( روداد)تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری
بھٹو صاحب جب برسر اقتدار آئے تو ہم انہیں ’’انقلابی‘‘ سمجھ بیٹھے کہ انقلاب بس آیا کہ آیا۔ اب مزدور ۔کسان کا راج ہو گا، جاگیرداری اور سرمایہ داری اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ تعلیم اور صحت مفت ہو گی۔ کیونکہ 70 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم زیادہ تر دائیں بازو کے دانشوروں ہی کے ہاتھ میں تھی اور وہ بھی کامیابی کے بعد یہی سمجھتے رہے کہ سوشلسٹ انقلاب آئے گا اور پیپلزپارٹی کے مخالفین نے بھی یہی تاثر دیا تھا کہ پیپلزپارٹی جاگیرداروں سے زمینیں چھین کریہی زمینیں ہاریوں اور مزارعین میں تقسیم کردےگی جبکہ ملیں اور فیکٹریوں کے مزدور مالک بن جائیں گے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد بھٹو نے پنجاب میں مصطفی کھر صاحب کو گورنر اورنواب صادق قریشی کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کر دیا۔ نواب دلاور خانجی (جونا گڑھ کے نواب) کو سندھ کا گورنر بنا دیا اور بلوچستان میں نواب آف قلات کو گورنر بنا دیا۔ نواب صادق حسین قریشی ملتان کے بہت بڑے زمیندار تھے اور میں پہلے بھی یہ بات لکھ چکا ہوں کہ بھٹو صاحب پر انتخابی مہم کے دوران ملتان کے قریب قصبہ قادر پور راواں سے گزرنے ہوئے جو قاتلانہ حملہ ہوا اس میں نواب صادق حسین قریشی ہی ملوث سمجھے جاتے تھے۔ میں اُس وقت سیکنڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ بھٹو صاحب نواب صادق حسین قریشی کی کوٹھی جو کہ پرانا شجاع آباد روڈ پر وائیٹ ہائوس کے نام سے جانی جاتی تھی وہاں آئے ہوئے ہیں۔ میں اپنے کلاس فیلو کے ساتھ بوسن روڈ کالج سے بذریعہ بس وائٹ ہائوس پہنچ گئے۔تاکہ بھٹو مرحوم نے جن لوگوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا ہے ان کے خلاف احتجاج کیا جائے۔ ہم نے جاگیرداری مردہ باد، سرمایہ داری مردہ باد کے نعرے لگائے۔ پولیس نے ہم سب کو باہر ہی روک لیا اور کہا کہ ہم بھٹو صاحب تک آپ کا پیغام پہنچا دیتے ہیں۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ بھٹو صاحب مصروف ہیں اس لیے آج ملاقات نہیں ہو سکتی۔
ہم نے جو ’’انقلابی‘‘ فقرے سوچے ہوئے تھے وہ دل میں ہی رہ گئے۔ موقع پر موجود پولیس اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے ہمیں بہلا پھسلا کر واپس بھیج دیا۔ ہم بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت سے متاثر ضرور تھے مگر ہماری نظریاتی وابستگی بھی بائیںبازو کے’’استادوں‘‘ کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ پختہ تھی۔ ہم سرد جنگ کے اس زمانے میں سوشلزم سے کم انقلاب کا تو تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اس وقت کی فوجی قیادت جنگ میں شکست کے بعد بھی اقتدار منتقل کرنے پر تیار نہیں تھی اور بائیں بازو کے رہنما یہ الزام لگاتے تھے کہ بھٹو صاحب نے امریکہ کو یقین دہانی کروا کر اقتدار حاصل کیا ہے۔سچ یہ ہے کہ اقتدار کے کھیل میں حکمرانوں کی اپنی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں مگر ہم جیسے نو عمر نوجوانوں کی سوچ جذباتی اور زمینی حقائق سے نا بلد ہوتی ہے۔ بھٹو صاحب کے پورے دور میں ہمیں یہی سمجھایا اور پڑھایا گیا کہ بھٹو کی وجہ سے ہمارا ملک حقیقی انقلاب سے محروم ہو گیا۔ قیام پاکستان کی طرح ’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے ‘‘وہ تو بعد میں سمجھ آئی کہ بھٹو صاحب نےتو ملٹی کلاس پارٹی بنائی تھی جس میں سوشلسٹ جاگیردار، علماء سمیت ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے ویسے بھی پارلیمانی نظام کے ذریعے تبدیلی ارتقائی عمل سے آتی ہے۔ جس انقلاب کا ہم سوچ رہے تھے اس کے نہ تو اس وقت حالات تھے اور نہ ہی کوئی منظم انقلابی پارٹی موجود تھی۔ویسے بھی قبائلی اور جاگیردارانہ سماج میں فوری تبدیلیاں ممکن نہیں ہوتیں۔ اب بھی لگتا ہے ہے ’’ہیں خواب میں ہنوز کے جاگے ہیں خواب سے‘‘