آج کی تاریخ

Let him die in the chair

کوئی پستی سی پستی ہے( قسط 5)

تحریر:میاں غفار(کارجہاں)

بہاولپور کے ایک پٹواری نے اپنے دور کی ایک انتہائی خوبصورت طوائف سے شادی کر رکھی تھی اور پٹواری سے شادی کرنے کیلئے طوائف نے ایک بہت اعلیٰ خاندان کے نوجوان سے زبردستی طلاق لی حتیٰ کہ طلاق دینے سے انکاری پر اسے تشدد کا نشانہ بھی بنوایا کیونکہ وہ کنگال ہو چکا تھا۔ پٹواری کا معمول تھا کہ وہ جب بھی طوائف سے ملنے جاتا تو وہ تحائف کے علاوہ نئے نوٹ بھی جیب میں رکھتا۔ ایسے نوٹ جو بنک سے نکل کر کسی کے ہاتھ میں نہیں جاتے تھے بلکہ نئے نوٹوں کی گڈی وہیں اس کے سامنے کھولتا اور ایک نوٹ پر کچھ اس طرح سے سجدہ کرتا کہ وہ نوٹوں کو بستر پر رکھتا‘ اسے آنکھوں سے لگاتا، ان پر ماتھا ٹیکتا وہ بھی کچھ اس طرح کہ اس کی ناک اور پیشانی بیک وقت نوٹوں کو لگتی پھر وہ نوٹ دیگر نوٹوں میں ملا کر اپنی طوائف اہلیہ کے قدموں میں رکھ دیتا اور پھر ہم نوالہ دوستوں کو بتاتا۔ ایک دن اس کے ایک رازدان نے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ پٹواری کا جواب تھا کہ جتنی یہ خوبصورت ہے اتنا ہی خوبصورت وہ نوجوان تھا جسے یہ چھوڑ کر میرے پاس آئی۔ میری نہ شکل و صورت اس جیسی ہے نہ جاہ و جلال۔ بس نوٹوں کا فرق ہے جو اس کے پاس ختم گئے تھے اور میرے پاس وافر ہیں لہٰذا یہ میری نہیں نوٹوں کی بیوی ہے۔ اسے مجھ سے نہیں نوٹوں سے عشق ہے اور اگر یہ میرے پاس نہ رہے تو یہ بھی میری نہیں رہے گی۔یہ ماضی بعید کے ان دنوں کے قصے ہیں جب نوٹوں پر صرف طوائفیں ہی عاشق ہوتی تھیں اب یہ شوق ہر بااختیار اور بارسوخ نے پال رکھا ہے۔میرے دوست اشرف سعیدی بتایا کرتے تھے کہ پرانے وقتوں میں بعض طوائفیں اپنے بچوں کی ولدیت کے خانے میں پیسہ لکھوایا کرتی تھیں تاہم باوجود کوشش وہ کہروڑ پکا کے بازار حسن سے مضبوط روابط رکھنے والے کسی ذریعے کوئی ایسی جنم پتری نہیں حاصل کر سکے جس پر ولدیت کے خانے میں پیسہ لکھا ہوا ہوتا البتہ یہ بات میں نے اور بھی بہت سے لوگوں سے سن رکھی ہے۔ وہ بھلے زمانے تھے پیسے کو ایمان کا درجہ حاصل نہیں تھا جس طرح آج ہے۔ تب کردار پیسے سے بہت بھاری ہوا کرتا تھا۔ اب سارا وزن اور وژن پیسے ہی کے پاس ہے اور کردار اس کے اشاروں پر سر بازار رقص کرنے میں بھی جھجک محسوس نہیں کرتا۔ پاکستان میں گذشتہ چار دہائیوں سے صرف اور صرف پیسہ ہی حکومت کر رہا ہے اور تین دہائیوں قبل خان عبدالولی خان کی کہی ہوئ بات حرف بحرف درست ثابت ہو رہی ہے۔آپ ہر فیصلے کے پیچھے پیسہ ہی چھپا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ حتہ کہ پیسے دو اور کسی کو بھی زندگی سے موت کی طرف روانہ کر دو۔ ڈوبی ہوئی رقم کا تیسرا حصہ دو اور ہر طرح سے جائز ناجائز ریکوری کرا لو کہ پولیس کا یونیفارم حاضر خدمت ہے۔پیسہ دو اور کسی بھی یتیم کا مال ہضم کر لو۔ پنجاب بھر میں سود خوروں ‘ ناجائز کاروبار کرنے والوں نے باقاعدہ باوردی اہلکار اپنے پے رول پر رکھے ہوئے ہیں جو ان کے لئے ریکوریاں کراتے ہیں۔ کیا کبھی کسی بااختیار کو خیال آیا کہ یہ مائیکرو فنانس بنک کیا شرح منافع لے رہے ہیں؟ جی ہاں 36 سے 40 فیصد تک۔ پھر انہوں نے باقاعدہ غنڈے بھرتی کر رکھے ہیں جو چند ہزار کی ریکوری کیلئے لوگوں کو سرعام تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ بعض نے تو نجی ٹارچر سیل بھی بنا رکھے ہیں۔ گھروں میں گھس جانا، عورتوں سے بدتمیزی حتیٰ کہ بے حرمتی کرنا ان کا معمول ہے اور اگر کسی طاقت ور کا ضمیر جاگے جو کہ پاکستان میں مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کہ ہمارے دینی مدارس اور علمائے کرام نے ہر ظالم، ہر غاضب، ہر قاتل، ہر قابض، ہر فاسق اور ہر جابر کو یہ خوشخبری سنا رکھی ہے کہ کلمہ گو ہونے کے ناطے اس نے ہر حال میں جانا تو جنت ہی میں ہے اور کوئی عالم دین قرآن مجید کی وہ آیت نہیں بتاتا جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ جنت اس وقت تک نہیں ملے گی جب تک اونٹ سوئی کے نکے میں سے نہیں گزر جائے گا یعنی اتنا سخت حساب ہو گا تو آخر میں رحمت غالب آئے گی۔ یہ تو عبدالستار ایدھی پر بھی تنقید کرتے رہے کہ وہ لوگوں کے ’’گناہ‘‘ کو جھولے میں کیوں ڈالتا ہے؟ان علمائے کرام کے نزدیک تو اللہ کو ماننے والی عظیم ہستی رتھ فاو بھی جہنمی ہے کہ جس نے 29 سال کی عمر میں اپنی انتہائی خوبصورت زندگی چھوڑ کر دنیا کے بہترین ملک سے پاکستان کا انتخاب کیا اور اکیلی عورت نے اس ملک سے جذام یعنی کوڑھ کے مرض کا خاتمہ کر کے پاکستان کو جذام فری ملک بنا دیا۔ زندگی بھر شادی نہ کی اور ساری زندگی اپنے گھر اور خاندان سے ہزاروں میل دور ایسے مریضوں کے لئے وقف کر دی جنہیں لوگ کوڑھ کے باعث گھروں سے نکال کر جنگلوں میں مرنے کیلئے چھوڑ آتے تھے۔ مزید لکھوں تو مفتیان کے درازوں میں پڑے سینکڑوں لیٹر پیڈز پر درجنوں فتوے آئے کہ آئے لہٰذا اس دعا کے ساتھ خاموش ہوتا ہوں کہ اللہ کر کے دوبارہ جذام سر نہ اٹھائے اور جذام کے مریض پیروں کے دم درود اور بوتلوں پڑھے پانی پر نہ لگ جائیں کہ اب رتھ فاو اللہ کے حضور پیش ہو چکی ہیں۔دو سال پرانی بات ہے ملتان سے ٹرانسفر ہو کر جہلم کے علاقے میں جانے والے میرے ایک محترم دوست کا فون آیا۔ کہنے لگے یہ میرے دوست ہیں ان سے بات کریں۔ میں نے کہا جی کرائیں تو فون پکڑتے ہی انہوں نے دھمکی آمیز انداز میں کہا یہ دھنوٹ لودھراں کے ہمارے دوست بہت عزت دار ہیں اور بہت اچھے کاروباری ہیں۔ آپ کا نمائندہ ان کے خلاف خبریں لگا رہا ہے اسے منع کریں ورنہ نتائج کا وہ خود ذمہ دار ہو گا۔ میں نے گزارش کی کہ آپ جن کی سفارش کر رہے ہیں وہ بدنام سود خور ہیں اور چند سال قبل انہوں نے یہاں آ کر رہائش اختیار کی تو مزدوری کرتے تھے آج کروڑوں میں کھیل رہے ہیں اور ان کا سود کا بہت بڑا نیٹ ورک ہے جبکہ انہوں نے بعض افسران باقاعدہ طور پر تنخواہ اور کمیشن پر رکھے ہوئے ہیں جو ان کے اشارے پر لوگوں کو اٹھا لے جاتے ہیں۔ وہ مزید تلخ ہونے لگے تو میں نے کہا کہ مذکورہ سود خوروں کے خلاف تمام خبریں میں ہی لکھ رہا ہوں اور آپ نے جس سرکاری نمبر سے فون کیا ہے‘ میرے پاس آ گیا ہے میں آپ کے اعلیٰ حکام کو شکایت کروں گا اور لکھ کر بھجوائوں گا۔ بس پھر موصوف ڈھیلے پڑ گئے اور مجھے معلوم ہوا کہ مذکورہ سود خور کیلئے یہی موصوف ریکوری آفسر کے فرائض سرانجام دیتے تھے اور ہر قسم کی سہولت دیا کرتے تھے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں