آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

غزہ میں نیا موڑ —، امن یا ایک اور فریب؟

دو سالہ خونریز جنگ، تباہی اور انسانی سانحے کے بعد بالآخر جمعرات کو ایک تاریخی پیش رفت سامنے آئی — حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پا گیا۔ مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والا یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کا پہلا مرحلہ ہے، جسے دنیا بھر میں مختلف انداز میں دیکھا جا رہا ہے — کچھ کے لیے یہ امید کی کرن ہے، کچھ کے لیے ایک نیا سیاسی جال۔معاہدے کے مطابق، اسرائیل اور حماس دونوں فریقوں نے قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے، جنگ بندی اور انسانی امداد کے بڑے پیمانے پر داخلے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے تحت حماس 20 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی، جبکہ اسرائیل تقریباً 2,000 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا، جن میں 250 ایسے ہیں جنہیں عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ معاہدے کے اعلان کے بعد غزہ اور اسرائیل دونوں میں عوام نے جشن منایا، مگر اس خوشی کے پیچھے وہ گہری تشویش بھی چھپی ہے جو برسوں کی بداعتمادی سے جڑی ہے۔یہ معاہدہ صرف دو فریقوں کے درمیان نہیں، بلکہ عالمی طاقتوں کی شطرنج پر ایک نیا قدم ہے۔ امریکہ، قطر، مصر اور ترکی کی ثالثی میں طے پانے والا یہ معاہدہ صدر ٹرمپ کے لیے ایک سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا: “یہ دنیا کے لیے ایک عظیم دن ہے، ایک پائیدار اور مضبوط امن کی طرف پہلا قدم۔”لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ ’’امن‘‘ واقعی پائیدار ہوگا، یا یہ بھی ایک عارضی وقفہ ثابت ہوگا، جیسا کہ ماضی میں کئی بار ہوا۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ معاہدے کے بعد اسرائیلی فوج مقررہ لائن تک واپس چلی جائے گی اور تمام اسرائیلی قیدیوں کو 72 گھنٹوں کے اندر واپس لایا جائے گا۔ مگر نیتن یاہو کا ماضی اس طرح کے وعدوں سے بھرا ہوا ہے جو کبھی پورے نہیں ہوئے۔غزہ کے لیے یہ معاہدہ زندگی اور موت کے بیچ ایک لمحاتی سانس کی مانند ہے۔ دو برسوں سے جاری اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو ایک اجتماعی قبرستان بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، اب تک 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے، اسپتال اور اسکول ملبے میں بدل گئے ہیں۔ایسے میں اگر یہ معاہدہ امداد کے راستے کھولتا ہے، بمباری کو روکتا ہے، اور کچھ زندگیاں بچاتا ہے تو یہ غزہ کے عوام کے لیے امید کی کرن ضرور ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ’’امید‘‘ کی باگیں اب بھی واشنگٹن، تل ابیب، اور قاہرہ کے ہاتھوں میں ہیں، نہ کہ فلسطینی عوام کے۔صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ’’امن کے محافظ‘‘ کے طور پر جلد مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کریں گے۔ یہ اعلان جتنا ڈرامائی ہے، اتنا ہی سیاسی بھی۔ وہ امریکہ میں انتخابی دباؤ کے زیرِ اثر ایک سفارتی کامیابی کے خواہاں ہیں تاکہ دنیا کے سامنے اپنی قیادت کو ’’عالمی امن کے ضامن‘‘ کے طور پر پیش کر سکیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے حق میں جھکا ہوا ہے۔