آج کی تاریخ

کے ڈی اے میں لینڈ مافیا سرگرم، اربوں مالیتی 100 کمرشل پلاٹوں کی جعلی الاٹمنٹ

کراچی(سٹاف رپورٹر)شہرقائدکراچی کے اربوں مالیت کے100 قیمتی کمرشل پلاٹوں کا بڑ ا اسکینڈل بے نقاب ہونے لگا،ادارہ ترقیات کراچی کے جعلساز مافیانے شہر کے قیمتی پلاٹوں کو مبینہ طور پر لوٹ کا مال سمجھ کر ٹھکانے لگادیا،سابق ڈائریکٹر جنرل نوید انور نے عدالتی احکامات پر کراچی کے100 کمرشل پلاٹوں کی نیلامی کیلئے باقاعدہ اشتہارات شائع کرائے تھے،نیلامی کی تاریخ سے قبل ڈی جی کا تبادلہ کردیا گیا تھا جبکہ ایک روز قبل نیلامی کو بھی ملتوی کردیا گیا تھا،ڈیڑھ سال گزرجانے کے باوجود نیلامی نہ ہونے پر کے ڈی اے کی جعلساز مافیا نے نیلامی کے کیلئے مختص متعددپلاٹس کو بھی مبینہ طور پر ٹھکانے لگادیا،موجودہ ڈی جی آصف جان صدیقی کی جانب سے نیلامی کیلئے پلاٹوں کی تلاش میں سنسنی خیز انکشافات منظر عام پر آگئے،محکمہ لینڈ،محکمہ ریکوری اور محکمہ آئی ٹی کے افسران نے پلاٹوں کے متعلق حیرت انگیز انکشافات کر ڈالے۔تفصیلات کے مطابق ادارہ ترقیات کراچی کی تاریخ کاسب سے بڑا سکینڈل بے نقاب ہونے کا امکان ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کے قیمتی کمرشل پلاٹوں کو انتہائی منظم انداز سے محکمہ کی جعلساز مافیا نے مبینہ طور پر ٹھکانے لگادیا ہے جس میں محکمہ لینڈ اور محکمہ ریکوری کے افسران کا اہم کردار بتایا جاتاہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ کے ڈی اے کے سابق ڈی جی نوید انور نے ادارے کی ابتر صورتحال اور عدالتی احکامات پر نارتھ کراچی ٹائون شپ،سرجانی ٹائون شپ،اولڈ ناظم آباداور کورنگی ٹائون شپ میں موجود100 قیمتی کمرشل پلاٹوں کے نیلام کا فیصلہ کیا تھا،مذکورہ پلاٹوں کے نمبراور لے آئوٹ پلان تیار کرکے نیلامی کیلئے باقاعدہ اشتہارات بھی شائع کئے گئے اور مذکورہ پلاٹوں کی نیلامی کی تاریخ 7 مارچ2024ء مقرر کی گئی تھی،تاہم اس دوران نوید انور کا تبادلہ کردیا گیا اور نیلامی کی تاریخ سے ایک روز قبل اچانک نئے آنے والے ڈی جی شجاعت حسین نے پراسرار طور پر مذکورہ پلاٹوں کی نیلامی کو ملتوی کردیا تھا،ذرائع کا کہنا ہے کہ پلاٹوں کی نیلامی کی صورت میں ادارے کو اربوں روپے کا ریونیو حاصل ہوسکتا تھا تاہم ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود مذکورہ 100 کمرشل پلاٹوں کی نیلامی کا عمل شروع نہیں کیا گیا تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دوران ادارے کی کرپٹ اور جعلساز مافیا نے متعدد پلاٹوں کو مبینہ طور پر انتہائی مہارت اور جعلسازی سے ٹھکانے لگادیا ہے جس کے بڑے انکشافات منظر عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں،ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ ڈی جی کے ڈی اے آصف جان صدیقی نے ادارے کی ابتر صورتحال پر محکمے کے افسران کو کمرشل پلاٹوں کی نیلامی کیلئے ہدایت کی جس پر جن پلاٹوں کی لسٹ تیار کی گئی اس میں حیر انگیز انکشافات منظر عام پر آگئے ہیں اور ادارے کی بدترین نااہلی کا پردہ بھی چاک ہوگیا ہے،دستیاب ریکارڈ کے مطابق نارتھ کراچی ٹائون شپ کے کمرشل پلاٹ نمبرایل ایس3 اور 4 ایس ٹی 6/1کے حوالے سے محکمہ لینڈ کا موقف ہے کہ مذکورہ پلاٹ پر تنازع ہے،محکمہ ریکوری کا کہنا ہے کہ اس کا ریکارڈ ہی موجود نہیں،محکمہ آئی ٹی کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جبکہ علاقہ ایکسین نے اپنی رپورٹ میں مذکورہ پلاٹ کو خالی قرار دیا ہے،اسی طرح نارتھ کراچی سیکٹر 15/A-4پلاٹ نمبر ایس ٹی 14 کے 1000 گز رقبے پر محیط پلاٹ کے حوالے سے محکمہ لینڈ نے اس پلاٹ کو الاٹ قرار دیا ہے جبکہ محکمہ ریکوری نے انکشاف کیا ہے کہ اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں،محکمہ آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں اس کے ریکارڈ کی موجودگی ظاہر کی ہے جبکہ علاقہ ایکسین نے اپنی رپورٹ میں مذکورہ پلاٹ پر قبضہ قرار دیا ہے،ایس ٹی 13/1 سیکٹر15/A-3نارتھ کراچی ٹائون شپ جو کہ400 گز رقبے پر محیط کمرشل پلاٹ ہے اس کو محکمہ لینڈ نے اپنی رپورٹ میں تنازع کی نظر قرار دیا ہے،محکمہ ریکوری اسے آکشن قرار دے رہا ہے جبکہ محکمہ آئی ٹی کے پاس مذکورہ پلاٹ کا کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے،اسی طرح تفصیلی رپورٹ میں دیگر16 کمرشل پلاٹوں کے حوالے سے بھی حیرت انگیز انکشافات موجود ہیں،ذرائع کا کہنا ہے کہ کے ڈی اے جعلساز یوں کا گڑھ بن چکا ہے اور اس کے افسران مبینہ طور پر لینڈ مافیا کے سہولت کاربنے ہوئے ہیں،کے ڈی اے میں اربوں مالیت کے پلاٹوں کی انتہائی دیدہ دلیری سے لوٹ مار اور سنگین جعلسازیوں پر ادارے کے سینئر افسران اور شہری حلقوں نے قومی احتساب بیورو(نیب) سے اعلی سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کے پلاٹوں کی لوٹ مار کے مزید سنسنی خیز انکشافات منظرعام پر آرہے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں