ملتان (سٹاف رپورٹر) ایف آئی اے کوئٹہ کے عنایت نامی انسپکٹر خانیوال میں مقامی پولیس کے ہمراہ چھاپہ مار کر راجہ اسد محمود نامی ایک انسانی سمگلر کے گھر سے بغیر کسی اندراج مقدمہ کے 300 تولے سونا اور 15 کروڑ روپیہ برآمد کرکے اسے گرفتار کرنے کے بعد کوئٹہ لے گئے۔ کوئٹہ سے مذکورہ ملزم کو ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد طلب کر لیا گیا جہاں بغیر کارروائی کے چند دن بعد اسے چھوڑ دیا گیا مگر رہائی پاتے ہی اسد محمود نے اسلام آباد کے ایک وکیل راجہ رضوان عباسی کے ذریعے ایف آئی اے کے اہلکاروں کے خلاف 22 اے کے تحت مقدمہ درج کروانے کی کوشش کی مگر اسلام آباد کی سول کورٹ سے جب درخواست خارج ہو گئی تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ دوسری طرف ایف آئی اے ملتان نے راجہ اسد محمود کا جب ریکارڈ چیک کیا تو گزشتہ چند سال کے دوران خانیوال کے رہائشی اس شخص راجہ اسد محمود کے مختلف اکاؤنٹس میں خلیجی ریاستوں سے مجموعی طور پر 87 کروڑ روپیہ ہنڈی حوالے کے ذریعے ٹرانسفر ہوا تھا اس پر ایف آئی اے ملتان نے علیحدہ سے تحقیقات شروع کر دیں مگر بعد میں اسلام آباد کی کامیاب ڈیل کے بعد ملتان آفس نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کا اپنی مرضی کا مطلب نکال کر انکوائری روک دی حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے رٹ پٹیشن نمبر 2850 برائے سال 2025 کے تحت 22 جولائی کو حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے آٹھ دن بعد یعنی 30 جولائی 2025کی پیشی ڈال کر یہ حکم دیا تھا کہ ان آٹھ دنوں کے دوران پٹیشنز کے خلاف کوئی غیر قانونی اقدام نہ کیا جائے مگر اسی دوران ایف آئی اے ملتان کے اینٹی منی لانڈرنگ ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے ساتھ معاملات طے پا گئے جس کے بعد راجہ اسد محمود سے پراپرٹی اور 87 کروڑ روپے کی منی ٹریل کی طلبی کا معاملہ بھی ڈپٹی ڈائریکٹر نے ٹھپ کر دیا اور 87 کروڑ روپے بذریعہ ہنڈی پاکستان لائے جانے کے معاملے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کا اپنی مرضی کا مطلب نکالتے ہوئے انکوائری روک دی گئی۔ راجہ اسد محمود کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ضلع خانیوال اور گرد و نواح کے مختلف ان پڑھ لوگوں کو چھوٹے موٹے کام کروانے کے بہانے دبئی لے جا کر ان کے اکاؤنٹ کھلواتا اور دبئی کے بینکوں سے قرض لے کر معمولی رقم انہیں دے کر واپس پاکستان بھجوا دیتا اور اصل رقم خود رکھ لیتےتھے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مقدمہ درج ہونے کے بعد انسپکٹر عنایت روپوش ہو چکا ہے جبکہ دو بندے جیل میں ہیں اور مڈل مین میاں چنوں کا رہائشی عدنان جو کہ اس وقت اٹک میں ایک ٹاؤن ڈ ویلپ کر رہا ہے، نے ڈیل کے تحت لیا گیا چار کروڑ روپیہ واپس کرکے خود کو کلیئر کروا لیا ہے جبکہ ایف آئی اے کوئٹہ کے انسپکٹر عنایت کو اس کی درخواست پر خانیوال پولیس کے جس سب انسپکٹر محمد علی کی سرکاری طور پر اس کے ساتھ ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ وہ ایف آئی اے کے عملے کے ساتھ ریڈ پر جائے، اب سارا نزلہ اس پر گرا دیا گیا ہے اور اس پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ چار کروڑ روپیہ وہ بھی لے جا چکا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ وقوعہ خانیوال کا ہے کیونکہ راجہ اسد محمود خانیوال سے گرفتار کیا گیا تھا مگر مقدمہ اسلام آباد میں درج ہو گیا۔ اب ایف آئی اے افسران خانیوال کے پولیس ملازم محمد علی کے گرد گھیرا تنگ کیے ہوئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس ڈیل کے بعد ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سرکل کے افسران اور ملزم راجہ اسد محمود کے آپس میں اتنے گہرے مراسم پیدا ہو گئے ہیں کہ اسد دفتر میں آ کر افسران کو پھول پیش کرتا ہے اور اسد نئی گاڑی خریدتا ہے تو ایف ائی افسران خاص طور پر مبارکباد دینے اس کے گھر جاتے ہیں۔







