آج کی تاریخ

غزہ کا مستقبل، غیر واضح منصوبے اور اسرائیلی عزائم — مسلم ممالک کیلئے فیصلہ کن لمحہ

غزہ میں جاری تباہی، بے گھری اور انسانی المیے کے پس منظر میں وہ منصوبہ جسے کچھ حلقوں نے ’’خطے کو بدل دینے والی چال‘‘ قرار دیا تھا، آج اپنی کمزور بنیادیں واضح طور پر ظاہر کر رہا ہے۔ ایک ماہ سے زائد گزرنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ غزہ میں مکمل جنگ بندی کارگر ثابت نہیں ہوئی، بلکہ اسرائیل مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس دوران امریکی صدر کے مجوزہ منصوبے کے تحت غزہ میں جس ’’بین الاقوامی استحکام فورس‘‘ کے تعینات کرنے کی بات کی گئی تھی، وہ اب ایک پیچیدہ اور غیر یقینی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔مسلم ممالک، جو ابتدا میں اس منصوبے کے ممکنہ حصہ دار تھے، اب سنگین تحفظات کا شکار ہیں۔ عرب ریاستیں اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کا واضح مؤقف ہے کہ اگر اس خطے میں کوئی غیر ملکی دستہ تعینات کیا جائے تو اسے اقوام متحدہ کی مکمل نگرانی، شفاف مینڈیٹ اور فلسطینی عوام کے حقیقی مطالبات — بالخصوص مکمل ریاستی حق — کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ روس اور چین بھی اسی مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ کسی بھی بیرونی فوج کی تعیناتی اقوام متحدہ کی سرپرستی کے بغیر ناقابل قبول ہوگی۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ فورس اقوام متحدہ کے واضح مینڈیٹ کے بغیر تعینات ہوتی ہے تو اسے اسرائیلی اور امریکی مفادات کے نفاذ کا ذریعہ سمجھا جائے گا، نہ کہ غزہ کے عوام کی حفاظت اور بحالی کے لیے کوئی غیر جانب دار امن فورس۔ اسرائیل نے جنگ بندی کے بعد سے اب تک کم از کم 240 فلسطینیوں کو قتل کیا ہے۔ اگر ’’جنگ بندی‘‘ کا یہ حال ہے، تو بغیر کسی مضبوط نگرانی کے مستقبل کے حالات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔امریکی منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنے کا تصور بھی شامل ہے، جو عملی طور پر نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ بلکہ خطرناک بھی ہے۔ یہ کوشش کہ مسلمان ممالک کی افواج حماس کو اسلحہ ڈالنے پر مجبور کریں — یعنی وہ کام کریں جو اسرائیل ناکام رہا — خطے میں مزید تباہی، سیاسی انتشار اور مسلم دنیا میں سنگین ردعمل کا باعث بنے گا۔ یہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں کہ فلسطینیوں کی مزاحمت کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کے لیے مسلمان ممالک کو استعمال کیا جائے۔مسلم ممالک اور پاکستان کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا وہ ایسے منصوبے میں شامل ہوں جس کے بنیادی نکات ہی مبہم ہیں۔ بنیادی سوالات کے جواب کہیں موجود نہیں — کیا یہ فورس اسرائیلی حملوں سے غزہ کے عوام کا دفاع کرے گی؟ یا اس کا مقصد صرف اسرائیل کی ’’سلامتی‘‘ ہوگا؟ کیا یہ فورس فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرے گی؟ یا اسرائیلی پالیسیوں کو مزید تقویت دے گی؟ جب تک ان سوالوں کے واضح جواب نہ مل جائیں، کسی بھی فوجی شمولیت کا فیصلہ غلط ہوگا۔