اس معاہدے میں حماس کے غیر مسلح ہونے، غزہ سے اسرائیلی فوج کی بتدریج واپسی اور غزہ کے انتظام کے لیے ایک بین الاقوامی ’’ٹیکنوکریٹک حکومت‘‘ کے قیام کی بات کی گئی ہے — جس کی نگرانی ٹرمپ، سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر اور دیگر مغربی شخصیات پر مشتمل ’’بورڈ آف پیس‘‘ کرے گا۔ یہ تجویز فلسطینی خودمختاری کے منافی ہے۔ غزہ کسی ’’بورڈ‘‘ یا ’’بین الاقوامی نگران‘‘ کے تابع نہیں ہو سکتا۔حماس نے واضح کیا ہے کہ وہ غزہ کی حکومت فلسطینی ٹیکنوکریٹس کے حوالے کرنے کو تیار ہے، مگر کسی غیر ملکی مداخلت یا مغربی سرپرستی کو قبول نہیں کرے گی۔ اس مؤقف کے مطابق، غزہ کا مستقبل صرف فلسطینیوں کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے، نہ کہ کسی امریکی یا برطانوی سفارت کار کے۔عالمی سطح پر اس معاہدے کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ قطر، ترکی اور مصر نے اس کو ’’پہلے مرحلے کی کامیابی‘‘ قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس کے ذریعے جنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اب وقت آ گیا ہے کہ یہ جنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہو۔‘‘ لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پائیدار امن صرف دو ریاستی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔تاہم اسرائیلی قیادت اب بھی اس نظریے کی مخالف ہے۔ نیتن یاہو نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ وہ ’’کبھی بھی آزاد فلسطینی ریاست‘‘ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اس کے باوجود، امریکہ اور اس کے اتحادی ’’امن‘‘ کے نام پر اسرائیل کے تسلط کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔ یہی اس معاہدے کا سب سے کمزور پہلو ہے۔اس معاہدے کے بعد بھی غزہ پر اسرائیلی بمباری جاری رہی۔ جمعرات کی رات تک اسرائیلی طیاروں نے جنوبی غزہ کے علاقوں میں کئی فضائی حملے کیے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے بیان دیا کہ فوج ’’دفاعی تیاری‘‘ میں ہے اور کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے چوکس ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ بندی کے باوجود اعتماد کی فضا ابھی قائم نہیں ہوئی۔حماس کی قیادت کے مطابق، انہوں نے قیدیوں کے تبادلے کی فہرست میں مروان برغوثی جیسے نمایاں فلسطینی رہنما کے نام بھی شامل کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اسرائیل نے اس کو مسترد کر دیا۔ یہی وہ تفصیلات ہیں جو بتاتی ہیں کہ اس ’’امن معاہدے‘‘ کے پیچھے بھی طاقت کا توازن اسرائیل کے حق میں جھکا ہوا ہے۔حماس کے مذاکرات کار خلیل الحیہ نے کہا ہے کہ ان کا مطالبہ واضح ہے — ’’ہمیں بین الاقوامی ضمانت چاہیے کہ یہ جنگ ایک بار ہمیشہ کے لیے ختم ہو۔‘‘ ان کا مؤقف اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ فلسطینی عوام اب کسی نئے دھوکے یا عارضی وقفے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔عرب ممالک نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اس منصوبے کا اگلا مرحلہ فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف بڑھنا چاہیے۔ مگر اسرائیل اور اس کے مغربی حامی اس بات کو مؤخر کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ معاہدہ محض ایک سیاسی تماشا بن کر رہ جائے گا — ایک ایسا فریب جو وقتی سکون تو دے گا مگر انصاف نہیں۔غزہ کے عوام کے لیے اصل امن اس وقت ممکن ہوگا جب:اسرائیل اپنے جنگی جرائم کا جواب دے،محاصرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو،فلسطینیوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دیا جائے،اور القدس (یروشلم) کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے۔جب تک یہ اصول تسلیم نہیں کیے جاتے، ہر امن معاہدہ محض طاقت کے توازن کی عکاسی رہے گا، نہ کہ انصاف کے حصول کی۔یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ اس معاہدے سے فوری ریلیف ضرور آئے گا — زخمیوں تک امداد پہنچے گی، قیدی گھر لوٹیں گے، بمباری رک جائے گی — مگر حقیقی امن کا آغاز تب ہوگا جب دنیا یہ تسلیم کرے کہ فلسطینی مزاحمت جرم نہیں، بلکہ انسانی حق ہے۔غزہ کے ملبے میں بیٹھے بچے، جو اپنی ماؤں کے ہاتھوں میں تصویریں تھامے کہتے ہیں ’’ہم بھی جینا چاہتے ہیں‘‘، وہ اس دنیا کے ضمیر سے سوال کرتے ہیں — کیا ہمارا خون تمہارے امن سے کم قیمتی ہے؟آج اگر یہ معاہدہ واقعی ایک نیا آغاز بننا ہے تو اسے صرف سیاسی مفادات کے لیے نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر یہ معاہدہ صرف اسرائیلی قیدیوں کی رہائی تک محدود رہا، تو یہ پھر ایک یکطرفہ سودے بازی بن جائے گا۔فلسطینی عوام کو وہی چاہیے جو ہر انسان کو حق کے طور پر حاصل ہے — آزادی، وقار اور زندگی۔ جب تک دنیا ان اصولوں پر کھڑی نہیں ہوتی، ہر امن معاہدہ محض ایک کاغذی خواب رہے گا۔غزہ کے لیے امن کی یہ ’’پہلی کرن‘‘ تبھی روشن ہوگی جب انصاف کی روشنی اس کے ساتھ ہو۔ ورنہ تاریخ ایک بار پھر یہی لکھے گی —کہ امن کے وعدے کیے گئے، معاہدے دستخط ہوئے، اور انسانیت پھر ملبے کے نیچے دفن ہو گئی۔

یکجہتی کی ضرورت، — آفات اور سیاست کا المیہ

پاکستان میں 2005 کے ہولناک زلزلے کو دو دہائیاں گزر چکی ہیں — وہ سانحہ جس نے 80 ہزار سے زائد انسانوں کی زندگیاں نگل لیں، لاکھوں کو بے گھر کر دیا، اور ہمیں پہلی بار یہ احساس دلایا کہ قدرتی آفات کے مقابلے میں ہماری ریاستی اور سماجی تیاری کتنی کمزور ہے۔ آج، بیس سال بعد، صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر قوم سے آفات سے نمٹنے کے عزم کی بات کی ہے۔ صدر نے “پورے معاشرے کی شمولیت” پر زور دیا، جبکہ وزیر اعظم نے “ڈیٹا پر مبنی اور برادری کی قیادت میں تیاری” کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کے بیانات قابلِ توجہ ہیں، مگر ان کے پیچھے وہ حقیقت چھپی ہے جو زیادہ تکلیف دہ ہے — کہ پاکستان اب بھی آفات کے سامنے بے بس ہے۔گزشتہ دو دہائیوں میں قدرتی اور ماحولیاتی بحرانوں کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پاکستان پر پوری شدت سے پڑ رہے ہیں، حالانکہ اس بحران کو پیدا کرنے میں ہمارا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سال ہی کے مناظر دیکھ لیجیے: مون سون بارشوں نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا، فصلیں تباہ ہو گئیں، شمالی علاقوں میں برفانی جھیلوں کے پھٹنے سے دیہات بہہ گئے، کراچی میں شہری سیلاب نے نظامِ زندگی مفلوج کر دیا، جبکہ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے کئی اضلاع شدید گرمی اور قحط کی زد میں رہے۔یہ سب علامات ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی تباہی کے عالمی نقشے پر سب سے زیادہ کمزور ملکوں میں سے ایک بن چکا ہے۔ سائنسی رپورٹس کہتی ہیں کہ آئندہ برسوں میں موسم کی شدت — سیلاب، طوفان، خشک سالی، اور گرمی کی لہر — مزید بڑھے گی، اور ہماری ریاستی و سماجی صلاحیت ان جھٹکوں کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔ یہ ایک ظالمانہ تضاد ہے کہ جن ممالک نے کرۂ ارض کو گرم کیا، وہ محفوظ ہیں، اور جو ممالک اس بحران کے ذمے دار نہیں، وہ اس کے بوجھ تلے دب رہے ہیں۔لیکن قدرتی آفات سے بڑی انسانی آفت وہ سیاسی انتشار ہے جس نے پاکستان کے نظامِ حکمرانی کو مفلوج کر رکھا ہے۔ جن سیاسی قوتوں کو عوام کی حفاظت کے لیے متحد ہونا چاہیے، وہ ایک دوسرے کو کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔ اس سال کے سیلابی بحران میں وفاقی حکومت کی اتحادی جماعتیں — پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن — ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی شفافیت پر سوال اٹھائے، جبکہ پیپلز پارٹی نے جواب دیا کہ اس پروگرام کو سیاسی بنیادوں پر کمزور کیا جا رہا ہے۔یوں ایک ایسا وقت جب لاکھوں متاثرہ خاندانوں کو خوراک، پناہ اور مالی امداد کی ضرورت تھی، حکومت کے اندر سیاسی عدم اعتماد نے عوام کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ آفات میں انسانی ہمدردی اور یکجہتی کی ضرورت ہوتی ہے، مگر یہاں ریاستی ادارے اور سیاسی قیادت ایک دوسرے پر شک کرتی نظر آتی ہے۔یہ صورتِ حال نہ صرف افسوسناک بلکہ خطرناک ہے۔ 2005 کے زلزلے کے بعد پاکستانی قوم نے اپنی اجتماعی قوت دکھائی تھی۔ اس وقت نہ وسائل تھے، نہ جدید نظام، مگر لوگوں نے ایثار اور رضاکاریت سے متاثرین کو ملبے سے نکالا، اسکولوں اور اسپتالوں کو دوبارہ کھڑا کیا، اور ایک قومی جذبے نے سب کو جوڑ دیا۔ مگر 2025 میں وہ جذبہ کمزور پڑ گیا ہے۔ اب نہ وہ یکجہتی باقی رہی، نہ وہ ادارہ جاتی ہم آہنگی۔آفات کے مقابلے میں اب محض انسانی جذبہ کافی نہیں۔ آج ہمیں ایک سائنسی، منظم اور پائیدار نظام کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے ڈیٹا بیسڈ پالیسی سازی، ایمرجنسی الرٹ سسٹم، محفوظ انفراسٹرکچر، اور کمیونٹی کی تربیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مگر پاکستان میں اب بھی آفات سے نمٹنے کے منصوبے کاغذوں میں دفن ہیں۔ ادارے ایک دوسرے سے منسلک نہیں، اعداد و شمار ناقابلِ اعتماد ہیں، اور امدادی نظام بدعنوانی اور نااہلی کی نذر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر نئی تباہی کے بعد وہی کہانیاں دہرائی جاتی ہیں: پہلے غفلت، پھر ہڑبڑاہٹ، پھر اعلانات، اور آخر میں خاموشی۔ یہ دائرہِ زیاں اب عادت بن چکا ہے۔اگر موجودہ سیاسی قیادت واقعی سنجیدہ ہے تو اسے سمجھنا ہوگا کہ آفات سیاسی وفاداری نہیں دیکھتیں۔ زلزلہ، سیلاب، یا طوفان — سب کے لیے یکساں خطرہ ہیں۔ سندھ کے کسی گاؤں میں ڈوبا ہوا خاندان اس بات سے غرض نہیں رکھتا کہ امداد پیپلز پارٹی کے جھنڈے کے ساتھ آئے یا مسلم لیگ ن کے۔ بلوچستان کے کسی خشک ضلع میں پیاس سے بلکتا بچہ یہ نہیں پوچھتا کہ کنٹینر پر کس جماعت کا نعرہ لکھا ہے۔ ان کے لیے اہم صرف ایک چیز ہے — کہ مدد بروقت اور شفاف طریقے سے پہنچے۔اسی لیے پاکستان کی قومی مزاحمتی صلاحیت (national resilience) کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے آزاد کرنا ناگزیر ہے۔ صدر زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کے بیانات درست سمت کا اشارہ ہیں، مگر ان کے درمیان حقیقی ہم آہنگی نظر نہیں آتی۔ محض ’’مشترکہ بیانات‘‘ کافی نہیں، مشترکہ اقدامات ضروری ہیں۔ اگر اتحاد صرف مصلحت کی حد تک رہے اور عملی میدان میں تقسیم برقرار رہے تو پاکستان پھر اسی دائرے میں پھنس جائے گا: آفت، امداد، الزام، اور پھر فراموشی۔ماحولیاتی تبدیلی نے ہمیں خبردار کر دیا ہے کہ اگلا بحران زیادہ شدید ہوگا، زیادہ مہنگا ہوگا، اور زیادہ جانی نقصان کرے گا۔ یہ اب کوئی مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے — گلیشیئر پگھل رہے ہیں، دریا بپھر رہے ہیں، زمین گرم ہو رہی ہے۔ ایسے میں اگر ہم اب بھی سیاسی اختلافات میں الجھے رہے تو قدرت ہمیں وہی سبق ایک بار پھر سکھائے گی، مگر زیادہ تکلیف دہ انداز میں۔پاکستان کی بقا کا انحصار اب اس بات پر ہے کہ ہم قدرتی آفات کو سیاسی ہتھیار بنانا چھوڑ دیں اور انہیں قومی اتحاد کا محرک بنا لیں۔ ہمیں ایسے ماڈل کی ضرورت ہے جہاں وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ ڈیٹا، وسائل اور فیصلے بانٹیں، نہ کہ ایک دوسرے سے چھپائیں۔ ہر ضلع میں ایک مربوط ڈیزاسٹر رسک کمیٹی ہو جو شفاف طریقے سے کام کرے۔ ریسکیو 1122، پی ڈی ایم اے، این ڈی ایم اے، اور موسمیاتی ادارے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر متحرک ہوں۔اگر ہم نے ابھی اصلاح نہ کی تو آنے والا ہر سیلاب، ہر زلزلہ اور ہر خشک سالی، ہمیں پہلے سے زیادہ نقصان پہنچائے گا۔ کیونکہ قدرت ہمیں نہیں، بلکہ ہماری نااتفاقی کو سزا دے رہی ہے۔اب وقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت لفظوں سے آگے بڑھے۔ صدر زرداری کا ’’سوسائٹی وائیڈ ایفرت‘‘ اور وزیر اعظم شہباز شریف کا ’’ڈیٹا ڈریون ریفارم‘‘ محض نعروں میں نہیں، عمل میں نظر آنا چاہیے۔ ہمیں ایک ایسا نظام چاہیے جو بحران سے پہلے تیاری کرے، بعد میں آنسو نہ بہائے۔قدرتی آفات کا مقابلہ سیاست سے نہیں، حکمت، اتحاد اور شفافیت سے ہوتا ہے۔ اگر ہم نے یہ سبق نہ سیکھا تو آئندہ نسلیں ہم سے یہی سوال کریں گی:جب زمین لرز رہی تھی، پانی چڑھ رہا تھا، اور آسمان جل رہا تھا —تو تم ایک دوسرے سے لڑ کیوں رہے تھے؟

پائپ لائن بمقابلہ ٹینکر — دباؤ نہیں، پالیسی کی ضرورت

ایک بار پھر آئل ٹینکرز کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن (او ٹی سی اے ) کی جانب سے “تین گنا بحران” کی چیخ و پکار سنائی دی ہے اور تیل کی ترسیل روکنے کی دھمکیوں کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی کہانی نہیں۔ پچھلے دو دہائیوں میں بارہا یہی منظر دہرایا جا چکا ہے — کبھی آٹومیشن کا مسئلہ، کبھی کوٹہ کی تقسیم، کبھی مبینہ ناانصافی کا واویلا۔ مگر ہر بار کہانی کا مقصد ایک ہی رہا ہے: ریاستی اداروں پر دباؤ ڈال کر مراعات حاصل کرنا۔آئل ٹینکرز لابی کا یہ دباؤ دراصل ایک فرسودہ اور غیر پائیدار ماڈل کو بچانے کی کوشش ہے، جو نہ صرف معیشت بلکہ ماحول کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ ایسوسی ایشن کے تازہ مطالبات میں “غیر منصفانہ تقسیم” اور “آٹومیشن کی خرابیوں” کا ذکر محض ایک پردہ ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ طبقہ پائپ لائن کے ذریعے ایندھن کی ترسیل کے نظام کی راہ میں رکاوٹ بن رہا
ہے۔ایسوسی ایشن کا یہ مطالبہ کہ تیل کی ترسیل میں “55 فیصد حصہ سڑکوں کے ذریعے” بحال کیا جائے، یا یہ اعتراض کہ “پائپ لائنز اپنے حصے سے زیادہ استعمال ہو رہی ہیں”، دراصل ترقی سے فرار کی علامت ہے۔ یہ مزاحمت ایک ایسے نظام کے خلاف ہے جو دنیا بھر میں سب سے مؤثر، محفوظ اور ماحول دوست تسلیم کیا جاتا ہے۔پائپ لائن کے ذریعے ایندھن کی ترسیل دنیا کے تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک میں معاشی پائیداری، شفافیت اور سلامتی کی علامت ہے۔ یہ نظام تیز، کم لاگت والا اور چوری یا حادثات کے خطرے سے تقریباً پاک ہے۔ اس کے برعکس، ہزاروں کلومیٹر سڑکوں پر ڈیزل سے چلنے والے پرانے ٹینکرز نہ صرف فضائی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ آئے دن حادثات، تیل کے ضیاع اور اسمگلنگ کے واقعات بھی جنم دیتے ہیں۔پاکستان نے بطور پیرس معاہدے (Paris Agreement) کے رکن، اپنے قومی سطح پر طے شدہ وعدوں (NDCs) میں اخراجاتِ کاربن میں کمی کا عہد کیا ہے۔ ایسے میں پائپ لائن کے بجائے سڑکوں پر تیل کی نقل و حمل جاری رکھنا، ماحولیاتی لحاظ سے اپنے وعدوں کی نفی کے مترادف ہے۔اعداد و شمار خود گواہ ہیں۔ آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (OCAC) کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023-24 میں 1 کروڑ 83 لاکھ ٹن سفید تیل میں سے تقریباً 65 فیصد یعنی 1 کروڑ 17 لاکھ ٹن سڑک کے راستے منتقل ہوا، جبکہ محض 34 فیصد پائپ لائنوں کے ذریعے گیا۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ پاکستان کے پاس ایک فعال پائپ لائن نیٹ ورک موجود ہے، ٹینکرز کی اجارہ داری اب بھی برقرار ہے۔یہ اجارہ داری کسی تکنیکی ضرورت کی نہیں، بلکہ سیاسی دباؤ، لابنگ اور بیوروکریٹک مفادات کی پیداوار ہے۔ کئی مواقع پر پائپ لائن کی گنجائش کو دانستہ طور پر کم استعمال کیا گیا تاکہ ٹینکر لابی کا کاروبار متاثر نہ ہو۔ نتیجتاً ملک کو ہر سال کروڑوں ڈالر کے اضافی اخراجات، زیادہ کاربن اخراج اور خطرناک حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ پس منظر ذہن میں رکھتے ہوئے او ٹی سی اے کی جانب سے “زیادتی” یا “نظرانداز کیے جانے” کے دعوے ہمدردی کے نہیں، مفاد کے نعرے ہیں۔ جس “کوٹہ” سسٹم کو یہ گروہ مقدس سمجھتا ہے، وہ دراصل نااہلی اور عدمِ استعداد کا دوسرا نام ہے۔ پاکستان کی توانائی معیشت اب اس عیاشی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ او ٹی سی اے کے پاس ماضی میں بھی بلیک میلنگ کی ایک تاریخ موجود ہے۔ جب بھی حکومت یا ریگولیٹری ادارے اصلاحات کی کوشش کرتے ہیں، یہ لابی سپلائی بند کرنے، احتجاج یا ملک گیر ہڑتال کی دھمکی دے کر نظام کو یرغمال بنا لیتی ہے۔ نتیجہ ہمیشہ ایک سا رہا ہے — حکومت گھٹنے ٹیک دیتی ہے، وقتی رعایتیں دے دیتی ہے، اور چند ماہ بعد یہی کھیل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔یہ تسلسل نہ صرف پالیسی سازی کو کمزور کرتا ہے بلکہ ریاستی اختیار کی تضحیک بھی ہے۔ اگر ہر معاشی شعبہ دباؤ اور احتجاج کے ذریعے اپنے لیے الگ قانون بنوانے لگے تو پھر نظمِ حکمرانی کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔حکومت اور تیل و گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو اب واضح اور اصولی مؤقف اپنانا ہوگا۔ آٹومیشن نظام، جسے او ٹی سی اے “غلطیوں سے بھرا” کہہ رہی ہے، دراصل شفافیت، نگرانی اور جوابدہی کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔ اگر تکنیکی خامیاں ہیں تو انہیں درست کیا جائے، مگر اس پورے ڈیجیٹل نظام کو ٹرانسپورٹ مافیا کے دباؤ پر ختم کرنا نہ صرف حماقت بلکہ قومی مفاد کے خلاف ہوگا۔ترسیل کی تقسیم یا “شیئر” کا تعین کسی غیر رسمی کوٹہ سسٹم کے بجائے کارکردگی، لاگت، سلامتی اور ماحولیاتی اہداف کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ او ٹی سی اے کے احتجاج کا اصل مقصد یہی ہے کہ یہ معیار کبھی نافذ نہ ہوں۔پائپ لائن کی کم استعمالی دراصل پاکستان کی توانائی سلامتی، معاشی کارکردگی اور ماحولیاتی پالیسی تینوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ جتنا زیادہ تیل سڑک سے جائے گا، اتنا زیادہ ایندھن ضائع ہوگا، اخراج بڑھے گا، اور حادثات کے امکانات میں اضافہ ہوگا۔پاکستان کی مالی گنجائش پہلے ہی محدود ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اب امداد یا قرضے انہی ممالک کو دیتے ہیں جو سبز منتقلی (Green Transition) کی سمت عملی اقدامات دکھائیں۔ اگر حکومت اب بھی فرسودہ نظام کے دفاع میں لابیوں کے سامنے جھک جائے گی تو نہ صرف ملک کا مالی نقصان ہوگا بلکہ بین الاقوامی سطح پر اس کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔یہ حقیقت بھی قابلِ توجہ ہے کہ پاکستان میں ٹرانسپورٹ سے وابستہ کاربن اخراجات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اگر صرف پائپ لائن کے ذریعے ایندھن کی ترسیل بڑھا دی جائے تو ٹرانسپورٹ کے شعبے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں خاطر خواہ کمی ممکن ہے — اور یہ اصلاح کسی بیرونی سرمایہ کاری کے بغیر کی جا سکتی ہے۔ اس کے برعکس، ہزاروں پرانے ٹینکرز، جو ڈیزل جلا کر سینکڑوں کلومیٹر سفر کرتے ہیں، ماحول کے لیے ایک چلتی پھرتی تباہی ہیں۔لہٰذا حکومت کا کردار دو سطحوں پر واضح ہونا چاہیے:اول، موجودہ پائپ لائن نیٹ ورک کو مکمل صلاحیت کے ساتھ استعمال اور توسیع کیا جائے؛دوم، سڑک کے ذریعے ترسیل کرنے والوں کے لیے سخت ریگولیٹری ضوابط، حفاظتی معیارات اور شفاف نگرانی کو یقینی بنایا جائے تاکہ غیر قانونی لوڈنگ، تیل چوری اور اوورہالنگ جیسے جرائم کا خاتمہ ہو۔او ٹی سی اے کے خدشات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے، مگر انہیں پالیسی سازی میں دھمکی یا دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔آخرکار، پاکستان کی توانائی پالیسی کو اس موڑ پر ایک فیصلہ کرنا ہوگا — کارکردگی یا کمزوری۔ اگر حکومت نے مستقبل کی سمت پائپ لائنوں، شفافیت اور ماحولیاتی ذمہ داری کے بجائے ٹینکر مافیا کی خواہشات کے مطابق طے کی، تو یہ فیصلہ صرف توانائی کے شعبے کو نہیں، بلکہ قومی معیشت کو بھی پیچھے دھکیل دے گا۔وقت آ گیا ہے کہ ریاست واضح کرے کہ قومی مفاد چند ٹینکر مالکان کے منافع سے بہت بڑا ہے۔پائیدار ترقی کا راستہ دباؤ کے آگے جھکنے سے نہیں، اصلاح کی جرات سے نکلتا ہے —اور یہی جرات اب حکومت کو دکھانی ہوگی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں