دھواں صاف کرنا ہے یا ضمیر؟ چینی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ
Post Views:67
روزنامہ قوم ملتان اپنے معزز قارئین سے پیشگی معذرت خواہ ہے کہ آج آپ کو ہمارے روایتی زندہ اور باہوش اداریہ نویس کا اداریہ پڑھنے کو نہیں ملے گا۔ وہ حسب معمول چھٹی پر تھے اور اس بار دفتر میں کوئی دوسرا عارضی فکری مزدور بھی دستیاب نہ تھا جو چائے کے دو گھونٹ کے عوض قومی بحران کی سیر کراتا اور باقی وقت میں ریاستی حکمت کا وظیفہ پڑھتا رہتا۔ چیف ایڈیٹر نے سوچا کہ قارئین کو خالی صفحہ دکھا کر الزام نہ سہے، لہٰذا وہ فکری امداد کی تلاش میں لاہور کے میانی صاحب قبرستان جا پہنچے۔ پہلے فیض احمد فیض کے حضور ادب سے عرض کی گئی، تو جواب ملا کہ چشم آشوب کے سبب نہ لکھ سکتا ہوں نہ پڑھ سکتا ہوں، زمانے کا دھواں آنکھوں میں جم گیا ہے۔ مولانا چراغ حسن حسرت کا در کھٹکھٹایا گیا، تو فرمایا کہ میرا چشمہ کسی مرحوم ظالم نے چرا لیا ہے، یہاں بھی چوریاں ہونے لگیں، میں کیا لکھوں؟ اب باقی بچا سعادت حسن منٹو۔ اس سے لکھوانا نہ چاہتے تھے مگر وقت نے گریبان پکڑ لیا۔ اس نے سگریٹ کا دھواں قبر کی مٹی سے ملا کر کہا: جو لکھوں گا اس کی ذمہ داری تمہاری نہیں، تمہاری اس قوم کی ہے جسے سچ سے الرجی ہے اور وہ ہر سچل لفظ کو بغاوت سمجھتی ہے۔ تم صفحہ خالی چھوڑ دیتے تو شاید لوگ سمجھتے کہ تم سمجھدار ہو، مگر اب جب تم میرے پاس آئے ہو تو ذائقہ بھی بھگتو گے، دھواں بھی۔اب سن لو۔ ستائیسویں آئینی ترمیم کا چرچا ہے۔ لوگ کہتے ہیں ملک بچ جائے گا، ریاست سنور جائے گی، مستقبل روشنیوں میں نہا جائے گا، ہم ترقی کی شاہراہ پر دوڑ پڑیں گے، دشمن روئیں گے اور عالمی سرمایہ دار ہمیں کونپلوں کی طرح چومیں گے۔ ارے بھئی، اگر ہر ترمیم کے بعد ملک ٹھیک ہوتا تو پچھتر برسوں میں کب کا چاند پر پہنچ چکا ہوتا۔ یہ ملک آئین سے نہیں، آئین پر لگے مرہم سے چلایا جاتا ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر جھاڑ پھونک، کبھی مفادِ ریاست کے نام پر سرجری، کبھی نظریاتی وضو اور اب تو لگتا ہے آئین کی بھینس کو لاٹھی کا پتسمہ دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ جیسے پادری بچے کے سر پر پانی چھڑک کر کہتا ہے اب یہ پاک ہو گیا ہے، ویسے ہی ترمیم کے پانی سے آئین کو نہلا کر کہا جا رہا ہے کہ اب یہ آئین وفاداری کی سند لے چکا۔ اگر آئین زندہ ہوتا تو چیخ پڑتا کہ بھائی مجھے پہلے ہی دن پاک لکھا گیا تھا، تم ہر چند سال بعد میرا غسل کیوں کرتے ہو؟ کیا نیت گندی ہے یا ہاتھ؟اصل بات یہ ہے کہ یہاں آئین نہیں، نوٹیفکیشن مقدس ہیں۔ یہاں اذان کی طرح حکم نامہ جاری ہوتا ہے اور ایمان نہیں، اختیار تازہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ترمیم سے ریاست مضبوط ہو گی۔ کون سی ریاست؟ جس کی پہچان مولا بخش ہے؟ جس کا نام ہر فائل سے پہلے لکھا جاتا ہے اور ہر فیصلے کے بعد؟ ریاست اور عوام میں کبھی ملاقات کروائیے۔ ہمیں بھی پتہ چلے کہ ریاست وہ ہے جو پٹرول کی قیمت پر خاموش رہتی ہے اور عدالت کے فیصلے پر شور مچاتی ہے؟ یہ کون سا عقیدہ ہے کہ آئین ہر چند سال بعد اپنا ایمان تازہ کرے اور عوام کو کہا جائے کہ تجدید شدہ ایمان ہر ایمان لاو، سلام کرو، سوال مت کرو۔ اصلاح کہتے ہیں سدھار کو۔ یہ وہی اصلاح ہے جیسے چور کہے کہ میں نے تمہارا بٹوا تمہاری حفاظت میں لیا تھا۔حکمران کہتے ہیں قوم بچانی ہے۔ قوم کیسی بچتی ہے؟ تعلیم سے، صحت سے، انصاف سے، روزگار سے۔ یہاں ریاست نے اپنی حفاظت پر قلعہ بنا لیا ہے اور عوام سے کہا ہے کہ تم دیوار کے باہر کھڑے رہو۔ طالب علم سوال کرے تو غدار، صحافی پوچھے تو ملک دشمن، شاعر لکھے تو ایجنٹ، سیاست دان بولے تو سزا۔ یہ ملک کب بابا فرید کے ہاتھ میں تھا جو اب پیرِ کامل کے جلو میں چل رہا ہے؟ یہاں عقل کا ٹھیکہ ان کے ہاتھ ہے جن کے ستاروں کی روشنی جمہوری بلب سے زیادہ تیز ہے۔کہتے ہیں کہ سیاست دان ناکام ہیں، اسٹیبلشمنٹ چلائے تو کیا مسئلہ ہے۔ اگر یہی ہے تو پھر آئین کی دکان کیوں کھولی ہوئی ہے؟ سیدھی بات کرو، لکھو: پاکستان ایک انتظامی تجربہ گاہ ہے، یہاں قانون نہیں حکم چلتا ہے۔ لیکن یہ لکھنے کی جرات کس میں؟ سب کو پلاٹ چاہئے، پروٹوکول چاہئے، کمیشن چاہئے، بس قوم نہیں چاہئے۔ اس قوم کے پاس خواب بھی اب فارم پر ملتے ہیں، جس میں شناختی کارڈ اور باپ کا نام ساتھ دینا پڑتا ہے۔ یہاں بڑھتی مہنگائی نہیں،’’قومی سلامتی‘‘خطرے میں ہے۔ یہاں غربت بھی ’’غیر ملکی سازش‘‘ہے۔ یہاں نوجوان بے روزگار نہیں، ’’سوشل میڈیا کی برائی‘‘ہے۔ یہ ستائیسویں ترمیم مرحوم شدہ آئین کی کے کفن کی سلائی ہے۔ کتبہ پہلے سے لکھا جا چکا: یہ وہ دستور تھا جو عوام کے لئے بنا تھا، چند لوگوں نے اپنی مرضی کی چابی گھمائی اور اسے ریاستی مزار میں رکھ کر نیاز دے دی۔ حاکم عوام کی نظر سے نہیں، طاقت کی چمک سے معاملات تولتے ہیں۔ جمہوریت ایسے چل رہی ہے جیسے کسی چنڈو خانے میں روزانہ نئے قوانین لگیں اور علتی کو بتایا جائے کہ یہ تمہاری بہتری کے لئے ہے۔ اصل پاگل وہ ہے جو یقین کرے۔کبھی سوچا کہ وطن کے نام پر مرنے والے کیوں کم ہو رہے ہیں؟ کیونکہ اب وطن محبت سے نہیں، خوف سے چلایا جا رہا ہے۔ اور خوف میں پیدا ہونے والا ملک قبرستان ہو سکتا ہے، قوم نہیں۔ اگر واقعی یہ ترمیم ضروری ہے تو ریفرنڈم کراو۔ لیکن نہیں۔ جناب کو وہ شہری چاہئے جو مجسمہ ہو، بولتا نہ ہو۔ سوال کرنا جرم ہے اور جواب دینا خطرہ۔ اسی لئے سچ کو بغاوت بنا دیا جاتا ہے۔اب سچ یہ ہے کہ آئین قبر میں ہے اور پورا ملک جنازہ پڑھانے کے لئے تیار کھڑا ہے۔ ہائے افسوس! یہاں لوگ مر کر بھی چین نہیں پاتے، اور آئین تو بے چارہ ابھی مرا بھی صحیح طرح نہیں، نت نئی روح اسے مل جاتی ہے مگر دفن کرنے کی جلدی ہے۔ قوم سے میری گزارش ہے، کبھی کبھی سوال کر لیا کرو۔ خاموشی اچھی چیز ہے لیکن زیادہ ہو تو اسے قبرستان کہتے ہیں۔ اور اگر یہ سب پڑھ کر آپ کو غصہ آئے تو سمجھ لیجئے کہ میں آپ میں زندہ ہوں۔ اور اگر برداشت ہو جائے تو جان لیجئے کہ آپ اندر سے مر چکے ہیں۔ میں منٹو ہوں، خاک میں مل کر بھی لفظوں میں جلتا ہوں۔ میرا قلم خون لکھتا ہے اور یہ قوم اب بھی خون سے زیادہ خوف پیتی ہے۔ اگر میری بات بری لگی ہو تو معاف کر دینا لیکن یاد رکھنا، خاموش تو قبریں ہوتی ہیں، زندہ لوگ نہیں۔ اختتامی نوٹ (مدیرِ اعلیٰ) قارئینِ کرام، ہم نے کوشش کی تھی کہ صفحہ خالی چھوڑ دیں، مگر خدشہ تھا کہ کہیں خالی صفحہ بھی’’ریاست مخالف‘‘نہ سمجھ لیا جائے۔ سو، منٹو کو لکھنے دیا۔ اگر آپ خفا ہیں تو ادارہ معذرت خواہ
دھواں صاف کرنا ہے یا ضمیر؟
ہم اس شہر کے باسی ہیں۔ اس شہر کی گلیوں میں دھواں ہمیں صبح کے سلام کی طرح ملتا ہے، اور شام کی اذان کی طرح رخصت کرتا ہے۔ کبھی چائے کے کپ سے بھاپ اٹھتی تھی، اب سانس سے دھواں اٹھتا ہے۔ کبھی صبح تازگی لاتی تھی، اب آنکھوں میں جلن، گلے میں خراش اور ذہن میں ایک سوال چھوڑ جاتی ہے: آخر ہم اپنی سانسوں کے بدلے کس چیز کی قیمت ادا کر رہے ہیں؟ اور یہ قیمت کب تک چکاتے رہیں گے؟پنجاب حکومت نے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔ ہم اس اقدام کو بلا تردد سراہتے ہیں۔ یہ ضرورت ہے، وقت کا تقاضا ہے، اور شہریوں کی دل کی آواز ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں آکسیجن سے جئیں، دھوئیں سے نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کارروائی ایک مکمل سوچ کے ساتھ ہوئی ہے، یا پھر یہ بھی ہماری دیگر “مہمات” کی طرح دکھاوے، وقتی تاثر اور کاغذی کامیابی کا ہتھیار ہے؟ اور کیا واقعی اس دھواں دشمنی کے پیچھے عوام دوستی ہے، یا وہی پرانا رویہ—آسان شکار کو پکڑ لو، اصل مجرموں تک جانے کی ہمت مت کرو؟ہمیں حکومت کی نیت پر شک کرنے کا حق نہیں، مگر یہاں تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ یہ ملک اکثر علامتوں سے لڑتا ہے، بیماری سے نہیں۔ ہم کاغذوں میں اصلاح کرتے ہیں، زمین پر نہیں۔ ہم دکھاتے ہیں کہ ہم عمل کر رہے ہیں، اصل عمل کی طرف بڑھتے نہیں۔ دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے خلاف کارروائی اس وقت معنی خیز ہوگی جب یہ کارروائی صرف غریب رکشہ والے اور ٹیکسی والے تک محدود نہ رہے۔ جب یہ ہر اس گاڑی تک پہنچے جس کی اگزاسٹ سے نہیں، طاقت کے زعم سے دھواں نکلتا ہے۔ جب قانون نہ سڑک کے کنارے کھڑے مزدور ڈرائیور پر بھاری پڑے، بلکہ اس گاڑی پر بھی ہاتھ ڈالے جس کے شیشے کالے، نمبر پلیٹ سرکاری اور ڈرائیور کے چہرے پر طاقت کا غرور ہوتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ مسئلہ محض پرانی بسیں، خستہ حال ویگنیں اور شور مچاتے رکشے نہیں۔ مسئلہ اس سوچ کا ہے جو سڑک پر دھواں چھوڑتی گاڑی کو تو روک لیتی ہے، مگر معاشرے میں دھواں چھوڑتی ذہنیت کو ہاتھ نہیں لگاتی۔ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے ان فیکٹریوں کی چمنیاں دیکھی ہیں جو رات کی تاریکی میں زہریلا دھواں پھونکتی ہیں۔ ہم نے وہ بھٹے دیکھے ہیں جنہوں نے پوری فضا کو بھٹی بنا رکھا ہے۔ ہم نے وہ تعمیراتی مافیا دیکھی ہے جو گرد کو شانِ ترقی سمجھتی ہے۔ کیا ان سب کے خلاف بھی کوئی مہم چلے گی، یا پھر ہمیشہ کی طرح یہ مہم بھی صرف ان لوگوں پر پڑے گی جن کی جیب میں پیٹرول کے پیسے مشکل سے پورے ہوتے ہیں؟ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پنجاب حکومت سنجیدہ ہے تو اسے اس مہم کو صرف ٹریفک مہم نہیں، ماحولیاتی اصلاح کی تحریک بنانا ہوگا۔ ہمیں یہ سوال بھی اٹھانا ہوگا کہ ہم نے کب آخری بار پبلک ٹرانسپورٹ کا بڑا انقلاب دیکھا؟ کیا سڑک پر رکشوں کو پکڑنے سے بہتر نہیں تھا کہ ان کی جگہ الیکٹرک رکشے لانے کا نظام بنایا جاتا؟ کیا ویگن والوں پر جرمانے لگانے سے پہلے کسی نے سوچا کہ انہیں کم سود پر گاڑی تبدیل کرنے کا کوئی راستہ دیا جائے؟ کیا ہم نے صنعتوں کو صاف انرجی کی طرف راغب کرنے کے لئے کوئی پالیسی بنائی؟ کیا ہم نے اسکولوں میں بچوں کو ماحولیات سے محبت سیکھائی؟ یا ہم نے صرف وہی کیا جو ہمیشہ کرتے ہیں—غریب پر قانون، طاقتور پر تعریف۔ہم مانتے ہیں کہ دھواں دشمن ہے۔ لیکن دھواں صرف گاڑی کا نہیں ہوتا۔ سڑک پر دھواں نظر آتا ہے، مگر دفتر کے کمروں میں اٹھنے والا دھواں زیادہ خطرناک ہے—وہ دھواں جو فیصلوں کو دھندلا دیتا ہے، نیتوں کو آلودہ کرتا ہے، اور انصاف کو ناکام بنا دیتا ہے۔ اگر اس ملک نے کبھی دھواں حقیقت میں کم کرنا ہے تو اسے صرف انجن نہیں، سوچ بھی صاف کرنی ہوگی۔ اور سوچ کی صفائی جبر سے نہیں، انصاف سے ہوتی ہے۔ قانون کے ڈنڈے سے نہیں، قانون کی برابری سے ہوتی ہے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تبدیلی صرف حکومت کے ہاتھ میں نہیں۔ ہم سب اس شہر کے شریک مجرم ہیں۔ ہم سڑک پر کچرا پھینکتے ہیں، ہم انجن کی ٹیوننگ سے بچتے ہیں، ہم ماسک پہن کر سمجھتے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ماسک کے پیچھے اپنے ہی بنائے دھوئیں سے بھاگ رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کام کرے، مگر ہم خود کو بدلنے پر تیار نہیں۔ یہ رویہ بدلنا ہوگا۔ تبدیلی اوپر سے بھی آئے گی، مگر نیچے سے بھی اٹھنی چاہیے۔ ورنہ ہم بس شکایت کرتے رہیں گے، اور دھواں ہمیں خاموش کرتا رہے گا۔ہماری ریاست سے یہ عرض ہے کہ اگر واقعی عوام کی صحت عزیز ہے تو پھر اس مہم کو وقتی شوکیس نہ بنائیں۔ اسے نظامی اصلاح سے جوڑیں۔ ایسی حکمت عملی بنائیں جس میں قانون سب کے لیے یکساں ہو۔ چھوٹے ٹرانسپورٹر کے لئے کنورژن قرض ہو، بھٹے کے مالکان کے لئے سخت اصول، صنعتی آلودگی پر فوری سزا، اور شہریوں کے لئے آگاہی مہم۔ سب کے لئے۔ صرف کاغذوں کے لئے نہیں، زمین کے لئے۔ صرف تصویر کے لئے نہیں، سانس کے لئے۔ہمیں لوگوں کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑی صرف ایک پائپ نہیں، ایک رویہ ہے۔ اور رویے معاشرتی تربیت سے بدلتے ہیں۔ حکومت کی مہم میں سیاسی نعرے اور میڈیا کی فوٹو سیشن نہیں، مسلسل عمل، شفافیت اور انصاف شامل ہونا چاہئے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ مہم واقعی تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اگر نہیں تو یہ مہم چند ہفتے بعد فائل میں بند ہو جائے گی، اور دھواں پھر سے آزاد ہو جائے گا—ہمارے پھیپھڑوں پر، ہماری سوچ پر اور ہمارے مستقبل پر۔ہماری ریاست اگر چاہے تو اس مہم کو تاریخی بنا سکتی ہے۔ اور اگر یہ مہم واقعی نیک نیتی سے چلائی گئی تو ہم سب اس کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔ ہم اپنے قارئین سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی گاڑیوں کی ٹوننگ کروائیں، دھواں نہ چھوڑیں، اور ماحول کو پیار دیں۔ یہ ذمہ داری صرف حکومت کی نہیں، ہم سب کی ہے۔ کیونکہ یہ زمین سب کی ہے، یہ فضا سب کی ہے اور یہ مستقبل بھی سب کا ہے۔لیکن ساتھ یہ بھی عرض ہے: قوموں کی صحت صرف پھیپھڑوں سے نہیں، ضمیروں سے جڑی ہوتی ہے۔ اگر قانون کمزور کے لئے سخت اور طاقتور کے لئے نرم ہے تو پھر دھواں صرف سڑکوں پر نہیں، انصاف کے ایوانوں میں بھی بھرا ہوا ہے۔ اور ایسا دھواں سب سے ہلاکت خیز ہوتا ہے۔ہم دعا کرتے ہیں کہ یہ مہم دھواں کم کرے—لیکن ساتھ یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ یہ مہم نظام کو صاف کرے۔ اگر دھواں صاف کرنا ہے تو ضمیر بھی صاف کرنا ہوگا۔ اگر فضا بچانی ہے تو انصاف بھی بچانا ہوگا۔ اگر آنے والی نسلوں کو سانس دینا ہے تو موجودہ نسل کو ذہن کھولنا ہوگا۔اور اگر ہم یہ سب کرنے میں ناکام رہے تو پھر یاد رکھیے، سڑک پر رکشہ پکڑنے کا فائدہ نہیں ہوگا۔ پھر دھواں ہمیں نہیں چھوڑے گا، ہم دھوئیں کو نہیں چھوڑ پائیں گے—اور یہ شہر آہستہ آہستہ سانس لیتے لیتے، ایک خاموش قبرستان میں بدل جائے گا۔ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ شہر دھند سے نہیں، روشنی سے جاگے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بچے اسکول جاتے وقت کھانسی نہ کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ صبح کی ہوا صبح جیسی ہو، رات کی فضا رات جیسی ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ سانس زندگی کا ثبوت ہو، سزا نہیں۔ہم چاہتے ہیں… اور امید رکھتے ہیں کہ ریاست بھی یہی چاہتی ہے۔اگر نیتیں صاف رہیں، فیصلے منصفانہ ہوں، اور عمل مسلسل رہے… تو یقین جانئے یہ دھواں چھٹ سکتا ہے۔ یہ اندھیرا ختم ہو سکتا ہے۔ اور یہ شہر پھر سے سانس لے سکتا ہے۔ہم امید بھی رکھتے ہیں، دعا بھی کرتے ہیں… اور سوال بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ امید کے بغیر قوم نہیں بنتی، اور سوال کے بغیر نظام نہیں بنتا۔
چینی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ
ہم اس ملک کے شہری ہیں۔ ہم نے اس دھرتی پر اتنی قیمتیں بڑھتی دیکھی ہیں کہ اب حیرت بھی مہنگی ہو گئی ہے۔ مگر پچھلے چند ہفتوں میں چینی کی قیمتوں نے جس بے رحمی سے عوام کی جیبوں پر یلغار کی ہے، وہ صرف مہنگائی نہیں بلکہ ایک کھلا اعلان ہے: یہاں ضرورتِ زندگی بھی منڈی کے رحم پر ہے اور منڈی اربابِ طاقت کے رحم پر۔ ایک زمانہ تھا جب چینی کو عام آدمی کی غذائی ترجیح سمجھا جاتا تھا۔ اور آج یہ ایک سیاسی و معاشی ہتھیار ہے۔ قیمتیں اس طرح نہیں بڑھیں، جیسے ضرورت بڑھتی ہے، بلکہ ایسے پھاڑ کر اوپر گئی ہیں جیسے کسی غریب کے دل پر آری چلتی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں، یہ ملک کس کا ہے؟ وہ سرمایہ داروں کا جن کے لئے چینی روپیہ نہیں، سیاسی بیڑیوں کی چابی ہے؟ یا ان کروڑوں محنت کشوں کا جو صبح لسی پی کر مزدوری پر جاتے ہیں اور شام کو گھر لوٹتے ہوئے بچوں کے ہاتھ خالی دیکھ کر آنکھیں چرا لیتے ہیں؟ کیا ریاست صرف طاقتور کے لئے ہے؟ عام آدمی کا تحفظ، اس کی ضرورتیں، اس کا جینے کا حق کہاں ہے؟ چینی کی قیمتیں آج آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ حکومتی دعوے، پریس کانفرنسیں، ڈیٹا شیٹس، کمیٹیاں — یہ سب فائلوں کی ایک دنیا ہے۔ لیکن عوام کی دنیا کچن ہے، جہاں چائے کا کپ بھی اب سوچ سمجھ کر پکتا ہے، جہاں بچے اب سوکھے بسکٹ چائے کے بغیر کھاتے ہیں، جہاں محلے کی دکان پر کریڈٹ کا رجسٹر گھر بھر کے وزن سے بھاری ہو گیا ہے۔ ہم یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں: آخر اس ملک میں چینی کی قیمتیں کیوں بے قابو ہوئیں؟ مارکیٹ سپلائی کا مسئلہ، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، حکومتی بے بسی، سیاسی سرپرستی — یہ سب جواب ہیں مگر اصل جواب ایک نہیں، کئی ہیں، اور ہر جواب کے پیچھے ایک خوفناک حقیقت چھپی ہے: یہاں کسی قانون سے زیادہ طاقت پیسہ اور تعلق رکھتا ہے۔ چینی کی قیمتوں میں اضافہ صرف معاشی بحران نہیں، یہ طاقت کا مظاہرہ ہے۔ وہ طاقت جو فیصلے کرتی ہے کہ عوام کب روئیں، کب خاموش رہیں، کب صبروتحمل کو حب الوطنی کا نام دیا جائے، اور کب غریب کو نصیحت کی جائے کہ شکر کم استعمال کریں۔ کیا عجب ہے، کل کوئی وزیر یہ بھی کہنا شروع کر دے کہ چینی صحت کے لیے نقصان دہ ہے، لہٰذا قیمت میں اضافہ دراصل عوام کی بھلائی ہے۔ ہم اس بیانیے سے واقف ہیں۔ یہی بیانیہ آٹا، گھی، ادویات اور پیٹرول کے وقت بھی سامنے آیا تھا۔ ہر مرتبہ یہی کہا گیا: صورتحال عالمی سطح پر ہی خراب ہے”، “بزنس کمیونٹی بے لگام ہے”، “حالات مشکل ہیں”، اور ہر مرتبہ اس جھوٹے تسلی نامے کے نیچے عوام کے سر دب جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب تک عالمی قیمتیں اوپر جائیں ہم ان کے ساتھ روئیں، مگر جب نیچے آئیں تو ہم کیوں نہیں ہنستے؟ آخر یہ یکطرفہ وفاداری کیوں؟ اگر منڈی ہی سب کچھ طے کرتی ہے تو پھر وزیرِ خزانہ کیوں؟ پھر وزارتِ خوراک کیوں؟ پھر ریگولیٹرز کیوں؟ پھر حکومت کا اختیار کہاں ہے؟ یا پھر حکومت کا اختیار صرف اتنا ہے کہ وہ پریس کانفرنس کرے، اور عوام دلاسے پر زندگی گزاریں؟ چینی کی قیمتوں کے پیچھے ملک کی ایک خاموش جنگ ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہیں چینی نہیں منافع چاہیے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہیں چینی چاہیے تاکہ زندگی کا مزہ برقرار رہے۔ اور درمیان میں حکومت ہے جو کبھی میڈیا پر سخت نظر آتی ہے مگر گودھولی میں سرمایہ داروں کے دروازوں پر فائلیں لے کر کھڑی ہوتی ہے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں چینی کی صنعت، سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے۔ جن کے ہاتھ میں قانون ہے، انہی کے ہاتھ میں چینی ہے۔ ریاست اور کاروبار کا یہ ملاپ دراصل طاقت کی وہ تصویر ہے جس میں عوام صرف پس منظر ہوتے ہیں۔ چینی ملے بند ہوتی ہیں، ریلیز کم ہوتی ہے، اسٹاک بے حساب رکھا جاتا ہے، اور پھر اچانک اعلان ہوتا ہے: “ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔” مگر کارروائی کہاں؟ کس کے خلاف؟ کتنے بڑے نام سامنے آئے؟ کتنی سیاسی پرچھائیاں ٹوٹی؟ کتنے عربوں کی رقوم ضبط ہوئیں؟ نہیں۔ صرف چند ٹرک، چند چھوٹے گودام، چند پرچون والے — اصل کہانی قوم پر احسان کے انداز میں سنائی جاتی ہے اور اس احسان میں عوام کے لیے نمکین آنسو ہوتے ہیں، نہ کہ مٹھاس۔ ہم جانتے ہیں کہ اس ملک میں چینی ہے، وافر مقدار میں ہے۔ گنے کی فصل ہے، ملیں ہیں، مزدور ہیں۔ مگر مسئلہ پیداوار نہیں، مسئلہ نیت ہے۔ مقصد چینی بیچنا نہیں بلکہ قوم کو پستہ کرنا ہے اور منافع بڑھانا ہے۔ اصل دباؤ صرف عوام پر ڈالا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ صرف معاشی نہیں، یہ اخلاقی اور سیاسی بھی ہے۔ یہ بات ہمیں بھی سوچنی چاہیے کہ ہم عوام کب تک قربانی دیں گے؟ کب تک یہ کہتے رہیں گے کہ حالات بہتر ہو جائیں گے؟ کب تک بجٹ اور اخبارات اور وزراء کی گفتگو ہمیں امید دلائیں گے؟ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ریاست کمزور ہو جائے اور منڈی طاقتور ہو جائے تو عوام غلام ہو جاتے ہیں۔ ایک غلام قوم کا چینی کے لیے جدوجہد کرنا محض معاشی مسئلہ نہیں بلکہ ایک ذہنی زنجیر ہوتی ہے۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ قوم کے اندر بھی کمزوریاں ہیں۔ ہم بھی کبھی سستی چینی کے چکر میں غلط ہاتھوں کو طاقت دیتے ہیں، ہم بھی ذخیرہ اندوزی کا حصہ بنتے ہیں، ہم بھی بحران میں قیمتیں بڑھا کر اپنے آپ کو چالاک سمجھتے ہیں۔ لیکن اصل جرم ان کا ہے جن کے پاس طاقت ہے، اور طاقت کے ساتھ ذمہ داری ہوتی ہے۔ سستا آٹا، سستی چینی، سستی دوائیں—یہ بنیادی حق ہیں۔ ریاست قوم کے پیسوں سے چلتی ہے، اور قوم کو جواب دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں حکومت سے چند مطالبات ہیں: چینی کے اسٹاک اور پیداوار کا شفاف آڈٹ ہو، چینی مافیا کے خلاف کارروائی صرف کاغذی نہ ہو بلکہ عملی ہو، چینی ملوں کے مالکان کا احتساب ہو، ذخیرہ اندوزی پر فوری سزا اور ضبطی ہو، قیمتوں کے تعین کا عوام دوست طریقہ ہو، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ یہ ملک ان کا بھی ہے، صرف طاقتور کا نہیں۔ ہمیں اپنی معاشی سمت بدلنی ہوگی۔ ایسی معیشت جو عوام کی جیب سے طاقتور کو سہارا دے، وہ معیشت نہیں، ظلم ہے۔ ہمیں خود کو بدلنا ہوگا، نظام بدلنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ چینی کی بڑھتی قیمتیں صرف چینی کا مسئلہ نہیں — یہ ہماری اجتماعی بے بسی کی علامت ہیں۔ یہ ہر اس آنسو کی علامت ہیں جو ماں دودھ کے بجائے چائے پلاتے ہوئے بہاتی ہے۔ یہ ہر اس دل کے درد کی علامت ہیں جو تنخواہ ملتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ چینی کا بحران دراصل احساس کا بحران ہے۔ ہم یہ اداریہ اس اعتراف کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ ریاست کا فرض صرف سرحد بچانا نہیں، باورچی خانہ بھی بچانا ہے۔ اگر باورچی خانہ جل جائے تو سرحد بھی محفوظ نہیں رہتی۔ خدا کرے کہ یہ ملک اپنے شہریوں کو زندہ قوم بنائے، چینی کے محتاج نہیں، عزت کے صاحب کرے۔ ورنہ ایک دن ایسا آئے گا کہ لوگ چینی نہیں مانگیں گے — انصاف مانگیں گے۔ اور جس دن عوام انصاف مانگنے کھڑے ہوئے، چینی مافیا نہیں، پوری طاقت کا توازن بدل جائے گا۔ وقت ہے کہ ہم جاگیں۔ وقت ہے کہ حکومت سوچے۔ وقت ہے کہ چینی کے دانے میں عوام کے آنسو نہ ملیں بلکہ انصاف کی خوشبو آئے۔ ورنہ تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے — اور وہ یاد رکھتی ہے کہ کب قوم نے حق کھویا اور کب طاقت نے فریب خریدا۔ہے۔
تازہ ترین
یونان کشتی حادثہ: متعدد ایف آئی اے افسران برطرف، ڈپٹی ڈائریکٹر ملتان سمگلرز کا رابطہ کار نکلا
جی ایم نہ چیئرمین این ایچ اے، جنوبی پنجاب ہائی ویز تباہ، حادثات 50 فیصد بڑھ گئے
مظفرگڑھ: فائرنگ سے زخمی نوجوان کی کٹی ٹانگ سمیت لواحقین کااحتجاج
خواتین یونیورسٹی تنازعات کا شکار، وی سی کی بے حسی برقرار، فیکلٹی کی تبدیلی کی دعائیں
پنجاب بھر میں 82 ہزار گاڑیاں، موٹر سائیکلیں بند، طلبہ گھروں میں “قید”
وارڈن سسٹم سے اتھارٹیز تک شاہانہ اخراجات عوام سے پورے کرنے کی خفیہ پالیسی نافذ
خلیل الرحمان قمر ویڈیو کیس: ملزم حسن شاہ کے خلاف کارروائی کی درخواست دائر
سونے کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ، چاندی بھی مہنگی
دھواں صاف کرنا ہے یا ضمیر؟ چینی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ
روزنامہ قوم ملتان اپنے معزز قارئین سے پیشگی معذرت خواہ ہے کہ آج آپ کو ہمارے روایتی زندہ اور باہوش اداریہ نویس کا اداریہ پڑھنے کو نہیں ملے گا۔ وہ حسب معمول چھٹی پر تھے اور اس بار دفتر میں کوئی دوسرا عارضی فکری مزدور بھی دستیاب نہ تھا جو چائے کے دو گھونٹ کے عوض قومی بحران کی سیر کراتا اور باقی وقت میں ریاستی حکمت کا وظیفہ پڑھتا رہتا۔ چیف ایڈیٹر نے سوچا کہ قارئین کو خالی صفحہ دکھا کر الزام نہ سہے، لہٰذا وہ فکری امداد کی تلاش میں لاہور کے میانی صاحب قبرستان جا پہنچے۔ پہلے فیض احمد فیض کے حضور ادب سے عرض کی گئی، تو جواب ملا کہ چشم آشوب کے سبب نہ لکھ سکتا ہوں نہ پڑھ سکتا ہوں، زمانے کا دھواں آنکھوں میں جم گیا ہے۔ مولانا چراغ حسن حسرت کا در کھٹکھٹایا گیا، تو فرمایا کہ میرا چشمہ کسی مرحوم ظالم نے چرا لیا ہے، یہاں بھی چوریاں ہونے لگیں، میں کیا لکھوں؟ اب باقی بچا سعادت حسن منٹو۔ اس سے لکھوانا نہ چاہتے تھے مگر وقت نے گریبان پکڑ لیا۔ اس نے سگریٹ کا دھواں قبر کی مٹی سے ملا کر کہا: جو لکھوں گا اس کی ذمہ داری تمہاری نہیں، تمہاری اس قوم کی ہے جسے سچ سے الرجی ہے اور وہ ہر سچل لفظ کو بغاوت سمجھتی ہے۔ تم صفحہ خالی چھوڑ دیتے تو شاید لوگ سمجھتے کہ تم سمجھدار ہو، مگر اب جب تم میرے پاس آئے ہو تو ذائقہ بھی بھگتو گے، دھواں بھی۔اب سن لو۔ ستائیسویں آئینی ترمیم کا چرچا ہے۔ لوگ کہتے ہیں ملک بچ جائے گا، ریاست سنور جائے گی، مستقبل روشنیوں میں نہا جائے گا، ہم ترقی کی شاہراہ پر دوڑ پڑیں گے، دشمن روئیں گے اور عالمی سرمایہ دار ہمیں کونپلوں کی طرح چومیں گے۔ ارے بھئی، اگر ہر ترمیم کے بعد ملک ٹھیک ہوتا تو پچھتر برسوں میں کب کا چاند پر پہنچ چکا ہوتا۔ یہ ملک آئین سے نہیں، آئین پر لگے مرہم سے چلایا جاتا ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر جھاڑ پھونک، کبھی مفادِ ریاست کے نام پر سرجری، کبھی نظریاتی وضو اور اب تو لگتا ہے آئین کی بھینس کو لاٹھی کا پتسمہ دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ جیسے پادری بچے کے سر پر پانی چھڑک کر کہتا ہے اب یہ پاک ہو گیا ہے، ویسے ہی ترمیم کے پانی سے آئین کو نہلا کر کہا جا رہا ہے کہ اب یہ آئین وفاداری کی سند لے چکا۔ اگر آئین زندہ ہوتا تو چیخ پڑتا کہ بھائی مجھے پہلے ہی دن پاک لکھا گیا تھا، تم ہر چند سال بعد میرا غسل کیوں کرتے ہو؟ کیا نیت گندی ہے یا ہاتھ؟اصل بات یہ ہے کہ یہاں آئین نہیں، نوٹیفکیشن مقدس ہیں۔ یہاں اذان کی طرح حکم نامہ جاری ہوتا ہے اور ایمان نہیں، اختیار تازہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ترمیم سے ریاست مضبوط ہو گی۔ کون سی ریاست؟ جس کی پہچان مولا بخش ہے؟ جس کا نام ہر فائل سے پہلے لکھا جاتا ہے اور ہر فیصلے کے بعد؟ ریاست اور عوام میں کبھی ملاقات کروائیے۔ ہمیں بھی پتہ چلے کہ ریاست وہ ہے جو پٹرول کی قیمت پر خاموش رہتی ہے اور عدالت کے فیصلے پر شور مچاتی ہے؟ یہ کون سا عقیدہ ہے کہ آئین ہر چند سال بعد اپنا ایمان تازہ کرے اور عوام کو کہا جائے کہ تجدید شدہ ایمان ہر ایمان لاو، سلام کرو، سوال مت کرو۔ اصلاح کہتے ہیں سدھار کو۔ یہ وہی اصلاح ہے جیسے چور کہے کہ میں نے تمہارا بٹوا تمہاری حفاظت میں لیا تھا۔حکمران کہتے ہیں قوم بچانی ہے۔ قوم کیسی بچتی ہے؟ تعلیم سے، صحت سے، انصاف سے، روزگار سے۔ یہاں ریاست نے اپنی حفاظت پر قلعہ بنا لیا ہے اور عوام سے کہا ہے کہ تم دیوار کے باہر کھڑے رہو۔ طالب علم سوال کرے تو غدار، صحافی پوچھے تو ملک دشمن، شاعر لکھے تو ایجنٹ، سیاست دان بولے تو سزا۔ یہ ملک کب بابا فرید کے ہاتھ میں تھا جو اب پیرِ کامل کے جلو میں چل رہا ہے؟ یہاں عقل کا ٹھیکہ ان کے ہاتھ ہے جن کے ستاروں کی روشنی جمہوری بلب سے زیادہ تیز ہے۔کہتے ہیں کہ سیاست دان ناکام ہیں، اسٹیبلشمنٹ چلائے تو کیا مسئلہ ہے۔ اگر یہی ہے تو پھر آئین کی دکان کیوں کھولی ہوئی ہے؟ سیدھی بات کرو، لکھو: پاکستان ایک انتظامی تجربہ گاہ ہے، یہاں قانون نہیں حکم چلتا ہے۔ لیکن یہ لکھنے کی جرات کس میں؟ سب کو پلاٹ چاہئے، پروٹوکول چاہئے، کمیشن چاہئے، بس قوم نہیں چاہئے۔ اس قوم کے پاس خواب بھی اب فارم پر ملتے ہیں، جس میں شناختی کارڈ اور باپ کا نام ساتھ دینا پڑتا ہے۔ یہاں بڑھتی مہنگائی نہیں،’’قومی سلامتی‘‘خطرے میں ہے۔ یہاں غربت بھی ’’غیر ملکی سازش‘‘ہے۔ یہاں نوجوان بے روزگار نہیں، ’’سوشل میڈیا کی برائی‘‘ہے۔ یہ ستائیسویں ترمیم مرحوم شدہ آئین کی کے کفن کی سلائی ہے۔ کتبہ پہلے سے لکھا جا چکا: یہ وہ دستور تھا جو عوام کے لئے بنا تھا، چند لوگوں نے اپنی مرضی کی چابی گھمائی اور اسے ریاستی مزار میں رکھ کر نیاز دے دی۔ حاکم عوام کی نظر سے نہیں، طاقت کی چمک سے معاملات تولتے ہیں۔ جمہوریت ایسے چل رہی ہے جیسے کسی چنڈو خانے میں روزانہ نئے قوانین لگیں اور علتی کو بتایا جائے کہ یہ تمہاری بہتری کے لئے ہے۔ اصل پاگل وہ ہے جو یقین کرے۔کبھی سوچا کہ وطن کے نام پر مرنے والے کیوں کم ہو رہے ہیں؟ کیونکہ اب وطن محبت سے نہیں، خوف سے چلایا جا رہا ہے۔ اور خوف میں پیدا ہونے والا ملک قبرستان ہو سکتا ہے، قوم نہیں۔ اگر واقعی یہ ترمیم ضروری ہے تو ریفرنڈم کراو۔ لیکن نہیں۔ جناب کو وہ شہری چاہئے جو مجسمہ ہو، بولتا نہ ہو۔ سوال کرنا جرم ہے اور جواب دینا خطرہ۔ اسی لئے سچ کو بغاوت بنا دیا جاتا ہے۔اب سچ یہ ہے کہ آئین قبر میں ہے اور پورا ملک جنازہ پڑھانے کے لئے تیار کھڑا ہے۔ ہائے افسوس! یہاں لوگ مر کر بھی چین نہیں پاتے، اور آئین تو بے چارہ ابھی مرا بھی صحیح طرح نہیں، نت نئی روح اسے مل جاتی ہے مگر دفن کرنے کی جلدی ہے۔ قوم سے میری گزارش ہے، کبھی کبھی سوال کر لیا کرو۔ خاموشی اچھی چیز ہے لیکن زیادہ ہو تو اسے قبرستان کہتے ہیں۔ اور اگر یہ سب پڑھ کر آپ کو غصہ آئے تو سمجھ لیجئے کہ میں آپ میں زندہ ہوں۔ اور اگر برداشت ہو جائے تو جان لیجئے کہ آپ اندر سے مر چکے ہیں۔ میں منٹو ہوں، خاک میں مل کر بھی لفظوں میں جلتا ہوں۔ میرا قلم خون لکھتا ہے اور یہ قوم اب بھی خون سے زیادہ خوف پیتی ہے۔ اگر میری بات بری لگی ہو تو معاف کر دینا
لیکن
یاد رکھنا، خاموش تو قبریں ہوتی ہیں، زندہ لوگ نہیں۔
اختتامی نوٹ (مدیرِ اعلیٰ)
قارئینِ کرام،
ہم نے کوشش کی تھی کہ صفحہ خالی چھوڑ دیں، مگر خدشہ تھا کہ کہیں خالی صفحہ بھی’’ریاست مخالف‘‘نہ سمجھ لیا جائے۔ سو، منٹو کو لکھنے دیا۔ اگر آپ خفا ہیں تو ادارہ معذرت خواہ
دھواں صاف کرنا ہے یا ضمیر؟
ہم اس شہر کے باسی ہیں۔ اس شہر کی گلیوں میں دھواں ہمیں صبح کے سلام کی طرح ملتا ہے، اور شام کی اذان کی طرح رخصت کرتا ہے۔ کبھی چائے کے کپ سے بھاپ اٹھتی تھی، اب سانس سے دھواں اٹھتا ہے۔ کبھی صبح تازگی لاتی تھی، اب آنکھوں میں جلن، گلے میں خراش اور ذہن میں ایک سوال چھوڑ جاتی ہے: آخر ہم اپنی سانسوں کے بدلے کس چیز کی قیمت ادا کر رہے ہیں؟ اور یہ قیمت کب تک چکاتے رہیں گے؟پنجاب حکومت نے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔ ہم اس اقدام کو بلا تردد سراہتے ہیں۔ یہ ضرورت ہے، وقت کا تقاضا ہے، اور شہریوں کی دل کی آواز ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں آکسیجن سے جئیں، دھوئیں سے نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کارروائی ایک مکمل سوچ کے ساتھ ہوئی ہے، یا پھر یہ بھی ہماری دیگر “مہمات” کی طرح دکھاوے، وقتی تاثر اور کاغذی کامیابی کا ہتھیار ہے؟ اور کیا واقعی اس دھواں دشمنی کے پیچھے عوام دوستی ہے، یا وہی پرانا رویہ—آسان شکار کو پکڑ لو، اصل مجرموں تک جانے کی ہمت مت کرو؟ہمیں حکومت کی نیت پر شک کرنے کا حق نہیں، مگر یہاں تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ یہ ملک اکثر علامتوں سے لڑتا ہے، بیماری سے نہیں۔ ہم کاغذوں میں اصلاح کرتے ہیں، زمین پر نہیں۔ ہم دکھاتے ہیں کہ ہم عمل کر رہے ہیں، اصل عمل کی طرف بڑھتے نہیں۔ دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے خلاف کارروائی اس وقت معنی خیز ہوگی جب یہ کارروائی صرف غریب رکشہ والے اور ٹیکسی والے تک محدود نہ رہے۔ جب یہ ہر اس گاڑی تک پہنچے جس کی اگزاسٹ سے نہیں، طاقت کے زعم سے دھواں نکلتا ہے۔ جب قانون نہ سڑک کے کنارے کھڑے مزدور ڈرائیور پر بھاری پڑے، بلکہ اس گاڑی پر بھی ہاتھ ڈالے جس کے شیشے کالے، نمبر پلیٹ سرکاری اور ڈرائیور کے چہرے پر طاقت کا غرور ہوتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ مسئلہ محض پرانی بسیں، خستہ حال ویگنیں اور شور مچاتے رکشے نہیں۔ مسئلہ اس سوچ کا ہے جو سڑک پر دھواں چھوڑتی گاڑی کو تو روک لیتی ہے، مگر معاشرے میں دھواں چھوڑتی ذہنیت کو ہاتھ نہیں لگاتی۔ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے ان فیکٹریوں کی چمنیاں دیکھی ہیں جو رات کی تاریکی میں زہریلا دھواں پھونکتی ہیں۔ ہم نے وہ بھٹے دیکھے ہیں جنہوں نے پوری فضا کو بھٹی بنا رکھا ہے۔ ہم نے وہ تعمیراتی مافیا دیکھی ہے جو گرد کو شانِ ترقی سمجھتی ہے۔ کیا ان سب کے خلاف بھی کوئی مہم چلے گی، یا پھر ہمیشہ کی طرح یہ مہم بھی صرف ان لوگوں پر پڑے گی جن کی جیب میں پیٹرول کے پیسے مشکل سے پورے ہوتے ہیں؟ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پنجاب حکومت سنجیدہ ہے تو اسے اس مہم کو صرف ٹریفک مہم نہیں، ماحولیاتی اصلاح کی تحریک بنانا ہوگا۔ ہمیں یہ سوال بھی اٹھانا ہوگا کہ ہم نے کب آخری بار پبلک ٹرانسپورٹ کا بڑا انقلاب دیکھا؟ کیا سڑک پر رکشوں کو پکڑنے سے بہتر نہیں تھا کہ ان کی جگہ الیکٹرک رکشے لانے کا نظام بنایا جاتا؟ کیا ویگن والوں پر جرمانے لگانے سے پہلے کسی نے سوچا کہ انہیں کم سود پر گاڑی تبدیل کرنے کا کوئی راستہ دیا جائے؟ کیا ہم نے صنعتوں کو صاف انرجی کی طرف راغب کرنے کے لئے کوئی پالیسی بنائی؟ کیا ہم نے اسکولوں میں بچوں کو ماحولیات سے محبت سیکھائی؟ یا ہم نے صرف وہی کیا جو ہمیشہ کرتے ہیں—غریب پر قانون، طاقتور پر تعریف۔ہم مانتے ہیں کہ دھواں دشمن ہے۔ لیکن دھواں صرف گاڑی کا نہیں ہوتا۔ سڑک پر دھواں نظر آتا ہے، مگر دفتر کے کمروں میں اٹھنے والا دھواں زیادہ خطرناک ہے—وہ دھواں جو فیصلوں کو دھندلا دیتا ہے، نیتوں کو آلودہ کرتا ہے، اور انصاف کو ناکام بنا دیتا ہے۔ اگر اس ملک نے کبھی دھواں حقیقت میں کم کرنا ہے تو اسے صرف انجن نہیں، سوچ بھی صاف کرنی ہوگی۔ اور سوچ کی صفائی جبر سے نہیں، انصاف سے ہوتی ہے۔ قانون کے ڈنڈے سے نہیں، قانون کی برابری سے ہوتی ہے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تبدیلی صرف حکومت کے ہاتھ میں نہیں۔ ہم سب اس شہر کے شریک مجرم ہیں۔ ہم سڑک پر کچرا پھینکتے ہیں، ہم انجن کی ٹیوننگ سے بچتے ہیں، ہم ماسک پہن کر سمجھتے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ماسک کے پیچھے اپنے ہی بنائے دھوئیں سے بھاگ رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کام کرے، مگر ہم خود کو بدلنے پر تیار نہیں۔ یہ رویہ بدلنا ہوگا۔ تبدیلی اوپر سے بھی آئے گی، مگر نیچے سے بھی اٹھنی چاہیے۔ ورنہ ہم بس شکایت کرتے رہیں گے، اور دھواں ہمیں خاموش کرتا رہے گا۔ہماری ریاست سے یہ عرض ہے کہ اگر واقعی عوام کی صحت عزیز ہے تو پھر اس مہم کو وقتی شوکیس نہ بنائیں۔ اسے نظامی اصلاح سے جوڑیں۔ ایسی حکمت عملی بنائیں جس میں قانون سب کے لیے یکساں ہو۔ چھوٹے ٹرانسپورٹر کے لئے کنورژن قرض ہو، بھٹے کے مالکان کے لئے سخت اصول، صنعتی آلودگی پر فوری سزا، اور شہریوں کے لئے آگاہی مہم۔ سب کے لئے۔ صرف کاغذوں کے لئے نہیں، زمین کے لئے۔ صرف تصویر کے لئے نہیں، سانس کے لئے۔ہمیں لوگوں کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑی صرف ایک پائپ نہیں، ایک رویہ ہے۔ اور رویے معاشرتی تربیت سے بدلتے ہیں۔ حکومت کی مہم میں سیاسی نعرے اور میڈیا کی فوٹو سیشن نہیں، مسلسل عمل، شفافیت اور انصاف شامل ہونا چاہئے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ مہم واقعی تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اگر نہیں تو یہ مہم چند ہفتے بعد فائل میں بند ہو جائے گی، اور دھواں پھر سے آزاد ہو جائے گا—ہمارے پھیپھڑوں پر، ہماری سوچ پر اور ہمارے مستقبل پر۔ہماری ریاست اگر چاہے تو اس مہم کو تاریخی بنا سکتی ہے۔ اور اگر یہ مہم واقعی نیک نیتی سے چلائی گئی تو ہم سب اس کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔ ہم اپنے قارئین سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی گاڑیوں کی ٹوننگ کروائیں، دھواں نہ چھوڑیں، اور ماحول کو پیار دیں۔ یہ ذمہ داری صرف حکومت کی نہیں، ہم سب کی ہے۔ کیونکہ یہ زمین سب کی ہے، یہ فضا سب کی ہے اور یہ مستقبل بھی سب کا ہے۔لیکن ساتھ یہ بھی عرض ہے: قوموں کی صحت صرف پھیپھڑوں سے نہیں، ضمیروں سے جڑی ہوتی ہے۔ اگر قانون کمزور کے لئے سخت اور طاقتور کے لئے نرم ہے تو پھر دھواں صرف سڑکوں پر نہیں، انصاف کے ایوانوں میں بھی بھرا ہوا ہے۔ اور ایسا دھواں سب سے ہلاکت خیز ہوتا ہے۔ہم دعا کرتے ہیں کہ یہ مہم دھواں کم کرے—لیکن ساتھ یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ یہ مہم نظام کو صاف کرے۔ اگر دھواں صاف کرنا ہے تو ضمیر بھی صاف کرنا ہوگا۔ اگر فضا بچانی ہے تو انصاف بھی بچانا ہوگا۔ اگر آنے والی نسلوں کو سانس دینا ہے تو موجودہ نسل کو ذہن کھولنا ہوگا۔اور اگر ہم یہ سب کرنے میں ناکام رہے تو پھر یاد رکھیے، سڑک پر رکشہ پکڑنے کا فائدہ نہیں ہوگا۔ پھر دھواں ہمیں نہیں چھوڑے گا، ہم دھوئیں کو نہیں چھوڑ پائیں گے—اور یہ شہر آہستہ آہستہ سانس لیتے لیتے، ایک خاموش قبرستان میں بدل جائے گا۔ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ شہر دھند سے نہیں، روشنی سے جاگے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بچے اسکول جاتے وقت کھانسی نہ کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ صبح کی ہوا صبح جیسی ہو، رات کی فضا رات جیسی ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ سانس زندگی کا ثبوت ہو، سزا نہیں۔ہم چاہتے ہیں… اور امید رکھتے ہیں کہ ریاست بھی یہی چاہتی ہے۔اگر نیتیں صاف رہیں، فیصلے منصفانہ ہوں، اور عمل مسلسل رہے… تو یقین جانئے یہ دھواں چھٹ سکتا ہے۔ یہ اندھیرا ختم ہو سکتا ہے۔ اور یہ شہر پھر سے سانس لے سکتا ہے۔ہم امید بھی رکھتے ہیں، دعا بھی کرتے ہیں… اور سوال بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ امید کے بغیر قوم نہیں بنتی، اور سوال کے بغیر نظام نہیں بنتا۔
چینی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ
ہم اس ملک کے شہری ہیں۔ ہم نے اس دھرتی پر اتنی قیمتیں بڑھتی دیکھی ہیں کہ اب حیرت بھی مہنگی ہو گئی ہے۔ مگر پچھلے چند ہفتوں میں چینی کی قیمتوں نے جس بے رحمی سے عوام کی جیبوں پر یلغار کی ہے، وہ صرف مہنگائی نہیں بلکہ ایک کھلا اعلان ہے: یہاں ضرورتِ زندگی بھی منڈی کے رحم پر ہے اور منڈی اربابِ طاقت کے رحم پر۔ ایک زمانہ تھا جب چینی کو عام آدمی کی غذائی ترجیح سمجھا جاتا تھا۔ اور آج یہ ایک سیاسی و معاشی ہتھیار ہے۔ قیمتیں اس طرح نہیں بڑھیں، جیسے ضرورت بڑھتی ہے، بلکہ ایسے پھاڑ کر اوپر گئی ہیں جیسے کسی غریب کے دل پر آری چلتی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں، یہ ملک کس کا ہے؟ وہ سرمایہ داروں کا جن کے لئے چینی روپیہ نہیں، سیاسی بیڑیوں کی چابی ہے؟ یا ان کروڑوں محنت کشوں کا جو صبح لسی پی کر مزدوری پر جاتے ہیں اور شام کو گھر لوٹتے ہوئے بچوں کے ہاتھ خالی دیکھ کر آنکھیں چرا لیتے ہیں؟ کیا ریاست صرف طاقتور کے لئے ہے؟ عام آدمی کا تحفظ، اس کی ضرورتیں، اس کا جینے کا حق کہاں ہے؟ چینی کی قیمتیں آج آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ حکومتی دعوے، پریس کانفرنسیں، ڈیٹا شیٹس، کمیٹیاں — یہ سب فائلوں کی ایک دنیا ہے۔ لیکن عوام کی دنیا کچن ہے، جہاں چائے کا کپ بھی اب سوچ سمجھ کر پکتا ہے، جہاں بچے اب سوکھے بسکٹ چائے کے بغیر کھاتے ہیں، جہاں محلے کی دکان پر کریڈٹ کا رجسٹر گھر بھر کے وزن سے بھاری ہو گیا ہے۔ ہم یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں: آخر اس ملک میں چینی کی قیمتیں کیوں بے قابو ہوئیں؟ مارکیٹ سپلائی کا مسئلہ، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، حکومتی بے بسی، سیاسی سرپرستی — یہ سب جواب ہیں مگر اصل جواب ایک نہیں، کئی ہیں، اور ہر جواب کے پیچھے ایک خوفناک حقیقت چھپی ہے: یہاں کسی قانون سے زیادہ طاقت پیسہ اور تعلق رکھتا ہے۔ چینی کی قیمتوں میں اضافہ صرف معاشی بحران نہیں، یہ طاقت کا مظاہرہ ہے۔ وہ طاقت جو فیصلے کرتی ہے کہ عوام کب روئیں، کب خاموش رہیں، کب صبروتحمل کو حب الوطنی کا نام دیا جائے، اور کب غریب کو نصیحت کی جائے کہ شکر کم استعمال کریں۔ کیا عجب ہے، کل کوئی وزیر یہ بھی کہنا شروع کر دے کہ چینی صحت کے لیے نقصان دہ ہے، لہٰذا قیمت میں اضافہ دراصل عوام کی بھلائی ہے۔ ہم اس بیانیے سے واقف ہیں۔ یہی بیانیہ آٹا، گھی، ادویات اور پیٹرول کے وقت بھی سامنے آیا تھا۔ ہر مرتبہ یہی کہا گیا: صورتحال عالمی سطح پر ہی خراب ہے”، “بزنس کمیونٹی بے لگام ہے”، “حالات مشکل ہیں”، اور ہر مرتبہ اس جھوٹے تسلی نامے کے نیچے عوام کے سر دب جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب تک عالمی قیمتیں اوپر جائیں ہم ان کے ساتھ روئیں، مگر جب نیچے آئیں تو ہم کیوں نہیں ہنستے؟ آخر یہ یکطرفہ وفاداری کیوں؟ اگر منڈی ہی سب کچھ طے کرتی ہے تو پھر وزیرِ خزانہ کیوں؟ پھر وزارتِ خوراک کیوں؟ پھر ریگولیٹرز کیوں؟ پھر حکومت کا اختیار کہاں ہے؟ یا پھر حکومت کا اختیار صرف اتنا ہے کہ وہ پریس کانفرنس کرے، اور عوام دلاسے پر زندگی گزاریں؟ چینی کی قیمتوں کے پیچھے ملک کی ایک خاموش جنگ ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہیں چینی نہیں منافع چاہیے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہیں چینی چاہیے تاکہ زندگی کا مزہ برقرار رہے۔ اور درمیان میں حکومت ہے جو کبھی میڈیا پر سخت نظر آتی ہے مگر گودھولی میں سرمایہ داروں کے دروازوں پر فائلیں لے کر کھڑی ہوتی ہے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں چینی کی صنعت، سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے۔ جن کے ہاتھ میں قانون ہے، انہی کے ہاتھ میں چینی ہے۔ ریاست اور کاروبار کا یہ ملاپ دراصل طاقت کی وہ تصویر ہے جس میں عوام صرف پس منظر ہوتے ہیں۔ چینی ملے بند ہوتی ہیں، ریلیز کم ہوتی ہے، اسٹاک بے حساب رکھا جاتا ہے، اور پھر اچانک اعلان ہوتا ہے: “ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔” مگر کارروائی کہاں؟ کس کے خلاف؟ کتنے بڑے نام سامنے آئے؟ کتنی سیاسی پرچھائیاں ٹوٹی؟ کتنے عربوں کی رقوم ضبط ہوئیں؟ نہیں۔ صرف چند ٹرک، چند چھوٹے گودام، چند پرچون والے — اصل کہانی قوم پر احسان کے انداز میں سنائی جاتی ہے اور اس احسان میں عوام کے لیے نمکین آنسو ہوتے ہیں، نہ کہ مٹھاس۔ ہم جانتے ہیں کہ اس ملک میں چینی ہے، وافر مقدار میں ہے۔ گنے کی فصل ہے، ملیں ہیں، مزدور ہیں۔ مگر مسئلہ پیداوار نہیں، مسئلہ نیت ہے۔ مقصد چینی بیچنا نہیں بلکہ قوم کو پستہ کرنا ہے اور منافع بڑھانا ہے۔ اصل دباؤ صرف عوام پر ڈالا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ صرف معاشی نہیں، یہ اخلاقی اور سیاسی بھی ہے۔ یہ بات ہمیں بھی سوچنی چاہیے کہ ہم عوام کب تک قربانی دیں گے؟ کب تک یہ کہتے رہیں گے کہ حالات بہتر ہو جائیں گے؟ کب تک بجٹ اور اخبارات اور وزراء کی گفتگو ہمیں امید دلائیں گے؟ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ریاست کمزور ہو جائے اور منڈی طاقتور ہو جائے تو عوام غلام ہو جاتے ہیں۔ ایک غلام قوم کا چینی کے لیے جدوجہد کرنا محض معاشی مسئلہ نہیں بلکہ ایک ذہنی زنجیر ہوتی ہے۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ قوم کے اندر بھی کمزوریاں ہیں۔ ہم بھی کبھی سستی چینی کے چکر میں غلط ہاتھوں کو طاقت دیتے ہیں، ہم بھی ذخیرہ اندوزی کا حصہ بنتے ہیں، ہم بھی بحران میں قیمتیں بڑھا کر اپنے آپ کو چالاک سمجھتے ہیں۔ لیکن اصل جرم ان کا ہے جن کے پاس طاقت ہے، اور طاقت کے ساتھ ذمہ داری ہوتی ہے۔ سستا آٹا، سستی چینی، سستی دوائیں—یہ بنیادی حق ہیں۔ ریاست قوم کے پیسوں سے چلتی ہے، اور قوم کو جواب دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں حکومت سے چند مطالبات ہیں: چینی کے اسٹاک اور پیداوار کا شفاف آڈٹ ہو، چینی مافیا کے خلاف کارروائی صرف کاغذی نہ ہو بلکہ عملی ہو، چینی ملوں کے مالکان کا احتساب ہو، ذخیرہ اندوزی پر فوری سزا اور ضبطی ہو، قیمتوں کے تعین کا عوام دوست طریقہ ہو، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ یہ ملک ان کا بھی ہے، صرف طاقتور کا نہیں۔ ہمیں اپنی معاشی سمت بدلنی ہوگی۔ ایسی معیشت جو عوام کی جیب سے طاقتور کو سہارا دے، وہ معیشت نہیں، ظلم ہے۔ ہمیں خود کو بدلنا ہوگا، نظام بدلنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ چینی کی بڑھتی قیمتیں صرف چینی کا مسئلہ نہیں — یہ ہماری اجتماعی بے بسی کی علامت ہیں۔ یہ ہر اس آنسو کی علامت ہیں جو ماں دودھ کے بجائے چائے پلاتے ہوئے بہاتی ہے۔ یہ ہر اس دل کے درد کی علامت ہیں جو تنخواہ ملتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ چینی کا بحران دراصل احساس کا بحران ہے۔ ہم یہ اداریہ اس اعتراف کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ ریاست کا فرض صرف سرحد بچانا نہیں، باورچی خانہ بھی بچانا ہے۔ اگر باورچی خانہ جل جائے تو سرحد بھی محفوظ نہیں رہتی۔ خدا کرے کہ یہ ملک اپنے شہریوں کو زندہ قوم بنائے، چینی کے محتاج نہیں، عزت کے صاحب کرے۔ ورنہ ایک دن ایسا آئے گا کہ لوگ چینی نہیں مانگیں گے — انصاف مانگیں گے۔ اور جس دن عوام انصاف مانگنے کھڑے ہوئے، چینی مافیا نہیں، پوری طاقت کا توازن بدل جائے گا۔ وقت ہے کہ ہم جاگیں۔ وقت ہے کہ حکومت سوچے۔ وقت ہے کہ چینی کے دانے میں عوام کے آنسو نہ ملیں بلکہ انصاف کی خوشبو آئے۔ ورنہ تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے — اور وہ یاد رکھتی ہے کہ کب قوم نے حق کھویا اور کب طاقت نے فریب خریدا۔ہے۔
شیئر کریں
:مزید خبریں
یونان کشتی حادثہ: متعدد ایف آئی اے افسران برطرف، ڈپٹی ڈائریکٹر ملتان سمگلرز کا رابطہ کار نکلا
جی ایم نہ چیئرمین این ایچ اے، جنوبی پنجاب ہائی ویز تباہ، حادثات 50 فیصد بڑھ گئے
مظفرگڑھ: فائرنگ سے زخمی نوجوان کی کٹی ٹانگ سمیت لواحقین کااحتجاج
خواتین یونیورسٹی تنازعات کا شکار، وی سی کی بے حسی برقرار، فیکلٹی کی تبدیلی کی دعائیں
پنجاب بھر میں 82 ہزار گاڑیاں، موٹر سائیکلیں بند، طلبہ گھروں میں “قید”
وارڈن سسٹم سے اتھارٹیز تک شاہانہ اخراجات عوام سے پورے کرنے کی خفیہ پالیسی نافذ