آج کی تاریخ

Let him die in the chair

تنقید نہیں تقلید جناب

تحریر : میاں غفار(کار جہاں)

پرانے زمانے میں گھروں پر شیو کرنے کا رواج بہت ہی کم تھا۔ افسران اور زمیداروں کے گھروں پر علی الصبح حجام آ جایا کرتے تھے جو شیو کرتے اور بار بار استرے کو ایک چمڑے کی پٹی پر تیز کرتے ۔تب حجام تو تقریباً ہر گھر میں سب بچوں کی حجامت کیلئے مہینے میں ایک بار تو ضرور ہی آیا کرتا تھا ۔بال گھروں کے باہر دوکانوں پر جا کر کٹوانے کا رواج نہ تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک حجام علی الصبح تھانے دار کہ تب تھانے دار کی بہت عزت و احترام ہوتا تھا آج وہ عزت و احترام ڈی آئی جی حضرات بھی انجوائے کرنے کا تصور نہیں کر سکتے۔ تب محافل ہوا کرتی تھیں، فارم ہاوسز کے تخلیے نہیں ہوتے تھے۔ بات ہو رہی تھی تھانے دار کی کہ علی الصبح جب حجام تھوڑی دیر کرکے تھانے دار کی حجامت کرنے آیا تو اس نے گھر کے اندر شور سنا، آگے بڑھا تو پتہ چلا کہ تھانے دارنی (اس زمانے میں تھانے دار کی بیوی تھانے دارنی کہلاتی تھی) تھانے دار کو گالیاں دے رہی ہے اور اچھی خاصی عزت افزائی فرما رہی ہے۔ وہ خاموشی سے اس ڈر سے واپس چلا آیا کہ اب باہر آ کر تھانے دار ساراغصہ اسی پر نکالے گا کہ پانی ہمیشہ نچلی جانب ہی جاتا ہے۔ اب تھانے دار حجام کا انتظار کرتے کرتے مزید غصے میں بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ ہی تھانے آ گیا اور سپاہی کے ذریعے حجام کولینے بھیجا۔ حجام آیا تو تھانیدار نے گرجدار آواز میں پوچھا تم شیو کرنے کیوں نہیں آئے حجام کہنے لگا حضور میں اپنے گھر سے آپ کے گھر جانے کیلئے نکلا کسی بات پر میری گھر والی لڑ پڑی اور لگی گالیاں دینے۔ تھانے دار بولا، بکواس بند کر آجکل گھر گھر یہی حال ہے ۔
ویسے تو عمومی طور پر ہر طرف اسی قسم کے حالات ہیں ۔مگر افسران کے گھروں پر زیادہ گھنبیرصورتحال ہے۔ کون نہیں جانتا کہ فرح گوگی کے احکامات کےحوالے سے چیف منسٹر آفس کے سیکرٹری ٹو سی ایم بزدار طاہر خورشید نے علیہدہ سے عملہ رکھا ہوا تھا۔ ڈیفنس میں فرح گوگی کے گھر صوبے بھر سے ڈیل ماسٹر آتے تھے۔ فرح گوگی کے گھر کے نواح میں میرے ایک دوست بھی رہائش پذیر ہیں۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ فرح گوگی کے گھر میں رات کو دن چڑھ آتا تھا اور ایسی ایسی کلاس کے لوگ اور گاڑیاں آتیں کہ بیان سے باہر ہے۔ اس کے گھر پرائیویٹ سکیورٹی کے علاوہ سرکاری گارڈ بھی تعینات ہوتے جو کس حیثیت میں تھے یہ تو قیدی نمبر 804 ہی بتا سکتے ہیں اور ضلع شیخوپورہ جو کہ فرح کا آبائی ضلع ہے کا مکمل کنٹرول فرح گوگی ہی کے پاس تھا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہر مہینے ایک آدھ بار تو لازمی اس گھر میں بشریٰ عرف پنکی پیرنی جلوہ افراز ہوتی تھیں اور مریدین کی محافل سجائی جاتی تھیں مگرحیران کن طور پر یہ محافل اقتدارکے خاتمے کے ساتھ یہ ختم ہو گئیں کہ سارے نور بے نور ہو چکے ہیں
