آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

کیچ فیسٹول — علم، امن اور امید کا استعارہ

بلوچستان سے آنے والی خبریں عموماً دہشت گردی، احساسِ محرومی اور سیاسی بےچینی کے گرد گھومتی ہیں۔ ایک ایسا خطہ جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے، مگر جس کے عوام غربت، پسماندگی اور عدمِ استحکام کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ مگر ان ہی تاریک فضاؤں میں جب کوئی خبر علم، ثقافت اور مکالمے کی خوشبو لے کر آتی ہے، تو یہ امید کی ایک کرن بن جاتی ہے۔ تربت میں منعقد ہونے والا “کیچ کلچرل فیسٹول” اسی روشنی کی ایک علامت ہے۔
یہ فیسٹول محض ایک ثقافتی تقریب نہیں تھی، بلکہ بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے امن، علم اور اظہارِ خیال کا جشن تھی۔ اطلاعات کے مطابق فیسٹول کے آخری روز 22 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی — یہ تعداد اس صوبے کے سماجی حالات کے تناظر میں غیر معمولی ہے۔ ضلع کیچ کی انتظامیہ نے فیسٹول کا انعقاد کیا اور بتایا کہ اس سال کتابوں کی فروخت پچھلے برس کی نسبت کہیں زیادہ رہی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان کے عوام تشدد اور انتہا پسندی سے انکار کرتے ہیں، اور وہ اپنی پہچان قلم، مکالمے اور علم کے ذریعے قائم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ منظر بلوچستان کے بارے میں رائج اس عام تاثر کو چیلنج کرتا ہے کہ وہاں کے لوگ سیاسی کشیدگی کے باعث ترقی اور تعلیم سے لاتعلق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے نوجوان اپنی شناخت کو صرف جغرافیہ سے نہیں بلکہ علم و فن سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ فیسٹول میں سیاستدانوں، صحافیوں، اساتذہ اور طلبہ نے مکالمہ کیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ — جو صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں — نے اپنی گفتگو میں بجا طور پر یہ اعتراف کیا کہ بلوچستان میں شرحِ خواندگی اب بھی تشویش ناک حد تک کم ہے، غربت عام ہے، اور جہالت نے کئی نسلوں کو گھیر رکھا ہے۔ مگر اس اعتراف کے ساتھ ساتھ یہ عزم بھی جھلکتا تھا کہ اگر مواقع میسر آئیں تو بلوچستان کے لوگ باقی ملک سے آگے نکل سکتے ہیں۔
یہ حقیقت بھی قابلِ غور ہے کہ جہاں ملک کے بڑے شہروں — لاہور، کراچی اور اسلام آباد — میں ادبی میلے اور ثقافتی تقاریب اب شہری کلچر کا لازمی حصہ بن چکی ہیں، وہیں تربت جیسے دور دراز علاقے میں ایسا فیسٹول ایک انقلابی قدم ہے۔ کیچ جیسے خطے میں، جہاں نوجوان اکثر مسلح تنازعات اور محرومی کے بیانیے کے سائے میں پروان چڑھتے ہیں، وہاں کتاب، مکالمہ اور موسیقی کو فروغ دینا ایک خاموش مگر مؤثر مزاحمت ہے۔
یہ فیسٹول دراصل اس بات کا پیغام ہے کہ بلوچستان کے عوام تشدد کے نہیں، تحریر و تقریر کے راستے کے مسافر ہیں۔ جب ان کے لیے علم کے دروازے کھلیں، جب انہیں اظہار کا موقع دیا جائے، تو وہ نفرت نہیں بلکہ تخلیق کو اپنا شعار بناتے ہیں۔ تربت میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا کتابوں کے اسٹالز پر آنا، لیکچرز سننا، اور مباحثوں میں شرکت کرنا دراصل امن اور روشنی کے لیے اجتماعی پیاس کا اظہار ہے۔
بلوچستان کے لیے یہ راستہ نیا نہیں۔ کوئٹہ، گوادر اور خضدار میں ماضی میں بھی ادبی سرگرمیاں منعقد ہو چکی ہیں۔ مگر ریاستی سطح پر ان کوششوں کو کبھی پائیدار حمایت نہیں ملی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تقاریب وقتی جوش کے بعد ماند پڑ جاتی ہیں۔ اگر حکومت واقعی بلوچستان کے نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانا چاہتی ہے تو ثقافتی اور علمی سرگرمیوں کو سرکاری سرپرستی فراہم کرنی ہوگی۔
بلوچستان کے مسائل کی جڑ صرف معاشی یا سیاسی نہیں بلکہ نفسیاتی محرومی بھی ہے۔ جب ایک نسل اپنے آپ کو مسلسل نظر انداز محسوس کرتی ہے تو اس کے اندر علیحدگی کا احساس جنم لیتا ہے۔ کیچ فیسٹول جیسے اقدامات اسی احساس کو توڑنے کے مؤثر ہتھیار ہیں۔ جب ریاست نوجوانوں کے ہاتھ میں کتاب دے گی، جب مکالمے کے دروازے کھولے گی، تو یقیناً بندوق کی آواز مدھم پڑ جائے گی۔
فیسٹول کا سب سے بڑا پیغام یہی تھا کہ بلوچستان کے نوجوان مایوس نہیں، مواقع کے منتظر ہیں۔ وہ ترقی کے خواہاں ہیں، وہ اپنے صوبے کو صرف احتجاج کے استعارے کے طور پر نہیں بلکہ علم و فن کے مرکز کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے لیے امن اور مساوی مواقع فراہم کیے جائیں، تو وہ بلوچستان کو پاکستان کے ترقی یافتہ صوبوں کے برابر لا سکتے ہیں۔
ریاست کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی صرف سڑکوں، بندرگاہوں یا معدنی منصوبوں سے نہیں آتی، بلکہ تعلیم، ثقافت، اور شعور سے آتی ہے۔ گوادر یا سی پیک جیسے منصوبے تبھی کامیاب ہوں گے جب وہاں کے لوگ خود اپنی ترقی کا حصہ محسوس کریں گے۔ اگر تعلیم اور اظہار کے دروازے بند رہیں، تو کوئی بھی معاشی منصوبہ پائیدار ترقی نہیں لا سکتا۔
یہ فیسٹول ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ ثقافت کسی قوم کی اصل طاقت ہے۔ جب ایک معاشرہ اپنی ثقافت کو زندہ رکھتا ہے تو وہ بیرونی سازشوں، محرومیوں اور تشدد کے باوجود بھی مٹتا نہیں۔ کیچ فیسٹول میں نوجوانوں کی شرکت اس بات کا اعلان تھی کہ وہ اپنی شناخت کسی ہتھیار یا نعرے سے نہیں بلکہ قلم، گیت، اور کتاب سے جوڑنا چاہتے ہیں۔
اب یہ ریاست، سول سوسائٹی، اور میڈیا پر فرض ہے کہ وہ ان مثبت کوششوں کو اجاگر کریں۔ بلوچستان کے حوالے سے صرف دہشت گردی اور شورش کی خبریں دکھانا وہاں کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہمیں بلوچستان کو کتابوں، فیسٹولز، تعلیم اور تخلیقی صلاحیتوں کے زاویے سے دیکھنا ہوگا۔
بلوچستان کا مسئلہ بندوق سے نہیں، علم اور انصاف سے حل ہوگا۔ جب حکومت تعلیم میں سرمایہ کاری کرے گی، جب نوجوانوں کو روزگار کے مساوی مواقع ملیں گے، اور جب انہیں اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کی آزادی دی جائے گی، تبھی بلوچستان میں پائیدار امن ممکن ہوگا۔
تربت کا کیچ فیسٹول دراصل اسی سمت میں ایک قدم ہے — ایک خاموش مگر طاقتور اعلان کہ بلوچستان کے لوگ زندگی سے پیار کرتے ہیں، علم سے محبت رکھتے ہیں، اور امن کے خواہاں ہیں۔ اگر ریاست اور معاشرہ ان کے اس جذبے کا ساتھ دے، تو بلوچستان کا چہرہ بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
یہ فیسٹول ایک علامتی آغاز ہے — مگر ہر انقلاب کی ابتدا ایک علامت سے ہی ہوتی ہے۔ اگر ہم اس علامت کو زندہ رکھ سکیں، تو شاید آنے والے برسوں میں بلوچستان کے بارے میں خبریں بندوق کی گولیوں سے نہیں بلکہ کتابوں، شاعری، اور فیسٹولوں کی روشنی سے بھری ہوں گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں