے سیاسی اثر و رسوخ تقسیم در تقسیم رہا ہے اور کبھی بھی کسی پارٹی کو عمران خان کے علاوہ واضح اکثریت گزشتہ چار دہائیوں میں نہیں مل سکی۔ ان دونوں جماعتوں میں ایک استحکام پاکستان پارٹی ہے اور دوسری کا نام پی پی پی پارلیمنٹیرین کی مکھی پر مکھی مارتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین رکھا گیا ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے قیام کا باضابطہ اعلان تو چند ماہ قبل ہوا مگر ذہنی اور شعوری طور پر اس کا قیام پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے پہلے سال ہی میں عمل میں آ چکا تھا کہ ہم خیال اور “متاثرین انصاف” نے آپس میں سوچ و بچار شروع کر رکھی تھی کیونکہ وہ جہانگیر ترین کہ جنہوں نے شدید علالت اور ضعف کے باوجود دن رات اپنے جہاز کو اومنی بس بنا کر ملک بھر میں دوڑایا اور ایسے ایسے اراکین اکٹھے کرکے عمران خان کی جھولی میں ڈال دیئے جن کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے ۔2018 کے الیکشن سے قبل ہی لوئر، اپر اور جنوبی پنجاب میں وزیر اعلیٰ کیلئے عبدالعلیم خان کا نام سامنے آ چکا تھا اور انتخابات کے نتائج آنے پر تو ہر کسی کی زبان پر بطور وزیر اعلیٰ انہی کا نام تھا۔ تحریک انصاف کو اصل عروج 2011ء میں مینار پاکستان کے جلسے میں ملا اور 2011ء سے 2018ء تک عبدالعلیم خان ہی عمران خان کے واحد انویسٹر تھے۔ جبکہ جہانگیر ترین بعد میں سرگرم ہوئے اور انہوں نے اصل سرگرمی الیکشن کے بعد جیتنے والوں کے جوڑ توڑ کے موقع پر دکھائی۔
مگر ہوا الٹ۔ کہتے ہیں کہ دو نکمے طالب علموں نے سکہ ہوا میں اچھالا اور کہا کہ اگر چاند آیا تو وہ فلم دیکھنے جائیں گے اور اگر دوسری طرف کا روپیہ لکھا ہوا آیا تو وہ ڈرامہ دیکھیں گے اور سکہ کھڑا ہو گیا تو بیٹھ کر پڑھیں گے ۔پھر صاف اور ہموار زمین پر بھی سکہ کھڑا ہو گیا اور عثمان بزدار نام کے سیاسی ان پڑھ نے سب کو پڑھنے ڈال دیا ۔ عثمان بزدار محترمہ بشریٰ صاحبہ کی دریافت تھی کیونکہ میرے پاس اس کی فسٹ ہیڈ اور انتہائی ابتدائی دنوں کی انفارمیشن ہے ۔ عبدالعلیم خان کے ساتھ انہیں اسلام آباد بلا کر اور یہ بتا کر کہ آپ وزیر اعلیٰ ہوں گے عمران خان نے آخری موقع پر ایسا یو ٹرن لیا کہ جہاں سب کو حیران کر دیا وہاں پہلی سٹوک میں ہی سب پر اپنی ’’سیاسی بصیرت اور دور اندیشی‘‘ کا پول کھول دیا ۔ بات یہی ختم ہوجاتی تو شاید کچھ بچ جاتا مگر علیم خان کابینہ میں سینئر وزیر ہوتے ہوئے بھی کھڈے لائن لگا دیئے گئے پھر بھی جب تسلی نہ ہوئی تو ان کی وزارت کے جھنڈے سے ڈنڈا نکال کر انہی پر چلا دیا اور ان کی وزارت نیب کی حراست میں تبدیل ہو گئی۔ پھر پنجاب پر بشریٰ بی بی ، فرح گوگی ، احسن جمیل گجر اور خاوند اول خاور مانیکا کی ہلا شیری سے بزدار کا وار ہر طرح اور ہر طرف کھلایا کھلا کر چلنے لگا۔
عمران خان کے قریب ترین دوسرا اہم ترین مہرہ جہانگیر ترین تھے اور ان کے ہوتے ہوئے بعض مفاد پرستوں کے مفادات پر زرد پڑتی تھی لہذا جہانگیر ترین بھی ٹارگٹ ہوئے اور عمران خان کا یہ مضبوط بازو بھی کاری گروں کی کاری گری کی وجہ سے کٹ کر دور جا گرا۔ ملک بھر کی طرح جنوبی پنجاب میں بھی عمران خان مقبول تو ہوئے مگر اس خطے کے لوگوں کو ان سے بہت بڑا شکوہ ہے کہ 90 دن میں علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ انہوں نے نہ صرف بھلا دیا بلکہ اس حوالے سے بنائی جانے والی کمیٹی میں ایسے لوگ شامل کر دیئے جنہوں نے اس ایشو کو بری طرح الجھایا اور مذاق بنا کر رکھ دیا حتیٰ کہ ریجنل سیکرٹریٹ بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔ملتان اور بہاولپور میں سیکرٹری حضرات کو شیٹل کاک بنا دیا گیا مگر کسی کو کوئی اختیار نہ دیا اور اس ریجنل سیکرٹریٹ میں بیٹھے افسران کی حیثیت ہاتھوں کی چھٹی اضافی انگلی سے زیادہ نہ رہی جس کا فائدہ تو ہوتا نہیں البتہ بوجھ ہی محسوس ہوتی رہتی ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے مگر استحکام پاکستان پارٹی کے قیام کا “کریڈٹ” عمران خان اور بنی گالا کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے ہیروں جیسے دوستوں کا خوبصورت ہار اپنے ہی ہاتھوں توڑ کر بالآخر خود کو بھی ٹوٹے ٹوٹے کر لیا ۔ استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہونے کے خواہش مند امیدواروں کے ذہن بن رہے ہیں اور علیم خان کے بااعتماد دست راست اکرم چوہدری تو گزشتہ دو سال سے سرگرم ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اس لائن میں کھڑا ہونے والے کب اپنی اپنی ٹکٹ کٹوانا شروع کرتے ہیں اور استحکام پاکستان پارٹی کا حصہ بنتے ہیں