اس پس منظر میں ایک اور سنگین خطرہ ’’پیلا خطہ‘‘ ہے — وہ غیر اعلانیہ حد بندی جس کے مطابق اسرائیل تقریباً نصف غزہ پر قبضہ برقرار رکھے گا جبکہ باقی علاقے پر حماس کا کنٹرول ہوگا۔ یورپی حکام کے مطابق امریکی منصوبہ عملی طور پر رک چکا ہے، اور تعمیر نو کا سلسلہ صرف اسرائیلی کنٹرول والے علاقے تک محدود رہے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ غزہ کی تقسیم کا خطرہ حقیقت کا روپ دھارنے کے قریب ہے۔تصویر خوفناک ہے:— اسرائیل اب بھی غزہ کے 53 فیصد علاقے پر قابض ہے— لاکھوں فلسطینی خیموں اور ملبے میں زندگی گزار رہے ہیں— تعمیر نو کا کوئی واضح نقشہ موجود نہیں— اسرائیل حماس کو غیر مسلح کرنے پر بضد ہے— حماس غیر مسلح ہونے سے انکاری ہے— فلسطینی انتظامیہ کو اسرائیل تسلیم کرنے سے انکاری ہے— عرب ممالک اسرائیلی کنٹرول والے علاقوں کی تعمیر نو پر آمادہ نہیں— سرمایہ کاری اور وسائل کے بارے میں مکمل ابہام ہےیہ وہ حالات ہیں جن میں کسی بھی ملک کی افواج کو شامل کرنا نہ صرف سیاسی طور پر خطرناک بلکہ اخلاقی طور پر بھی ناقابل جواز ہوگا۔ پاکستان کے لیے یہ خطرہ دوگنا ہے: ایک طرف فلسطینی عوام پاکستان کو اپنے قابل اعتماد حمایتی کے طور پر دیکھتے ہیں، اور دوسری طرف پاکستان خطے میں کسی ایسے اقدام کا حصہ نہیں بن سکتا جو فلسطینی حقِ خودارادیت کو کمزور کرے۔حماس نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ تعمیر نو کے لیے فلسطینی تکنیکی حکومت کے لیے تیار ہے، مگر اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کی موجودگی کو مسترد کرتا ہے۔ ایسے میں تعمیر نو کے لیے نہ سیٹ اپ ہے نہ وسائل، جبکہ تخمینوں کے مطابق غزہ کی تعمیر نو کے لیے 70 ارب ڈالر درکار ہیں۔غزہ کے شہریوں کا خوف بھی حقیقی ہے۔ اگر تعمیر نو صرف اسرائیلی قابض حصے میں ہو تو کیا لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں وہاں منتقل ہونے پر مجبور ہوں گے؟ کیا اسرائیل ’’اچھے‘‘ اور ’’برے‘‘ فلسطینیوں کی درجہ بندی کر کے ان کی نقل و حرکت محدود کرے گا؟ کیا خاندان ایک بار پھر تقسیم ہوں گے؟ یہ سوالات ابھی تک جواب نہیں پا سکے۔اصل نکتہ یہ ہے کہ جب تک فلسطینی ریاست کے قیام کی واضح ضمانت نہیں ملتی، کوئی بھی فورس، کوئی بھی منصوبہ، کوئی بھی تعمیر نو — سب محض دکھاوا ہے۔لہٰذا پاکستان اور مسلم ممالک کو چاہیے کہ:— واضح طور پر اقوام متحدہ کے مکمل مینڈیٹ کا مطالبہ کریں— فلسطینی ریاست کے قیام کو ہر فیصلے کی بنیاد بنائیں— اسرائیلی نگرانی والے کسی منصوبے سے مکمل دوری اختیار کریں— حماس کو غیر مسلح کرنے کی کسی کوشش میں شریک نہ ہوں— تعمیر نو کے عمل کو صرف مضبوط فلسطینی قیادت کے تحت آگے بڑھایا جائے— غزہ کی تقسیم اور پیلے خطے کو سختی سے مسترد کریںفلسطین کی آزادی ایک انصاف کا مسئلہ ہے، کوئی سفارتی کھیل نہیں۔ غزہ کے مستقبل کا فیصلہ متاثرہ عوام کریں گے، نہ واشنگٹن اور نہ تل ابیب۔ پاکستان کا تاریخی مؤقف یہی ہے — اور اسی پر قائم رہنا چاہیے کہ جہاں ظلم ہو، وہاں خاموشی جرم ہے۔ غزہ کی تعمیر نو، اس کے عوام کی حفاظت اور فلسطینی ریاست کا قیام وہ واحد راستہ ہے جو خطے میں پائیدار امن لا سکتا ہے۔ اس سے کم کوئی حل غزہ کو مزید قید، مزید تقسیم اور مزید تباہی کی طرف دھکیل دے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں