تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری(رودادزندگی)
پچھلے کالم میں بات تو شروع ہوئی تھی اپنے ساتھی نقوی صاحب سے اور پھر کسی اور طرف چلی گئی۔ نقوی صاحب کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ وہ ہمیں کہا کرتے تھے کہ مذہب افیون کی طرح ہے یہ اور بھی مذہب کے خلاف اور مادیت کے حق میں دلائل دیتے اور ہم بھی قائل ہو جایا کرتے تھے۔ کچھ تو ہمارے مولوی صاحبان کے کردار کی وجہ سے بھی تھا۔ علامہ اقبال نے بھی کہا ” دین ملاں فی سبیل اللہ فساد،، دین مومن فی سبیل اللہ جہاد۔
ملاں ازم اور حقیقی اسلام میں فرق کا پتہ بعد میں چلا۔ ملاں ازم اسی طرح خانقاہیت کے نظام کے بارے میں بھی بعد میں معلوم ہوا۔ بزرگان دین یا صوفی کہہ لیں ان کی اسلام کے بارے میں خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور صوفی ازم بنیادی طور پر رواداری‘ برداشت اور عدم تشدد کا درس دیتا ہے لیکن خانقاہیت بھی ایک طرح سے ملاں ازم کی طرح ہی ہے جو ضعیف الاعتقادی اور ترقی پسندی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی۔ خیر یہ میرا موضوع نہیں ہے اور نہ ہی میری علمی استطاعت اس قابل ہے کہ میں اس کے بارے میں لکھوں۔
میرا بڑا بھائی ان دنوں لاہور میں پاکستان آرمی میں ڈرائیور تھا۔ میری جب اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ میری ڈیوٹی ایک شعیہ فیملی کے ساتھ لگی میں شام کو انہیں امام بارگاہ جنت البقیع بھیکے وال گائوں جو کہ میرے کالج کے قریب تھا۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے بھی ساتھ لے جایا کریں میں بھی پہلے دس دن محرم کے دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہاں کس طرح محرم الحرام منایا جاتا ہے۔ بھائی نے کہا کہ میں ان سے پوچھ کر تمہیں بتائوں گا اگر وہ اجازت دیں گے تو میں تمہیں ساتھ لے جایا کروں گا ورنہ نہیں۔ اس نے دوسرے دن مجھے بتایا انہوں نے اجازت دے دی ہے اس طرح یکم محرم سے دسویں محرم تک میں اس فیملی کے ہمراہ امام بارگاہ جاتا رہا۔ وہ صغریٰ کہلواتے ہیں خاندان کا سربراہ اور اس کی بیوی دونوں ہی بڑے شفیق اور ملنسار تھے انہوں نے مجھے خود ایک ایک واقعہ اور جو وہاں رسومات ادا کی جاتی تھیں، بارے میں بتایا میں نے پہلی بار آگ پہ ماتم اور زنجیر زنی کرتے ہوئے لوگوں کو قریب سے دیکھا۔ آگ والا گڑھا تقریباً ایک فٹ گہرا، آدھا فٹ چوڑا اور تقریباً دو یا ڈھائی فٹ لمبا تھا۔ جب کوئلے دہکنے لگتے تھے تو اس پر کسی چیز سے چھڑکائو کیا جاتا۔ مجھے نہیں معلوم وہ پانی تھا یا کوئی محلول تھا مگر رنگ پانی جیسا ہی تھا۔ اس کے بعد ایک طرف آگ پر ماتم کرنے والا آتا تھا اور ایک پائوں اس آگ پر رکھ کر دوسری طرف چلا جاتا تھا۔ اسی طرح باری باری لوگ ایک پائوں آگ پر رکھ کر دوسری طرف چلے جاتے تھے۔ ان دس دنوں میں مختلف مواقع پر کچھ لوگ قابل اعتراض نعرے بھی لگاتے مگر اکثر بزرگ سختی سے منع کرتے تھے جعفری فیملی کے سربراہ بن کر ان کے ساتھ ہی میں بھی جاتا تھا وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہوتے تھے جو منع کرتے تھے اس نے جب اپنے نقوی دوست کو بتایا کہ میں ایک اہل تشیع خاندان کے ساتھ جنت البقیع امام بارگاہ جاتا ہوں تو وہ بہت خوش ہوا اور مجھے بتایا کہ میں تو ہر سال کسی اور امام بارگاہ میں جاتا ہوں آپ نویں اور دسویں محرم کو جہاں تم جاتے وہاں تمہیں ملوں گا۔ نقوی صاحب واقعی دو دن مجھے وہیں امام بارگاہ میں ملتے رہے اور مکمل ماتمی لباس اور ماتم میں بھی بھرپور حصہ لیتے تھے تاہم وہ آگ پر ماتم نہیں کرتے تھے۔
عاشورہ کے بعد جب میری نقوی صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا کہ آپ خدا اور مذہب پہ یقین نہیں رکھتے تو پھر عاشورہ کس نسبت سے مناتے ہو؟ اس نے کہا کہ تم کیوں گئے تھے میں نے کہا کہ میں مشاہدہ کرنے گیا تھا تو اس نے زچ ہو کر کہا میری بچپن سے ہی ایسی تربیت ہوئی کہ جب محرم آتا ہے تو خود بخود میرے قدم امام بارگاہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ اور جب میں نے کہا کہ بہت سارے اہل تشیع قابل اعتراض نعرے لگاتے ہیں تو اس نے کہا کہ سنی تو حضرت علی اور امام حسین کے مانتے ہیں ہم ایسا کر سکتے ہیں تو میں نے مذاق میں کہا کہ کوئی پاگل سنی اس کے جواب میں حضرت علی اور امام حسین کے بارے میں بکواس کرنے لگا تو کیا کرو گے تو نقوی صاحب نے کہا ایسا کبھی بھی نہیں ہو گا۔
مگر بدقسمتی سے سعودی ایران چپقلش کے تناظر میں ضیا الحق کے زمانے میں پراکسی وار ہمارے ملک میں لڑی گئی کس طرح کالعدم تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے مقابلے میں کالعدم انجمن سپاہ صحابہ تشکیل دی گئی اور دنیا بھر میں یہ غیر محسوس طریقے سے پیغام دیا گیا کہ نعوذ بااللہ نبی پاک اور صحابہ کرام کی افواج آپس میں دست و گریباں ہیں۔ بعد ازاں کالعدم سپاہ صحابہ میں سے لشکر جنگوی برآمد ہوئی اور ہزاروں بے گناہ معصوم لوگ اس خود ساختہ پراکسی وار کی بھینٹ چڑھائے گئے۔