سرمایہ کاری کا بحران اور اعتماد کی ٹوٹتی دیوار

پاکستان ایک ایسے نازک معاشی موڑ پر کھڑا ہے جہاں بیرونی سرمایہ کاری کا گراف مسلسل نیچے جا رہا ہے، جبکہ عالمی اور علاقائی سرمایہ کار اعتماد کھوتے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی محض ایک اقتصادی اعداد و شمار کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ریاستی حکمرانی، پالیسی عدم استحکام اور معاشی نظم و ضبط کے سنگین بحران کی علامت ہے۔قطر کے الثانی گروپ کا پورٹ قاسم کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے سے اپنے انچاس فیصد حصص بیچنے کا فیصلہ محض ایک کاروباری قدم نہیں، بلکہ پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے اہم ترین توانائی منصوبوں میں شمار ہوتا ہے، جس میں قطر نے ایک ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کی تھی۔ مالی واجبات کی مسلسل عدم ادائیگی اور زرِ مبادلہ کے بحران نے اس منصوبے کو کھٹائی میں ڈال دیا ہے، اور اب صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ منصوبہ بند ہونے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔یہ مسئلہ صرف ایک پلانٹ یا ایک سرمایہ کار تک محدود نہیں۔ چین کے دیگر توانائی منصوبوں کے واجبات بھی اربوں روپے میں لٹکے ہوئے ہیں، جس سے مستقبل کے تعاون، توانائی تحفظ اور علاقائی اعتماد پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے نہ صرف سفارتی بلکہ معاشی محاذوں پر بھی نقصان دہ ہے۔ اگر حکومت اپنے معاہداتی وعدے پورے کرنے سے قاصر رہے تو کون سا ملک یہاں سرمایہ لانے کا سوچے گا؟گزشتہ برسوں میں نو بین الاقوامی کمپنیوں کا پاکستان سے نکل جانا اس بحران کا کھلا ثبوت ہے۔ دواساز کمپنیوں سے لے کر تیل و گیس، ٹیکنالوجی اور اشیائے صرف کے شعبوں تک، بڑے ادارے پاکستان کو چھوڑ چکے ہیں۔ یہ صرف اقتصادی نقصان نہیں، بلکہ روزگار، ٹیکنالوجی اور عالمی رابطہ کاری کا بھی نقصان ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ حکومتی نمائندے اس صورتحال پر لاعلمی ظاہر کر رہے ہیں، جو پالیسی سطح پر گہرے انتشار اور غیر سنجیدگی کی تصویر ہے۔سوال یہ ہے کہ سرمایہ کار پاکستان سے کیوں جا رہے ہیں؟ جواب واضح ہے: پالیسیوں میں عدم تسلسل، معاہدات کی خلاف ورزی، قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت، نجی شعبے کے لیے مشکلات، اور سب سے بڑھ کر فیصلہ سازی میں تاخیر۔ عالمی سرمایہ کار نفع کے ساتھ استحکام، شفافیت اور اعتماد چاہتے ہیں — اور یہی وہ عناصر ہیں جو ہماری معاشی ترتیب میں کمزور ترین ہیں۔اس وقت ملک کے لیے سب سے ضروری ہے کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر اعتماد بحالی کا پروگرام شروع کرے۔ توانائی منصوبوں کے واجبات کی ادائیگی، بیرونی سرمایہ کاروں کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات، اور پالیسی تسلسل کی ضمانت وہ بنیادی نکات ہیں جو معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں۔ یہ وقت سیاسی بیانات اور معمولی اعلانات کا نہیں، بلکہ فیصلہ کن اقدامات کا ہے۔پاکستان جب تک اپنے وعدوں کی پاسداری اور سرمایہ کار دوست ماحول کی فراہمی یقینی نہیں بناتا، اس وقت تک عالمی سرمایہ اور اعتماد دونوں واپس نہیں آئیں گے۔ ہماری معیشت صرف امداد یا قرضے سے نہیں چل سکتی — اسے پائیدار سرمایہ کاری، صنعت کاری اور طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔وقت کم ہے۔ اگر آج ہم نے اصلاح کی راہ نہ اپنائی تو کل شاید سرمایہ بھی نہیں بچے گا اور اعتماد بھی۔ پاکستان کو اب انتخاب کرنا ہے — معاشی سنجیدگی اور عالمی ذمہ داری یا پھر تنہائی اور مسلسل بحران۔ فیصلہ تاریخ کے سامنے ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں