آج کی تاریخ

بدکاری پر سہولتکاری کا پردہ، ڈاکٹر رمضان کا استعفیٰ ذاتی وجوہات قرار دیکر منظور، انکوائری ٹھپ

ملتان (سٹاف رپورٹر) حکومت پنجاب نے اعلیٰ سطح انکوائری میں بدکاری کے الزامات پر تحقیقات مکمل کرنے اور وزیر تعلیم پنجاب کی جانب سے ایمرسن یونیورسٹی ملتان کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رمضان کا استعفیٰ سخت کارروائی کے دعوے کے ساتھ التوا میں رکھنے کے بعد 55 دن تک کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی سامنے نہ آ سکی اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ غلام فرید مسلسل رکاوٹ بنے رہے اور انہوں نے اپنی ذمہ داریوں سے رو گردانی کرتے ہوئے گورنر پنجاب کو حقائق سے آگاہ ہی نہیں کیا اور انکوائری کی بابت کیا پیش رفت ہوئی یا پھر کیا انکوائری رپورٹ منظر عام پر آئی ان سب سوالات سے کیا گورنر پنجاب کو آگاہ کیا گیا ہے؟ کیونکہ اگر آگاہ کیا گیا ہوتا تو ڈاکٹر رمضان کا 55 دن بعد استعفیٰ منظور کیے جانےکے بجائے ان کے خلاف اب تک کارروائی شروع ہو چکی ہوتی۔ گورنر پنجاب کی طرف سے گزشتہ روز استعفے کی منظوری کے احکامات جاری کر دیئے گئے۔ گورنر پنجاب کی طرف سے جاری ہونے والے احکامات میں ڈاکٹر رمضان کا استعفیٰ ذاتی وجوہات کی بنیاد پر منظور کر لیا گیا اور زکریا یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری کو ایمرسن یونیورسٹی کے وی سی کا اضافی چارج دے دیا گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈاکٹر محمد رمضان کا یونیورسٹی میں موجود وائس چانسلر ہاؤس میں 2 سال تک مسلسل دہرایا جانے والا یہ فعل کسی طور پر بھی ذاتی وجوہات کے ضمرے میں آتا ہے؟ چونکہ یونیورسٹی کی حدود میں کیا جانے والا یہ غیر اخلاقی عمل کسی طور پر بھی ذاتی نہ تھا تو منظور کیا جانے والا استعفیٰ ذاتی وجوہات کے کھاتے میں کیسے ڈال دیا گیا۔ یاد رہے کہ روزنامہ قوم میں ایمرسن یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمدرمضان کے خلاف ان کے اپنے باورچی اعجاز حسین کی طرف سے فراہم کردہ غیر اخلاقی ویڈیو اور اسٹامپ پیپر پر لکھے گئے بیان کی روشنی میں 15 اگست کو یہ خبر شائع کی گئی تھی کہ ڈاکٹر رمضان مبینہ طور پر گزشتہ دو سال سے اپنے ہی وائس چانسلر ہاؤس کے باورچی اعجاز حسین کے ساتھ ناجائز تعلقات استوار رکھے ہوئے ہیں اور اس سے غیر اخلاقی طویل گفتگو کے علاوہ جنسی ادویات بھی منگواتے ہیںجیسے سنگین اخلاقی الزامات پر مشتمل تفصیلات شائع ہوئیں تو حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت سے متعلقہ تمام ادارے حتیٰ کہ تحقیقاتی ایجنسیاں بھی متحرک ہو گئیں۔ روزنامہ قوم کی طرف سے اسٹامپ پیپر کی کاپی تو فراہم کر دی گئی مگر فحش ویڈیو جو کہ یو ایس بی میں روزنامہ قوم کے حوالے کی گئی تھی، صحافتی تقاضے پورے کرتے ہوئے کسی کے بھی حوالے نہ کی تاہم چند دن بعد نامعلوم ذرائع سے مذکورہ ویڈیو منظر عام حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر بھی آ گئی جس پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے تعلیمی حلقوں سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ چار دن تک تو ڈاکٹر رمضان اس کی تردید کرتے رہے مگر چھٹے دن 21 اگست کو انہوں نے اپنا استعفیٰ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے توسط سے گورنر پنجاب کو بھجوا دیا جبکہ حکومت پنجاب کی طرف سے اس سنگین ترین معاملے کی انکوائری کے لیے ایک اعلیٰ ترین کمیٹی قائم کی گئی جس کی سربراہی اس وقت کے قائم مقام چیف سیکرٹری نے کی کیونکہ چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان وزیراعلیٰ پنجاب کے ہمراہ جاپان کے دورے پر تھے۔ اس انکوائری کے لیے قائم مقام چیف سیکرٹری، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب کے علاوہ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کی خصوصی ٹیم ملتان آئی جنہوں نے کمشنر ملتان کے کمیٹی روم میں تین گھنٹے تک اس معاملے میں ڈاکٹر رمضان کے ظلم کا شکار مدعی اعجاز حسین اور ڈاکٹر رمضان کو الگ الگ بلا کر ان کا تفصیلی موقف سنا۔یہ کمیٹی وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے جاپان میں دورے کے دوران ارجنٹ حکم نامے کے تحت قائم کی گئی تھی۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر رمضان ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں اہم پوزیشن پر فائز رہے اور آج بھی ان کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں بہت مضبوط روابط ہیںجس پر ان کے بدترین غیر اخلاقی جرم کے باوجود اکاموڈیٹ کرتے ہوئے محفوظ راستہ دے دیا گیا جس سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کو حوصلہ مل گیا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں