آج کی تاریخ

Let him die in the chair

تنقید نہیں تقلید جناب (قسط دوم)

تحریر : میاں غفار (کار جہاں)

یہ جو اٹک جیل میں قیدی نمبر 804 جس کا سارا ماضی کرپشن کے حوالے سے بے داغ تھا، کیا یہ بات کسی حد تک سچ نہیں کہ اپنی اہلیہ ہی کی وجہ سے قید کاٹ رہا ہے۔ عمران خان تو وہ آدمی تھا جو بٹوے اور پیسے کے بغیر محض پاسپورٹ پر دنیا گھوم آتا تھا۔ اس کے انتہائی قریبی دوست بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں اس کے ٹکٹ خرچنے والے، اُسے ایئر پورٹ سے لے کر ہر جگہ لےجانے والے، اُسے اگلی منزل تک کا ٹکٹ اور زادِ راہ دینے والے تو اس کے سیاست میں آنے سے پہلے ہی دنیا بھر میں موجود تھے اور آج بھی ہیں۔ اس قیدی نمبر 804 کو جس قسم کی رسائی برطانیہ کے بکھنگم پیلس تک تھی وہ آج تک برصغیر کے کسی بھی باسی کو نصیب نہ ہو سکی مگر ایک گھڑی اور دوسرا بزدار دونوں ہی دنیا کی سب سے پسندیدہ شخصیات میں شامل شخص کو اٹک جیل میں لے گئے۔ کون نہیں جانتا کہ کس طرح سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ہر عہدہ فروخت کیا ۔ حتیٰ کہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی پیسے لیکر تعینات کرنے کا عمل بزدار سردار ہی کا ایجاد کردہ ہے۔ کون نہیں جانتا کہ سردار عثمان بزدار صرف اور صرف بنی گالا ہی کو جواب دہ ہوتے تھے اور بنی گالا میں بھی صرف خاتون اول کو۔ یہ باتیں اس کالم نگار کو اسی کے دفتر میں بھولپن میں از خود سردار عثمان بزدار کے کار خاص نے بتائیں کہ ہم تو صرف بنی گالا میں پیرنی صاحبہ ہی کو جواب دہ ہیں۔
کاش کوئی عمران خان سے پوچھے تو اندھی تقلید میں یہاں تک کہہ جاتے تھے کہ مجھے تو وزیراعظم بشری بی بی نے بنایا ہے اور یہ باتیں وہ کسی عام محفل میں نہیں بلکہ وفاقی سیکرٹریوں کے اجلاس میں بھی کہ جاتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت پیرنی صاحبہ کا جادو چل گیا تو اب کیوں نہیں چل رہا کہ جس کے عمل سے مبینہ طور پر بھولا بادشاہ قیدی نمبر 804 کا ٹائیٹل پانے والا ملک کا وزیراعظم بنا۔ اس کے عمل سے اثرات کیوں الٹ ہو گئے ہیں۔ اب ان سطور کے بعد پی ٹی آئی کے کارکن اس کالم نگار کو گالیاں دیں گے کہ ان کے پاس دینے کے لیے اب کچھ باقی رہا ہی نہیں۔
صحافت کے ابتدائی دنوں میں میں روزنامہ جنگ سے وابستہ تھا کہ شیخوپورہ کے علاقے کا ایک ایم پی اے صفدر الحق ڈوگر عرف چھبا ڈوگر ڈیوس روڈ پر قتل ہو گیا۔اس کے ساتھ اس وقت چار مسلح سکیورٹی گارڈ تھے مگر وہ اپنے مالک کو بچا نہ سکے۔ روزنامہ جنگ کے اس دور کے نامی گرامی کرائم رپورٹر جمیل چشتی جو بعد میں جنگ ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔ میرے ساتھ جائے وقوعہ پر گئے پھر وہاں سے ہم تھانہ ریس کورس چلے گئے۔ تھانہ ریس کورس میں مقتول چھبا ڈوگر کے گارڈ جمیل چشتی سے الجھ پڑے تو جمیل چشتی نے ڈانٹتے ہوئے کہا یہ گن اصلی نہیں لگتی اصل ہوتی تو پہلے تم مرتے بعد میں چھبا ڈوگر۔ اُسے تو تم بچا نہ سکے کہاں گیا تھا اسلحہ اورکہاں گئی تمہاری اپنے مالک سے وفاداری۔
جو عوام کی محبت اور ووٹوں سے وزیراعظم بنا۔ ایک کاری گر خاتون وزارت عظمی کے دوران اسے یہ باور کرانے میں کامیاب ہو چکی تھی کہ وہ عوام کے ووٹوں سے نہیں میرے عملیات کے بل پر وزیراعظم بنے اورپھر پیچھے بیٹھ کر جو کھیل فرح گوگی، احسن جمیل گجر، خاور مانیکا اور عثمان بزدار کھیلتے رہے، دیگر معاملات کے علاوہ اس کے نتیجے ہی میں جناب عمران خان کو قیدی نمبر 804 کا ٹائیٹل ملا ہے۔ کیا اب محترمہ پنکی پیرنی ’’ولی کامل و عامل‘‘ نہیں رہیں۔ اب ان کا جادو کیوں نہیں چلتا۔ وقت ثابت کرنے گا کہ کس طرح سے یہ محترمہ واپسی کا راستہ نکالتی ہیں کہ ہر کس کو اپنے اصل کی طرف تو جانا ہی ہوتا ہے۔
خاور مانیکا ملتان میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں تھے تو کلمہ چوک جسے پل موج دریا کہا جاتا تھا کے قریب کسٹم کالونی میں خاور مانیکا اور بشری بی بی کی پر تکلف دعوتیں اور میوزیکل پروگرام کس کو یاد نہیں۔ کیا ملتان میں تعینات کئی سی ایس پی افسران ان عشائیوں کا حصہ نہیں ہوتے تھے ایک عورت کے لالچ نے عمران خان کو یہ دن دکھلا دیا کہ اس کی ٹیم کی اہم رکن فرح گوگی باہر بیٹھی لوٹ کا مال ہضم کرنے میں مصروف ہے۔ عثمان بزدار ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور “جو باقی ہیں وہ سب تیار بیٹھے ہیں”
جیل میں جب اکیلے میں انسان سوچتا ہے تو اسے سابقہ زندگی کی بہت سی غلطیاں یاد آتی ہیں اور انسان کے اپنے غلط فیصلے قید میں گھنگھرو باندھ کر رات کے اندھیرے میں اس کی آنکھوں کے سامنے رقص کرتے ہیں اور دماغ میں طبلے کی طرح ٹھیکہ لگاتے ہیں۔(جاری ہے)

شیئر کریں

:مزید خبریں