آج کی تاریخ

واٹس ایپ ہیکنگ، واقعات تیز، متعدد صارفین متاثر، مالی فراڈ، بلیک میلنگ، ذاتی گفتگو تک رسائی

ملتان(غلام دستگیرچوہان سے)پاکستان میں واٹس ایپ ہیکنگ کے واقعات تیزی سے بڑھنے لگے، شہریوں کی بڑی تعداد ہیکرز کے نشانے پر آگئی، متعدد صارفین کے اکاؤنٹس ہائی جیک کر کے ان کے ذریعے مالی فراڈ، بلیک میلنگ اور ذاتی گفتگو تک رسائی حاصل کی جا رہی ہے۔ وزارتِ داخلہ اور ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران واٹس ایپ ہیکنگ سے متعلق شکایات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، متعدد کیسز میں متاثرہ افراد سے پیسے بٹورنے، بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کرنے اور نجی نوعیت کی معلومات عام کرنے کے شواہد بھی ملے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہیکرز زیادہ تر سماجی انجینئرنگ کے ذریعے لوگوں کو دھوکا دے کر ان کا واٹس ایپ کنفرمیشن کوڈ (OTP) حاصل کرتے ہیں، بعض اوقات وہ بینک یا کسی سرکاری ادارے کا نمائندہ بن کر صارف سے بات کرتے ہیں اور جعلی پیغام کے ذریعے کوڈ لے لیتے ہیں، جیسے ہی صارف کوڈ شیئر کرتا ہے ہیکر فوری طور پر اس کا اکاؤنٹ اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ ہیکرز دوسرا طریقہ سیم سوئپ کا بھی استعمال کرتے ہیں جس میں موبائل نیٹ ورک کے نظام کو ہیک کر کے صارف کا نمبر کسی دوسرے سم کارڈ پر منتقل کر لیا جاتا ہے اور واٹس ایپ اسی سم پر ایکٹیویٹ ہو جاتا ہے۔ کئی کیسز میں واٹس ایپ ویب کے غلط استعمال کے ذریعے بھی اکاؤنٹس ہیک ہوئے ہیں جہاں صارف کسی دوسرے کمپیوٹر یا پبلک ڈیوائس پر لاگ ان رہ جاتا ہے اور ہیکر اسی لنک کے ذریعے مکمل رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے افسران کے مطابق ہیکرز جعلی واٹس ایپ کالز، نامعلوم لنکس اور میلویئر فائلز کے ذریعے بھی لوگوں کے موبائل میں داخل ہو جاتے ہیں جس سے واٹس ایپ سمیت دیگر ایپس کا ڈیٹا چوری کیا جاتا ہے۔ ماہرین نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دو مرحلہ جاتی تصدیق (Two-step verification) لازمی طور پر فعال کریں، اپنے واٹس ایپ کی سیٹنگز میں جا کر غیر مانوس ’’Linked Devices‘‘ کو لاگ آؤٹ کریں، کسی بھی نمبر یا پیغام پر موصول ہونے والا کوڈ کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں، نامعلوم لنکس پر کلک کرنے سے گریز کریں اور مشکوک فائلز ڈاؤن لوڈ نہ کریں۔ اگر کسی صارف کا اکاؤنٹ ہیک ہو جائے تو فوری طور پر اپنی سم بلاک کروائیں، واٹس ایپ کے سپورٹ سینٹر سے رابطہ کریں اور ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں آن لائن یا قریبی دفتر میں شکایت درج کروائیں۔ ایف آئی اے کے مطابق اس مقصد کے لیے آن لائن پورٹل اور ہیلپ لائن فعال ہیں جہاں شہری شکایت کے ساتھ اسکرین شاٹس اور شواہد فراہم کر سکتے ہیں۔ ترجمان کے مطابق متعدد ہیک شدہ اکاؤنٹس بازیاب کر لیے گئے ہیں اور کئی نیٹ ورک گروپس کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ عوامی آگاہی کے بغیر اس خطرے کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں کیونکہ ہیکرز جدید طریقے استعمال کر رہے ہیں جن میں جعلی سرکاری نوٹس، بینک میسجز اور انعامی اسکیموں کے لالچ شامل ہیں۔ سائبر ماہرین نے زور دیا ہے کہ صارفین کو ہر صورت اپنے نمبروں، ذاتی معلومات اور پاس ورڈز کو خفیہ رکھنا چاہیے، موبائل فون اپڈیٹ رکھیں اور حفاظتی ایپس انسٹال کریں تاکہ میلویئر یا اسپائی سافٹ ویئر کے خطرات کم ہوں۔ پی ٹی اے اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن نے بھی عوام کو انتباہ جاری کیا ہے کہ واٹس ایپ کے ذریعے ملنے والے کسی بھی مشکوک پیغام یا کال کو رپورٹ کریں اور کسی کے ساتھ ذاتی معلومات شیئر نہ کریں۔ ماہرین کے مطابق ہیکرز کا سب سے بڑا ہتھیار صارف کی بے احتیاطی ہے، اس لیے ہوشیاری، فوری ردعمل اور حفاظتی اقدامات ہی بہترین دفاع ہیں۔ ایف آئی اے نے واضح کیا ہے کہ واٹس ایپ ہیکنگ اب قانونی جرم ہے، ملوث افراد کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، جبکہ عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ کسی بھی مشکوک سرگرمی کی فوری اطلاع دیں تاکہ بروقت کارروائی ممکن ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صارفین دو مرحلہ جاتی توثیق فعال کر لیں، لنکس پر کلک کرنے سے گریز کریں اور نجی کوڈز کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں تو ہیکرز کے حملے 90 فیصد تک ناکام ہو سکتے ہیں۔ واٹس ایپ انتظامیہ نے بھی صارفین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنا نمبر صرف مصدقہ روابط میں استعمال کریں، غیر مانوس چیٹس میں ذاتی تصاویر یا معلومات بھیجنے سے پرہیز کریں اور اگر اکاؤنٹ ہیک ہو جائے تو فوراً ای میل کے ذریعے رپورٹ کریں۔ سائبر سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل تحفظ کے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد اور عوامی تربیت کی کمی کے باعث ہیکرز کو آسان راستے مل جاتے ہیں۔ ایف آئی اے نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ادارہ اپنی تکنیکی صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے اور جلد واٹس ایپ سمیت دیگر سوشل میڈیا ہیکنگ کے نیٹ ورکس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ادھرنیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے ایک سینئر عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 2025 کے دوران سائبر جرائم میں 35 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس میں واٹس ایپ ہیکنگ کے کیسز بھی نمایاں طور پر بڑھے ہیں۔ این سی سی آئی اے کراچی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ارسلان منظور نےکہاکہ پاکستان میں ڈیجیٹل خواندگی کی شدید کمی سائبر کرائمز کے فروغ کی بنیادی وجہ ہے۔’پاکستان میں لوگ اب بھی ہیکرز کو واٹس ایپ پر موصول ہونے والے ون ٹائم پاس ورڈ شیئر کر دیتے ہیںجس سے وہ خود ہی اپنے اکاؤنٹس ہیک کروانے کا راستہ کھول دیتے ہیں۔‘این سی سی آئی اے کے اعدادوشمار کے مطابق زیادہ تر سائبر جرائم کا آغاز جنوبی پنجاب سے ہو رہا ہے، جب کہ کچھ کیسز ملک سے باہر کے نیٹ ورکس سے بھی جڑے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پالیسی ساز عام طور پر نوجوان نسل کو ذہن میں رکھ کر پالیسیاں بنا رہے ہیں، حالانکہ ڈیجیٹل فراڈز ہر عمر کے افراد کو متاثر کر رہے ہیں۔’سائبر کرائمز میں 2025 کے دوران اب تک 35 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے، البتہ یہ شرح سال کے اختتام تک مختلف ہو سکتی ہے۔‘گزشتہ سال ویزا کی رپورٹ کے مطابق ہر دوسرا پاکستانی ڈیجیٹل فراڈ کا شکار ہوا جب کہ ہر پانچواں شہری متعدد بار آن لائن فراڈ کا سامنا کر چکا ہے۔وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کی سالانہ انتظامی رپورٹ 2024 کے مطابق، 73,000 سے زائد شکایات درج ہوئیں لیکن ان میں سے صرف 1604 کیسز رجسٹر کیے گئے، جن میں تقریباً آدھی شکایات مالی فراڈز سے متعلق تھیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کا عالمی سائبر سیکیورٹی انڈیکس میں درجہ 2021 کے 79ویں سے 2024 میں 46ویں نمبر پر آگیا ہے، یعنی بہتری کے باوجود جرائم میں اضافہ جاری ہے۔این سی سی آئی اے اہلکاروں کے مطابق یہ درجہ بندی جرائم کی تعداد نہیں بلکہ تکنیکی، قانونی اور ادارہ جاتی صلاحیتوں کی بنیاد پر کی گئی ہے، اس لیے بڑھتے جرائم کا اس سے براہِ راست تعلق نہیں۔انہوں نے زور دیا کہ ڈیجیٹل خواندگی کے فروغ میں حکومت، سول سوسائٹی، اسکولوں اور کالجوں کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا، اور نصاب میں ڈیجیٹل آگاہی شامل کی جانی چاہیے۔این سی سی آئی اے کے ایک اور عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 2025 میں صرف کراچی سے اب تک 29000 سے زائد شکایات موصول ہو چکی ہیں، جن میں مالی جرائم، ہراسانی اور فحاشی سے متعلق کیسز شامل ہیں۔یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ویزا کے کنٹری منیجر عمر ایس خان نے بتایا کہ اب مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال کرتے ہوئے جعلی آوازیں تیار کی جا رہی ہیں جو کمپنیوں کے افسران یا قریبی رشتہ داروں کی آواز سے مشابہ ہوتی ہیں۔یہ سکیمز اکثر ہنگامی صورتحال کا بہانہ بناتی ہیں جیسے فوری پیسوں کی ضرورت یا انعام جیتنے کا جھانسہ دے کر لوگوں کو دھوکا دیتی ہیں۔‘ویزا کے مطابق 2024 میں عالمی سطح پر 203 ارب ڈالر مالیت کے مالی فراڈ کی کوششوں کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مبنی سکیورٹی سسٹم نے ناکام بنایا، اسی طرح کمپنی ہر ماہ 90 ملین ایپلیکیشن پروگرامنگ انٹرفیس حملے، 340 ملین بوٹ اٹیکس اور 11 ملین فشنگ کوششوں کو بلاک کرتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سائبر سیکیورٹی کے اداروں کی کارکردگی بہتر ہونے کے باوجود عوامی آگاہی کی کمی سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ ڈیجیٹل خواندگی کو قومی نصاب اور عوامی تربیتی پروگراموں کا حصہ بنایا جائے تاکہ شہری خود کو اور اپنے ڈیٹا کو محفوظ رکھ سکیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں