آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

ستمبر یا ستمگر

تحریر : ڈاکٹر ظفر چوہدری (روداد زندگی)

اب میں صرف ڈاکٹر ظفر چوہدری ہی رہ گیا ہوں ماں ہوتی تو جفر پکارتی۔ کیا سادگی اور مٹھاس تھی اس لفظ جفر کی پکار کے سننے میں، مگر اب کہاں، ستمبر میں میرے بچے خاص کر بیٹیاں ہمیشہ یاد دلاتی ہیں کہ اماں کا برتھ ڈے ہے اور اب میرا نواسہ حیدر بلال اپنی نانوں کے ذریعے اپنے منتخب گفٹ کے ساتھ ستمبر میں اپنی سالگرہ کی یاد دہانی کرواتا ہے۔اس بار جب ستمبر آیا تو مجھے مرحوم شاعر عرش صدیقی صاحب کی مشہور نظم پھر دسمبر آ گیا یاد آئی جو کہ اکثر دسمبر کے مہینے میں سوشل میڈیا پر دیکھی جاتی ہے۔ ستمبر کے حوالے سے ہمارے دور حاضر کے خود ساختہ سیاسی عامل بابا محترم شیخ رشید بھی یاد آ گئے جو کہ گیٹ نمبر 4 کی پیداواری اور چوکیداری کو باعث فخر سمجھتے رہے ہیں اور پھر ستمبر کو ستمگر بھی کہا کرتے تھے۔ ویسے منہ سے نکلی بات کبھی کبھار سچ بھی ہو جاتی ہے اور اس مرتبہ شیخ صاحب کے اپنے لئے ستمبر ستمگر بن کر ان کی گرفتاری کا پیغام لے آیا۔ چونکہ ان کی سیاسی پیشین گویاں اسی چوکیداری کے طفیل موصول ہونے والی اطلاعات پر مبنی ہوتی تھیں تاہم موصوف آج کل خود اپنی’’ملازمت‘‘ کی بحالی کے لئے کسی عامل کی تلاش میں سرگرداں تھے کہ دھر لئے گئے اور چھپن چھپائی کا کئی ہفتوں سےجاری کھیل اپنے اختتام کو پہنچا۔ ستمبر میرے لئے ستمگر اس لئے بھی ہو گیا کہ افتخار فخر چھاوڑی گزشتہ سال 20 ستمبر کو اس فانی دنیا سے اسی دن رخصت ہوا۔ ہر رشتے کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ والد صاحب کو 35 سال اور والدہ صاحبہ کو 18 سال وفات پائے ہو چکے ہیں۔ کوئی ایسا دن نہیں جب وہ یاد نہ آئے ہوں۔ مجھے ہمیشہ محسوس ہوتا ہے کہ میرے والدین میرے آس پاس ہی کہیں ہیں اور وہ کبھی بھی مجھے تنہا نہیں چھوڑتے۔ ملک ماہی دا وسدا اے کوئی روندا اے کوئی ہسدا اے( دنیا آباد ہے کوئی رو رہا ہے کوئی ہنس رہا ہے) اس لئے ہر دن ہر ماہ ایک سا ہی ہوتا ہے مگر ہم اسے اپنی خوشیوں اور غموں کے حساب سے پرکھتے اور یاد رکھتے ہیں۔ اسی طرح افتخار فخر کی محفل شب کے سامان راحت کی موجودگی میں بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ میری ماں اور دادی کے علاوہ بندوستان میں رہنے والے چچا زاد بہن بھائی اور پاکستان میں بزرگ خواتین مجھے بچپن میں جفر ہی کے نام سے پکارتے تھے ۔ مجھے پھر سمجھ آیا کہ میں میری والدہ صاحبہ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد مجھے صرف افتخار فخر چھاوڑی جفر کے نام سے کیوں پکارتا تھا، وہ کتنے غیر محسوس انداز میں مجھے ماضی کی خوبصورت یادوں میں لے جاتا تھے۔ گزشتہ ایک سال سے کسی نے مجھے جفر نہیں کہا اور افتخار فخر کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی میں تو بس ڈاکٹر ظفر چوہدری ہی ہو کر رہ گیا ہوں۔ “یار من” کےعنوان سے میں افتخار فخر چھاوڑی بارے تفصیل سے اپنے کالمز لکھ چکا ہوں۔ مگر گزشتہ ایک سال سے مجھے کسی کی کمی محسوس ہوتی ہے تو وہ افتخار فخر چھاوڑی ہی ہے۔ میں نے جب اس بارے میں سوچا تو مجھے خیال آیا کہ شاید افتخار فخر اکثر کہتے تھے کہ تم ڈاکٹروں کی سیاست پی ایم اے وغیرہ چھوڑ کر عملی طور ملکی سیاست میں حصہ لو۔ شروع سے ہی وہ مجھے کہتے تھے کہ تمہیں وکالت یا صحافت کا شعبہ اختیار کرنا چاہئے۔ میں ہنس کر ٹال دیتا یا جواب دیتا کہ ہمارے طبقہ کے لئے علم برائے روزگار ہوتا ہے اور وقت کا دھارا جس طرف لے جائے ہم بہتے چلے جاتے ہیں۔ افتخار فخر مجھے ہمیشہ بھائی جفر کہا کرتا تھا۔ اپنی گفتگو کے آغاز میں ہمیشہ پہلے تین چار فقرے پنجابی اور اردو مکس کر کے ادا کرتا تھا۔جیسے کہ میں نے پہلے ہی کہیں ذکر کیا ہے کہ ہندی اور پنجابی میں ظ نہیں ہوتی یا ہوتا بلکہ ظ کی جگہ ج استعمال ہوتا ہے لہذا میں اپنے ہندوستان میں مقیم رشتے داروں اور والدہ کا جفر ہی رہا۔ جفر سے ظفر چوہدری کے سفر نے بہت کچھ دکھایا، سمجھایا اور تجربہ کرایا

شیئر کریں

:مزید خبریں