دنِ ذیابیطس اس سال اس موقع پر آیا ہے جب ایک نئی عالمی تحقیق نے ہمارے سامنے وہ تلخ حقیقت رکھ دی ہے جسے ہم برسوں سے نظر انداز کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ذیابیطس کے مریض نہ صرف ایک بڑھتے ہوئے طبی بحران کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ انہیں روزگار، معاشرتی رویوں اور ادارہ جاتی بے حسی کی شکل میں شدید امتیاز کا بھی سامنا ہے۔ بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں اُس ملک کے طور پر ابھرا ہے جہاں ملازمت کے مقامات پر ذیابیطس کے مریضوں کے ساتھ سب سے زیادہ منفی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ محض ایک اعداد و شمار کی خبر نہیں بلکہ ایک قومی المیہ ہے۔تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان میں 68 فیصد ملازمین جنہیں ذیابیطس ہے، اپنے کام کی جگہ پر کسی نہ کسی شکل میں امتیازی سلوک کا شکار ہوئے۔ یہ امتیاز صرف ذاتی یا اخلاقی مسئلہ نہیں بلکہ ریاستی، سماجی، اور صحتِ عامہ کی مشترکہ ناکامی ہے۔ پاکستان پہلے ہی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں ذیابیطس کا بوجھ سب سے زیادہ ہے۔ 3 کروڑ 30 لاکھ بالغ افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں، جبکہ تقریباً 89 لاکھ ایسے ہیں جنہیں معلوم ہی نہیں کہ وہ ذیابیطس کے شکار ہیں۔ یہ بحران خاموشی سے پوری قوم کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے، مگر اصل درد کی کہانی بچوں سے شروع ہوتی ہے۔بین الاقوامی اندازوں کے مطابق دنیا میں 18 لاکھ کے قریب بچے اور نوعمر افراد قسم اوّل کی ذیابیطس میں مبتلا ہیں — اور پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں میں اس بیماری کی تشویش ناک بڑھوتری دیکھی جا رہی ہے۔ مقامی ماہرینِ اطفال یہ بھی بتا رہے ہیں کہ شہروں میں نوعمروں میں قسم دوم کی ذیابیطس بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کی بنیادی وجوہات ناقص غذا، سست طرزِ زندگی اور حفاظتی نظام کی شدید کمزوریاں ہیں۔ ان بچوں کو آنے والے برسوں میں صحت، تعلیم، روزگار اور سماجی برابری سب محاذوں پر مضبوط مدد کی ضرورت ہوگی۔ مگر جس معاشرے میں بالغ مریضوں کو بھی حقارت، تضحیک اور ناروا رویوں کا سامنا ہے، وہاں مستقبل کے یہ نوجوان کس امید کے سہارے زندہ رہیں گے؟رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 58 فیصد ملازمین نے ذیابیطس کے باعث امتیازی رویے کے بعد ملازمت چھوڑ دینے کا سوچا، جبکہ نصف سے زیادہ افراد کو ضروری طبی وقفوں یا علاج کے لیے چھٹی دینے سے انکار کیا گیا۔ قسم اوّل کی ذیابیطس کے مریضوں — جن میں زیادہ تر بچے شامل ہوتے ہیں — کے لیے یہ حالات اور بھی تکلیف دہ ہیں۔ تقریباً تین چوتھائی افراد نے بتایا کہ انہیں گلوکوز چیک کرنے یا انسولین لگانے جیسے بنیادی اور زندگی بچانے والے عمل کے لیے بھی وقفہ نہیں دیا جاتا۔ اس طرح کے رویے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ وہ ہماری آنے والی نسلوں کے ذہنی و معاشرتی مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔یہ صورتحال بچوں کے لیے خاص طور پر سنگین ہے۔ اگر ایک بچہ یہ سمجھتے ہوئے بڑا ہو کہ اس کا مرض شرمندگی کی بات ہے، یا اسے چھپانا ضروری ہے، تو وہ بالغ ہو کر اپنی بیماری کے بارے میں بتانے سے ہچکچائے گا — اور یہی رویہ تحقیق میں سامنے آیا ہے: صرف ایک میں سے بیس ملازمین نے اپنے آجر کو اپنی بیماری کا بتایا۔ یہ خاموشی دراصل خوف کا اظہار ہے، اور اگر معاشرہ اس خوف کو ختم نہ کرے تو ہم اپنے لاکھوں نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگا رہے ہیں۔پاکستان اس خاموش تباہی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ذیابیطس کے شکار افراد کے علاج کا خرچ پہلے ہی صحت کے نظام کو بوجھ تلے دبا چکا ہے۔ ہزاروں خاندان معاشی طور پر تباہ ہو رہے ہیں۔ بچے اگر بروقت علاج نہ پائیں تو ان کے دل، گردے، آنکھیں اور اعصاب مستقل نقصان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی جسمانی نشوونما رک جاتی ہے، ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے، اور تعلیم و معاشی بہتری کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں۔ یہ صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک پوری قوم کا نقصان ہے۔ہمیں اعتراف کرنا ہوگا کہ ذیابیطس کا بحران صرف طبی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی و معاشی حقیقت ہے — اور اس کا حل محض اسپتالوں میں نہیں، بلکہ اسکولوں، دفاتر اور گھروں میں بھی ہے۔ اداروں اور آجرین کو سمجھنا ہوگا کہ شمولیت کوئی خیرات نہیں بلکہ پیداواری اور صحت مند معیشت کی بنیاد ہے۔ لچکدار اوقات، گلوکوز چیک کرنے یا انسولین لگانے کے لیے نجی جگہ کا بندوبست، اور امتیازی سلوک کے خلاف سخت پالیسی — یہ وہ اقدامات ہیں جو نہ مشکل ہیں، نہ مہنگے، مگر لاکھوں زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔پاکستان میں ذیابیطس کے بحران کی شدت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ ہر سال لاکھوں نئے مریض سامنے آ رہے ہیں۔ اگر اس بیماری کے ساتھ ہونے والا امتیاز ختم نہ ہوا تو یہ بحران نسل در نسل منتقل ہوتا رہے گا۔ بچوں کو صحت مند، خوداعتماد اور باوقار زندگی کے لیے محفوظ ماحول چاہیے — نہ کہ وہ دفاتر جہاں انہیں بیماری چھپانے پر مجبور کیا جائے، نہ وہ اسکول جہاں انہیں الگ سمجھا جائے، اور نہ وہ گھر جہاں صحت کو اہمیت نہ دی جائے۔دنِ ذیابیطس اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان کا مسئلہ صرف بیماری کا نہیں، بیماری کے ساتھ جینے کا ہے۔ ہمیں صحت کے نظام میں اصلاحات، بچوں کی غذائی بہتری، ورزش اور صحت مند طرزِ زندگی کی ترویج، اور سب سے بڑھ کر بیماری کے ساتھ جینے والے افراد کی مکمل سماجی قبولیت کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔یہ وقت ہے کہ پاکستان اس بیماری کو ایک قومی ترجیح کے طور پر لے۔ کوئی شخص — چاہے بچہ ہو یا بالغ — اپنی بیماری کو چھپانے پر مجبور نہ ہو۔ کوئی ملازم علاج کے لیے چھٹی مانگتے ہوئے خوفزدہ نہ ہو۔ کوئی طالب علم انسولین کا انجیکشن لگاتے ہوئے شرمندگی محسوس نہ کرے۔ صحت انسان کا بنیادی حق ہے، اور ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کی حفاظت اور عزت بھی اسی حق کا حصہ ہے۔اگر ہم آج اس بحران کا سامنا نہ کر سکے تو کل یہ بحران ہماری پوری معاشرتی بنیادوں کو کھوکھلا کر دے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس بیماری کو سماجی اور طبی ترجیح بنائیں — کیونکہ ذیابیطس سے لڑائی صرف اسپتالوں میں نہیں، ہمارے رویوں میں جیتی جاتی ہے۔







