آج کی تاریخ

فوڈ بلاگنگ کے نام پر مفت خوری، کھانے تحائف کے بدلے جھوٹے سچے ریویوز، ریسٹورنٹس تنگ

ملتان(غلام دستگیرچوہان سے)فوڈبلاگنگ کے نام پرمفت خوری کادھندا زورپکڑگیا۔کھانے یا تحائف کے بدلے جھوٹے سچے ریویوز دینے لگے، ریسٹورنٹس مالکان تنگ آگئے۔پاکستان میں سوشل میڈیا کے عروج نے فوڈ بلاگنگ کو ایک باقاعدہ صنعت میں تبدیل کر دیا ہے۔ انسٹاگرام، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور فیس بک پر ہزاروں نوجوان مرد و خواتین کھانے پینے کے شوق کو ویڈیوز اور تصاویر کے ذریعے سوشل میڈیا شہرت میں بدل رہے ہیں مگر اس رجحان کے ساتھ ’’فری کھانے کے بدلے ریویو‘‘کا نیا اور متنازعہ سلسلہ بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ڈیجیٹل ریسرچ کمپنی ’’ڈیٹا دربار پاکستان‘‘کی 2024 رپورٹ کے مطابق ملک میں اس وقت آٹھ ہزار سے زائد فوڈ بلاگرز سرگرم ہیں، جن میں سے چالیس فیصد بلاگرز ایسے ہیں جو فری کھانے یا تحائف کے بدلے ریویوز دینے کے رجحان پر عمل کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اپنے پیجز پر واضح نہیں کرتے کہ ریویو سپانسرڈ ہے یا نہیں، جس سے صارفین کو دھوکا ہو سکتا ہے۔ملتان میں مختلف ریسٹورنٹس کے مالکان ومنیجرزنےنام شائع نہ کرنےکی شرط پربتایاکہ روزانہ کی بنیادپرنوجوان لڑکے لڑکیاں موبائل،کیمرےاٹھاکرآجاتےہیںاورفوڈبلاگنگ کے نام پرمفت پیزے،برگرز،شوارما،کڑاہی ودیگرلوازمات کاتقاضاکرتےہیں۔ساتھی ہی کہاجاتاہے کہ ہم سوشل میڈیاپیجزاورگروپس میں آپکامثبت ریویودینگے،اس سے آپکی آمدن میں اضافہ ہوگا۔آپکاہوٹل یاریسٹورنٹ وائرل ہوجائے گا۔انکارپرمنفی ریویودینےکی دھمکی دی جاتی ہے،مجبوراًہمیں انکی بات مان کرمفت میں کھانا کھلاناپڑتاہے۔اس حوالے کوئی توہوجو آواز اٹھائے۔لاہور کے ایک معروف ریسٹورنٹ کے منیجر علی حمزہ نےبتایا کہ روزانہ کئی بلاگرز آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ فری کھانا دیں ہم ویڈیو بنا دیں گے۔ ان کے مطابق کچھ بلاگرز واقعی پروفیشنل ہیں مگر زیادہ تر صرف مفت کھانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہم انکار کر دیں تو وہ منفی ریویو کی دھمکی دیتے ہیں۔کراچی کے ایک ریسٹورنٹ مالک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم نے ایک بار فری کھانا دینے سے انکار کیا تو اگلے ہی دن اس بلاگر نے ویڈیو ڈال دی کہ کھانا ناقص تھا۔ حالانکہ وہ کھانا اس نے کھایا ہی نہیں تھا۔ فوڈ انڈسٹری کے تجزیہ کار حسن نثار جونیئر کے مطابق پاکستان میں فوڈ بلاگنگ ابھی منظم نہیں، نہ کوئی ضابطہ کار ہے اور نہ شفافیت کا معیار طے ہے۔زیادہ تر نوجوان بلاگرز اپنی پسند یا مالی مفاد کے مطابق ریویو دیتے ہیں۔ کچھ برانڈز پیسے یا فری کھانے دے کر اپنی پروموشن کرواتے ہیں جس سے ناظرین گمراہ ہوتے ہیں۔ فوڈ نیٹ ورک پاکستان کے 2025 کے سروے کے مطابق 58 فیصد عوام سمجھتے ہیں کہ فوڈ بلاگرز کے ریویوز مکمل طور پر غیرجانبدار نہیں ہوتے جبکہ 29 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ کسی ریسٹورنٹ جانے سے پہلے بلاگر ریویو پر اب بھروسہ نہیں کرتے۔ ایک شہری نوید اقبال نے بتایا کہ میں نے ایک بلاگر کے ریویو پر ریسٹورنٹ کا دورہ کیا لیکن وہاں کا کھانا ویسا نہیں تھا جیسا اس نے دکھایا تھا۔ تب سے میں صرف تب ہی یقین کرتا ہوں جب کسی عام صارف کی پوسٹ دیکھوں۔ ادھرفوڈبلاگنگ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر عوامی رائے بھی تقسیم ہے۔ ٹوئٹر (X) اور انسٹاگرام پر ’’#FreeFoodVloggers‘‘ ہیش ٹیگ کے تحت صارفین نے طنزیہ پوسٹس شیئر کیں جن میں کہا گیا کہ ’’فری کھانا، فری ریویو، مگر عوام سے فری سچائی!‘‘ ایک صارف نے لکھا،’’اب ہر دوسرا بلاگر ریسٹورنٹ میں کیمرہ اٹھائے کھڑا ہے، نہ کھانے کا علم، نہ ریویو کا، بس ویوز چاہیے!‘‘ماہرین کے مطابق اگر کوئی بلاگر سپانسرڈ ریویو کو ذاتی تجربہ ظاہر کرتا ہے تو یہ اخلاقی خلاف ورزی ہے۔ ان کے مطابق پیمرا کے’’ڈیجیٹل میڈیا کوڈ آف ایتھکس 2023‘‘کے مطابق سپانسرڈ مواد کو واضح طور پر ظاہر کرنا لازمی ہے۔ بصورت دیگر یہ عمل’’ڈیجیٹل فراڈ‘‘سمجھا جا سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فوڈ بلاگرز اگر اپنی ساکھ برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں دیانت داری، شفافیت اور پیشہ ورانہ اخلاقیات پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ ریسٹورنٹس کو بھی ایسے بلاگرز کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو ایمانداری سے تنقید کریں تاکہ معیار بہتر ہو۔ فوڈ بلاگنگ پاکستان میں نوجوانوں کے لیے روزگار اور تخلیقی اظہار کا نیا دروازہ ہےلیکن جب یہ فیلڈ فری کھانے کے بدلے جھوٹی تعریفوں تک محدود ہو جائے تو نہ صرف صارفین کا اعتماد مجروح ہوتا ہے بلکہ فوڈ انڈسٹری کی ساکھ بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں