رودادِ زندگی ( ڈاکٹر ظفر چوہدری )
میں نے اس عنوان کے تحت گذشتہ دو اقساط میں جو عرض کیا ہے امید ہے کہ معزز قارئین اس پر غور فرمائیں گے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمیں جو خواب دکھائے گئے وہ سو فیصد سراب ثابت ہو چکے ہیں۔ یہ خواب دکھانے میں بین الاقوامی مقتدرہ کے ساتھ ساتھ ساتھ ہماری ریاستی مقتدرہ کو جو نظریاتی حمایت جماعت اسلامی نے بہم پہنچائی اس کا ذکر بھی میں “قیام پاکستان سے تقسیم پاکستان تک” کے علاوہ “حقیقت اور افواہ” کے زیر عنوان اپنے کالموں میں کر چکا ہوں۔ اگر آپ مزید جاننا چاہتے ہیں تو طارق قریشی صاحب کے کالم جماعت اسلامی کے بارے میں میری فیس بک وال پر پڑھ سکتے ہیں۔ طارق قریشی صاحب 13 سال کی عمر سے اسلامی جمعیت طلباء کے متحرک رکن رہے اور پھر جماعت اسلامی میں بھی کافی عرصہ شامل رہے۔ انہوں نے تقریباً 90 فیصد سچ لکھ دیا ہے۔ 10 فیصد شاید اسی لئے نہیں لکھا کیونکہ طارق قریشی میں رواداری ہے اور وہ دوست نواز شخصیت کے مالک ہیں اس کے علاوہ انہوں نے ہر دور میں مخالف نظریات کارکنوں اور رہنمائوں سے بھرپور تعلقات قائم رکھے ہیں۔
کیا یہ درست نہیں کہ ہمارے نبی رحمت العالمین تھے، رحمت المسلمین کے سانچے میں محدود نہ تھے، میرے خیال میں اسلام میں سب سے پہلے تو ہمیں انسان بننا پڑتا ہے جس کا واضع مقصد ہے کہ جو کچھ وہ اپنے لئے چاہتا ہے وہ دوسروں حتہ کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کیلئے بھی پسند کرے یعنی انصاف اور رواداری‘ مسلمان ہونا تو انسانیت سے بڑھ کر ہے یعنی وہ اپنا حصے کا رزق جو کہ صرف مال و دولت ہی نہیں‘ علم اور بھائی چارہ بھی ہے‘ خوش اخلاقی‘ مخلص دوست رشتے دار، اچھی صحت معاشرتی مقام بھی تو رزق ہی ہے۔ گو کہ اور بھی بہت سے ہیں۔ اب جو یہ رزق دوسرے لوگوں میں بانٹ دے وہ حقیقی مسلم ہے مگر عملی طور پر ہمیں مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ نفرت میں دھکیل کر تقسیم در تقسیم کر دیا گیا۔
ہمارا دین ہمیں علم حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ تحقیق جستجو اور کائنات کے اسرار و رموز جاننے کا کہتا ہے اس کے برعکس ہم نے روایات اور اپنے آبائو اجداد کے ’’کارناموں‘‘ میں پناہ لی ہوئی ہے اس کے علاوہ ہم ظالم اور لٹیرے بادشاہوں کو مجاہدین اسلام کا لبادہ پہنا کر عظمت رفتہ کے خوابوں میں ڈوبے ہوئے ہیں حالانکہ بچپن میں یہ شعر اکثر سنا کرتے تھے؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا۔
مجھے علامہ اقبالؒ کی نظم پنجابی مسلمان یاد آ گئی۔
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرے کوئی منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تاہ پل کا پھندہ کوئی سیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
پنجابی مسلمانوں کے بارے میں علامہ اقبال نے درست فرمایا تھا یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے عوام نے ان سب باتوں کے باوجود کبھی بھی مذہبی جماعتوں کو الیکشن میں قبول نہیں کیا یا بالفاظ دیگر اپنی قیادت کے لئے قبول نہ کیا۔ 1970ء کے انتخابات میں صرف 6 فیصد ووٹ مذہبی جماعتوں کو ملے تھے حالانکہ جماعت اسلامی کو اس وقت کی مقتدرہ کی پوری حمایت حاصل تھی۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان میں سیکولر اور جمہوری آئین ہونے کے باوجود ہندو ازم کی سب سے بڑی پیروکار مودی سرکار وجود میں آ گئی۔ ہندوستان کے دوست کہتے ہیں اس کی وجہ بھی پاکستان کی مقتدرہ کی بھارت دشمنی اور ہندوستان کی طرف سے مصالحت کی ہر کوشش کو ٹھکرانا ہے۔
ہم تو مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر بھارتی ظلم کا جواب دینا چاہتے تھے ہم نے چیچنیا اور بوسنیا میں مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے ظلم کے خلاف اپنے ہی ملک میں ’’جہاد‘‘ کیا پھر افغانستان میں روسی اور امریکی حملے کے خلاف ’’سینہ سپر‘‘ ہو گئے اور اپنے 70 ہزار سویلین اور فوجی شہید کرا لئے، اب طالبان اپنے آبائو اجداد ’’غزنوی‘‘ اور ’’ابدالی‘‘ کی صورت میں ہمارے مدمقابل آ چکے ہیں۔ آج 30 لاکھ افغانی اور ان کی اولادیں اس مملکت خداداد کا حصہ بننے اور ہمارے ہی وسائل پر پلنے کے باوجود ہمارے وجود کے در پے ہیں۔ ( یاد رہے کہ دو لاکھ بہاری جو اسلام اور پاکستان کی محبت میں مکتی باہنی کا حصہ نہیں بنے تھے انہیں پاکستان میں جگہ نصیب نہیں ہوئی جو بہت ہی مظلوم اور بے چارگی کے عالم میں دھائیوںسے ہیں)۔ یہ سب ہمارے آنکھوں میں سجائے گئے خوابوں ہی کا نتیجہ ہے۔
یہ کہاوت کے مطابق ہمارے ساتھ ہوا۔ ( کھر دا جوگی جوگ نہ‘ بار دا جوگی سدھ ) یعنی اپنے گھر کی حالت ٹھیک نہیں اور دوسروں کے گھروں کے حالات درست کرنے کا خود ساختہ ٹھیکہ اٹھانا۔
ہمیں قومی غیرت کا خواب مسلسل دکھایا گیا حالانکہ ریاست کوئی دوشیزہ نہیں ہوتی۔ ریاست کی غیرت نہیں قومی مفادات ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر بشیر قمر جو کہ میرے دوست ہیں، نے کہا کہ ظفر تم جو باتیں 1982/83ء میں کرتے تھے مجھے بہت غصہ آتا تھا ( یاد رہے کہ ڈاکٹر بشیر قمر صاحب بھی اسلامی جمعیت طلباء اور جماعت اسلامی کا حصہ رہے ہیں ) مگر تم سچ کہتے تھے ہم نے مذہبی منافرت کا جو سفر شروع کیا تھا اب ہم خود اسی فرقہ وارانہ آگ کی نذر ہو چکے ہیں۔
مولانا حسرت موہانی کا میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں۔ تقسیم ہند کے وقت انہوں نے کہا تھا کہ میں ہندوستان میں کافروں کے ہاتھوں مسلمان ہو کر مرنا پسند کروں گا بجائے اس کے پاکستان میں ’’مسلمانوں‘‘ کے ہاتھوں کافر ہو کر مارا جائوں۔ اسی طرح مولانا عبید اللہ سندھی نے قیام پاکستان سے پہلے اپنی بیٹی کے پوچھنے پر کہ آپ پریشان دکھائی دیتے ہیں، کہا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد کالے انگریز اور جاگیردار اس ملک کا انگریزوں سے زیادہ برا حال نہ کر دیں۔
کیا کمال کے اہل نظر لوگ تھے کہ جنہوں نے مملکت خداداد پاکستان کے مستقل کا نقشہ بہت پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