میں ان پولیس افسران کو جانتا ہوں جن کی تعیناتیاں فرح گوگی ہی کی کرامات کے صدقے ہوا کرتی تھی اور رہا معاملہ طاہر خورشید کا تو ترقیاتی کاموں کی سرپرستی ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ مظفرگڑھ میں ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے انہوں نے کہاں کہاں اراضی خریدی، کس محکمے نے اس کی ڈویلپمنٹ کی اور کہاں سے فنڈز آئے، کیسے پرائیویٹ اراضی پر سرکاری فنڈز سے سڑکوں کا جال بچھا، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سی ایم ہاوس جانے والے جو منظر کشی کرتے تھےتو میری
پرانی یادیں تازہ ہو جاتی تھیں۔ لاہور میں راوی لنک روڈکی سبزی منڈی یاد آجاتی تھی علی الصبح کیلے کے ٹرکوںپرکھڑے ہوکرہرلنگرکی علیحدہ علیحدہ بولیاںلگتی تھیں اوربولی لگانے والا جس گاہک کی طرف اشارہ کردیتا،لنگراسی کاہوجاتاپھروہی منظرمیں نے سردارعثمان بزدارکے دورمیںچیف منسٹرہائوس میںطاہرخورشید کی زیرنگرانی دیکھا۔
بات چلی تھی چیف جسٹس آف پاکستان فائزعیسی کی اہلیہ کی حلف کے دوران سٹیج پرموجودگی اورخاموشی سے حلف کاحصہ بننے کی مگربات نکل اورطرف گئی۔بہت سی باتوںپرپردے ڈال دیےجاتے ہیں۔کیا سہیل ٹیپومرحوم جوکہ ڈپٹی کمشنرگوجرانوالہ تھے نے اپنی اہلیہ کے رویے سےخودکشی نہیں کی تھی؟کیا ڈی پی اوننکانہ نے اپنی بیوی کے رویے سے اپنی کنپٹی پرفائرنہیں مارلیاتھا؟ کیاشارق جمال جیساباکمال شاعراوردبنگ آفیسراپنی کاروباری فیملی کی لاہوری بیوی کے رویے سے نالاں نہیںتھا۔
پہلے تو یہ بیگمات،لاہوراوراسلام آبادکے مہنگےعلاقوںمیں شاپنگ کرکے ہی اپنا رانجھا راضی کرلیتی تھی ۔اب تو دبئی،ترکی اورلندن سے کم پربات ہی نہیں ٹھہرتی۔میں ایک آفیسرکی بیٹی کی شادی کے معاملات سے آگاہ ہوںکہ تمام تر شاپنگ دبئی اورلندن سے کی گئی اورہنی مون کیلئے دبئی ،سویٹزرلینڈاورمالدیپ میںعالی شان سٹوڈیواپارٹمنٹس بک کروائے گئے۔
اس ملک کی بد قسمتی یہی رہی یہاں روپے والوںکےفیصلے ڈالروالے کرتے ہیں اوراس ظالمانہ عمل کاآغاز میاںنوازشریف نے ڈالراکائونٹ کھولنے کی اجازت دے کرکیاتھا جسے بعد میں کسی نے روکنے کی کوشش اس لیے نہیں کی کہ ہربااختیار،بارسوخ اورصاحب حیثیت اسی سہولت سےمستفید ہوناچاہتاتھااورمسلسل تیس سال سے ہوبھی رہا ہے۔اشرافیہ امیر ترہوتی گئی اورپاکستان کنگال ہوگیا۔کینیڈا میں مقیم میرے ایک دوست کاموقف ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ پاکستان میں خرچ ہی نہیں ہوسکتی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں