آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

چاچا خوامخواہ

تحریر: ڈاکٹر ظفر چوہدری (روداد زندگی)

ڈاکٹر چوہدری سرور اسلامی جمعیت طلبا اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن میں شاندار خدمات سر انجام دینے کے بعد آجکل الخدمت فاونڈیشن کے زیر اہتمام الخدمت ڈائیگناسٹک سنٹر ملتان کے انچارج ہیں۔ ڈاکٹر سرور اپنے آبائو اجداد کی روایات، رواداری، مہمان نوازی اور بے لوث خدمت کے امین ہیں۔ چند روز قبل ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی یا سید مودودی نے کبھی بھی قائد اعظم کو کافراعظم نہیں کہا تھا۔ یہ بات کسی اور پاکستان مخالف جماعت کے سربراہ نے کی تھی۔وہ دنیا میں نہیں تو کیا نام لینا مرحومکا، ان کی روح شرمسار ہو گی۔ ویسے بھی اب ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ میں ذاتی طور پر ڈاکٹر سرور کی بات کو درست سمجھتا ہوں کیونکہ میں نے جماعت کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ انہوں نے کبھی کوئی سوال نہیں اٹھایا۔
آج میں زمانہ طالب علمی کے افسوسناک واقعہ بارے بتانا چاہتا ہوں۔1973 کےآخر میں گورنمنٹ کالج آف سائنس ملتان میں میری ایک سینئر طالب علم سے شدید لڑائی ہوئی۔ مجھے آج اس طالب علم کا نام یاد نہیں آ رہا۔ قطع نظر اس سے کے قصور کس کا تھا بلکہ اب تو میں یہ سمجھتا ہوں ایک ہی عمر کے دو لڑکوں یا مردوں کے درمیان جھگڑے پر کسی ایک کو ذمہ دار نہیں سمجھنا چاہئے۔ اس میں کسی کا قصور زیادہ ہوتا ہے اور کسی کا کم مگر ہوتے دونوں قصوروار ہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا قصور زیادہ تھا۔ جذباتی پن کی خامی مجھ میں ہمیشہ رہی ۔ جس کا نقصان بھی زندگی میں بہت اٹھایا مگر اس لڑائی کے بعد کبھی ہاتھا پائی کی نوبت بھی نہیں آئی اور تو تکرار تک ہی بات ختم ہو جاتی۔
لڑائی دو افراد کے درمیان ہو۔ دو خاندانوں کے درمیان ہو۔ وہ قبائل کے درمیان ہو یا دو ملکوں کے درمیان دونوں ہی فریقین کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ افراد، خاندان، قبائل اور ملک لڑائیوں کے نتیجےمیں آخر کار تباہ ہی ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ 80 سالوں میں جرمنی، جاپان اور چین نے جنگوں سے اجتناب کر کے بے مثال ترقی کی ہے۔ اس طرح اپنا وقتی نقصان کرکے معاملات کو سمجھانے کی صلاحیت رکھنے والے تاجر بھی ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔ ہندو بننے کی تجارت کی مثالیں ہمارے بزرگ سنایا کرتے تھے کہ وہ کسی سے لڑتے نہیں تھے۔ دوسری خوبیوں کے علاوہ یہ بھی ان کی بنیادی خوبی سمجھی جاتی تھی۔
میں پھر بھٹک گیا ہوں۔ اس جھگڑے پر پرنسپل سائنس کالج ملتان پروفیسر خواجہ اظہر صاحب نے مجھے بلا کر کہا کہ تمہیں کالج سے نکال دیا جائے گا۔ جسے Restigate کرنا کہتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ میں تمہارے والد صاحب کو خط لکھوں گا تا کہ ان کے علم میں بھی یہ بات لائی جائے۔ میں اپنے والد صاحب کو یہ دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔ کیونکہ ان کی محبت اور شفقت سے محروم ہونے کا خوف ہمیشہ ہوتا تھا۔ میں نے اس پریشانی کا ذکر اپنے دوست خلیل سے کیا تو اس نے مشورہ دیا اپنے گائوں کے ڈاکخانہ سے پرنسپل صاحب کی جانب سے لکھے جانے والے خط کو خود ہی وصول کر لو۔ پھر سوچیں گے کیا کرنا ہے۔ خط کالج سے لکھے جانے کے فوری بعد میں گھر چلا گیا اور ڈاکیے سے خط وصول کرکے واپس کالج آ گیا۔ خلیل کو بتایا اب کیا کریں۔ اس نے مشورہ دیا کہ کسی سمجھدار بندے کو تمہارا چچا بنا کر پرنسپل صاحب سے ملوا دیتے ہیں اور پھر ایسے شخص کی تلاش بھی خلیل نے کر لی۔ خلیل نےایک سمجھدار چند جماعت پڑھا ہوا ادھیڑ عمر شخص تلاش کر لیا اور قائل بھی کر لیا۔ اسے یہ بھی کہا کہ آپ کے پاس ذرا صاف ستھرے کپڑے ہونے چاہئیں چاہے دھوتی اور قمیض ہی ہو ۔ اس نے کہا کہ میں بندوبست کر لوں گا۔ اس نے میری مظلومیت بھری کہانی سنی اور ساتھ اسے یہ بھی کہا کہ ہم آپ کی اپنی حیثیت کے مطابق خدمت بھی کر دینگے۔ اس شخص نے کہا بیٹا کوئی بات نہیں آپ فکر نہ کریں۔ خلیل صاحب نے اسے بتایا کہ آپ پرنسپل صاحب کی منت سماجت کر کے معافی تلافی دلا دیں۔ وہ شخص ہماری توقع سے کہیں زیادہ سمجھدار اور فن گفتگو کا ماہر نکلا۔ جب اپنے نقلی چچا کے ساتھ پرنسپل صاحب کے سامنے پیش ہوا۔خواجہ اظہر صاحب نے سارا واقعہ بتانے کے بعد کہا کہ آپ بتائیں اسے کیا سزا دی جائے تو اس نقلی چاچے نے کہا میرے بھائی نے تو یہ خط سننے کے بعد کہا ہے کہ اسے کالج سے نکال دیں اور میں اسے جائیداد سے بھی عاق کرکے گھر سے نکال دونگا۔ میں بھی اس کے لئے معافی مانگنے نہیں آیا۔ میرے بھائی نے بلکل صحیح فیصلہ کیا ہے مگر میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں ہم تو اپنے بچے آپ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ آپ نے ہی ان کی پڑھائی کے علاوہ تربیت کرنی ہوتی ہے۔آپ ہی بتائیں ہم بڑی محنت کرکے ان کا خرچہ برداشت کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے طلبا کی ایسی ہی تربیت کی ہے۔ میں بھی چاہتا ہوں اسے نکال دیا جائے تاکہ یہ کھیتی باڑی کرے اور اس کو پتہ چلے پینٹ کوٹ پہن کر پڑھنے اور کاشتکاری میں کیا فرق ہے۔ یقین کریں یہ اس کی اداکاری کا کمال تھا کہ پرنسپل خواجہ اظہر صاحب ازخود انہیں قائل کرنے لگے کہ ظفر اچھا طالب علم ہے آپ اسے گورنمنٹ کالج آف سائنسز لاہور مائیگریٹ کروادیں۔ میں خود وہاں کے پرنسپل کو فون بھی کر دوں گا ساتھ سفارشی رقعہ بھی لکھ دوں گا اور یقینی طور پر اس کی مائیگریشن ہو جائے گی۔ آپ اس کا مستقبل تاریک نہ کریں۔ اس نے میری طرف دیکھا پھر کہا نہیں جی ہم تو اسے اب پڑھانا ہی نہیں چاہتے کسی اور کالج میں جا کر بھی یہی حرکت کرے گا کیونکہ آجکل اساتذہ صرف تعلیم پر توجہ دیتے ہیں تربیت پر نہیں۔
خواجہ اظہر صاحب نے باقاعدہ نقلی چچا کو قائل کرنا شروع کر دیا تو نقلی چچا نے کہا میں اس کے والد صاحب سے بات کر کے بتاوں گا۔ پرنسپل صاحب نے کہا آپ ظفر کو بتا دیں۔ میں اس کی مائیگریشن کے علاوہ وہاں ہاسٹل میں بھی داخل کروادل دوں گا۔ اس زمانے کے اساتذہ بظاہر ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے مگر طلبا کے مستقبل کے بارے میں فکر مند بھی رہتے تھے۔ میں نے جب خلیل کو بتایا کہ اگر نقلی چچا کو فلموں میں اداکاری کا موقع ملتا تو واقع کامیاب کریکٹر ایکٹر ہوتا۔ جس پر خلیل نے کہا کہ یہ نقلی چچا نہیں چاچا خامخواہ ہے۔ اب تمہارا کیا ارادہ ہے۔ میں نےکہا کہ لاہور چلے جاتے ہیں۔ اس پر خلیل افسردہ ہوگیا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں